مولانا محمد علی جوہر نے غلام ملک میں مرنا پسند نہیں کیا

از… محمد مشاہد حسین (جرنلسٹ)
بنگلور 7411740292

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
یہ مشہور شعر اس شخصیت کا ہے جو اس ملک کی معروف یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں میں شامل تھے جنہوں انگریزوں کے خلاف خلافت مومنٹ کاآغاز کیا۔اپنی شعلہ بیان تقریر سے سامنے والے سامعین کے دلوں کو جگادیتے تھے ۔اور جو اعلیٰ درجے کے صحافی ہے ۔اس شخصیت کو دنیا مولانا محمد علی جوہر کے نام سے یاد کرتی ہے ۔آج ہی کے دن یعنی چار جنوری کو آپ کا یوم وفات ہے
محمد علی جوہر اتر پردیش کے رام پور کے ایک معززخاندان میں 10 دسمبر 1878کو پیدا ہوئے، علی بردران کی ذھنی وفکری تربیت میں ان کی والدہ بی اماں کا بڑا رول تھا، مولانا محمد علی کے دل میں ملت اسلامیہ کا بڑا درد تھا،آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ۔آکسفورد یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔جہاں سے وہ جدید تاریخ میں بی اے آنرز کی سند حاصل کرنے کے بعد انیس سو تین میں بھارت واپس آگئے ۔ اور رام پور اور بڑدوہ میں ملازمتوں پر فائز ہوئے لیکن جنوری 1910 میں ملازمت ترک کردی،کلکتہ جاکر انگریزی کا ہفتہ وار اخبار کامریڈ نکالا، جب انگریزوں نے بھارت کی راجد ھانی کلکتہ کی بجائے دہلی بنایا تومحمدعلی جوہر کامریڈ کا دفترکو دہلی منتقل کرلیا۔

’’آزاد ملک میں مرنا پسند کروں گا لیکن غلام ملک میں واپس نہیں جائوں گا‘‘ … (محمد علی جوہر)

انہوں نے مسلمانوں کی آسانی کے لئے ہمدرد نامی اردو پرچہ کا اجرا کیا، جو بعد میں روزنامہ ہمدرد کے نام سے مشہور ہوا، باشندگان ہند کو آزادی وطن کے لئے بیدار اور تیار کرنے کی غرض سے مولانا نے صحافت کو موثر ذریعہ بتایا۔
اور علی برادران کی تحریک خلافت نے ملک میں آزادی کی تڑپ پیدا کردی ، اس تحریک نے انگریزی اسکولوں، کالجوں اور سرکار کی نگرانی میں چلائے جانے والے تعلیمی اداروں کو چھوڑ دینا فرض قرار دے دیا، چنانچہ تعلیمی محاذ پر ترک موالات کے لئے مولانا محمد علی جوہر نے علی گڑھ کے ایم اے او کالج سے پہل کی۔بالآخر 29اکتوبر 1920 کو جمعہ کے دن ایم اے او کالج کی مسجد میں بعد نماز جمعہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی رسم افتتاح شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن کے ہاتھوں ادا ہوئی۔ حکیم اجمل خاں کو پہلا ویس چانسلر بنایاگیا۔
پہلی جنگ عظیم چھڑی تو مولانا نے اپنے ہفتہ واری انگریزی اخبار کامریڈ میں خلافت عثمانیہ اور ترکی کی حمایت میں لکھا، اس سے انگریز حکومت سخت پریشان ہوئی، اس نے مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی کو نظر بند کردیا اور دونوں اخبار بند ہوگئے،1919 میں نظر بندی سے رہا ہوئے، تحریک خلافت آگے لیکر چلے۔
مولانا محمد علی جوہر جب بولتے تھے تو فصاحت وبلاغت کا دریا بہادیتے، گھنٹہ دو گھنٹہ چارگھنٹے تقریر کا سلسلہ جاری رہتاان کی تاریخی تقریر کا یہ حصہ جو انہوں نے گول میز کانفرنس لندن میں کہاتھامیں ایک غلام ملک کو واپس نہیں جاؤں گا میں ایک غیر ملک میں بشرطیکہ وہ آزاد ملک ہو مرنے کو ترجیح دوں گا اور اگر آپ ہم کو ہندوستان میں آزادی نہیں دیں گے تو آپ کو مجھے قبر دینی پڑے گی۔
عزم و ارادے کے پختہ اور قول کے سچے محمد علی بالاخر غلام ملک واپس نہیں آیا۔4 جنوری 1931کو ساڑھے نو بجے صبح لندن کے ہائڈ پارک ہوٹل میں جہاں ان کا قیام تھا، جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اولین شیخ الجامعہ ، ہندوستان کے صف اول کا رہنما اپنے وطن سے دور دیار غیر میں ابدی نیند سوگیا، مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے مولانا کے جسد خاکی کو پیغمبروں کے سرزمین فلسطین میں قبلہ او ل بیت المقدس میں دفن کیا گیا
مولانا محمد علی جوہر خدمات کئی لحاظ سے قابل قدر ہیں، ملک کی آزادی کی جد وجہد، تحریک خلافت، اشاعت تعلیم، فروغ اردو،صحافت کے ذریعہ عوامی بیداری کے لئے اپنی مخلصانہ کوشش وکاوش میں وہ بہت کامیاب رہے۔

 

Comments are closed.