ان لٹیروں سے ہوشیار رہیں۔

محمد صبغۃ اللہ مظاہری دیناجپوری
مقیم حال: میراروڈ، تھانے
لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیگر لوگوں کی طرح میرا بھی برا حال ہوگیا تھا، روزگار کی تلاش میں قرض لیکر ممبئی پہونچا، پہلی والی نوکری چھوٹ چکی تھی، اور صرف دو کے علاوہ سارے ٹیوشن بھی چھوٹ چکے تھے، بائک تو پہلے ہی بیچ چکاتھا۔بہرحال ان ہی دونوں ٹیوشن کو غنیمت سمجھ کر پکڑلیا، ایک صبح اور ایک شام ٹیوشن تھی، صبح والی جائے رہائش سے کافی دور تھی، رکشہ سے جانے میں 40 روپیے لگ جاتے تھے۔ اس لئے فجر کی نماز کے بعد بغیر ناشتہ کے پیدل ہی نکل جاتاتھا۔ چار مہینے مستقل محنت کرکے چھ ہزار روپیے بچا پایا۔
اسی دوران میرے گاؤں کے علماء کرام نے جلسہ اصلاح معاشرہ کیا، میرے پاس فون آیا کہ آپ کو کم سے کم دو ہزار روپیے چندہ دینا ہے، کیوں کہ ایک بڑے مقرر کو بلانا ہے، ان کے آنے جانے اور کھانے پینے اور رہائش کے لئے کل بجٹ 30000 طے کیا گیا، ہدیہ ان کے علاوہ ہے، جو ان کے خادموں سے پوچھ کر دےدیا جائےگا، ویسے عام طور پر وہ تیس ہزار روپیے لیتے ہیں، لیکن ہمارے گاؤں کے امام صاحب سے اچھے روابط ہیں؛ اس لئے بیس پچیس ہزار روپیے تک راضی ہوجائیں گے۔
میں نے کہا کہ اور کون کون آرہے ہیں؟ تو جواب دیا کہ مقررصاحب اپنے ساتھ ایک شاعرِ اسلام اور ایک اناؤنسر کو بھی لیکر آئیں گے۔اناؤنسر یقینا میدان نظامت کے مجاہد ہیں، اور اسٹیج کے بے تاج بادشاہ بھی۔ اور شاعرصاحب بھی بلبل بنگال اورشہنشاہ ترنم ہیں۔ وہ حسان بنت ثابت رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہیں۔ ان کی غزلیں دل سے دل تک پہونچتی ہیں۔
انھوں نے ایک اور شاعر کا نام لیا ان کے بارے میں کہا کہ ان غزلوں کی وجہ سے تو بھیڑ جمع ہوتی ہے ان کو نہیں بلائیں تو لوگ آئیں گے ہی نہیں۔۔۔لوگ تو لوگ فرشتے بھی ان کی غزلوں کو سن کر جھوم اٹھتے ہیں، وہ مردہ دلوں میں حیات جاوداں بخشتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ
میرے پوچھنے پر بتایا کہ اناؤنسرصاحب کی فیس چالیس ہزار روپیے ہے؛ لیکن وہ تیس ہزار روپیے لیں گے، جب کہ شاعرصاحب کی فیس پچاس ہزار روپیے ہے۔وہ پینتالیس ہزار روپیے پر راضی ہوگئے ہیں۔
یہ سب سن کر یقین مانیے کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، کیوں کہ میں بھی حافظ ہوں، عالم ہوں، ایک جگہ افتاء بھی کررہا تھا؛ لیکن غربت کی وجہ سے نہیں کرسکا، مجبوراً ایک جگہ امامت کرنے لگاتھا، وہ جگہ چھوٹ گئی تو ٹیوشن پر اکتفا کیا۔
صبح وشام ٹیوشن والے کے گھر جاکر ایک ایک گھنٹہ پڑھاناپڑتاہے، پچیس دونے پچاس بار ایک مہینے تک پیدل چلنا پڑتاہے، کبھی ناشتہ، کبھی چائے اور کبھی کھانا تک چھوڑنا پڑتا ہے۔ تب جاکر مہینے میں چار ہزار روپیے ہاتھ آتے ہیں۔ دوسری طرف یہ لٹیرے دین کے نام پر دھڑلے سے دو تین گھنٹے میں ہزاروں روپیے کمالیتے ہیں۔ کوئی محنت نہیں، کوئی انوسٹمنٹ نہیں، قوم کے پیسوں سے ”اے سی“ میں سفر کرتے ہیں، دینی حالت ایسی کہ کم بخت نماز تک نہیں پڑھتے ہیں، ان کے ذریعے اصلاح خاک ہوگی، ان کے دل ودماغ میں پیسوں کا بھوت سوار رہتا ہے، ایک نمبر کے لالچی اور بد تہذیب ہوتے ہیں، دین کو بیچ کر پیٹ بھرتے ہیں، امت کے نکمے لوگوں نے یہ دھندہ شروع کردیا ہے، کیا یہ دین کے نام پر ڈاکہ زنی نہیں ہے؟ کیا یہ لوگوں کو ٹھگنا نہیں ہے؟
اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہےکہ عوام بھی ان کوخوشی بخوشی پیسہ دےدیتے ہیں۔ میں سوچنے لگاکہ کیا یہی انصاف ہے؟ کیا یہ دین کے نام پر پیسہ ضائع کرنا نہیں ہے۔
بہرحال میں نے تو پیسہ نہیں دیا؛ لیکن جلسہ کرنے والوں نے میرے والدصاحب سے بہلا پھسلا کر پانچ سو روپیے چندہ لے لیا، جو گویاکہ میرےہی کھاتے سے گیا۔
اس لئے ہاتھ جوڑ کے تمام مفتیان کرام سے گزارش ہے کہ اس طرف توجہ دیں اور ایسے ٹھگنے والے لوٹنے والےلٹیروں سے عوام کو ہوشیارکریں۔ انھیں بیدارکریں کہ اپنا پیسہ ضائع نہ کریں، اپنا پیسہ بچوں کی تعلیم پر خرچ کریں، اپنی مسجد کے امام، اپنے مدرسہ کے اساتذہ کو غنیمت جانیں، انھیں مناسب مشاہرہ دیں۔ اس کے باوجود اگر آپ کے پاس پیسہ زیادہ ہے تو دوسرے علاقہ کے ائمہ مساجد اور مدارس کے اساتذہ کو دیں، جو صبح و شام آپ کو نماز پڑھاتے ہیں، اور آپ کی اولاد کو قرآن اور دین کی باتیں سکھاتے ہیں، ان کو آپ نے اگر دو چار سو زیادہ ہی دے دیے تو بھی فائدہ ہے، پھر بھی ان لٹیروں کو نہ دیں۔
Comments are closed.