سوشل میڈیا کے نجی زندگی پر منفی اثرات

فریحہ جاوید(سیالکوٹ)
سوشل کا مطلب ہے۔ سماجی اور میڈیا کا مطلب ہے۔ مواصلات
سوشل میڈیا جو کہ ہر انسان کے زیر استعمال ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ :”ہرچیز کے فواٸدبھی ہوتے ہیں اور نقصانات بھی“۔ بالکل اسی طرح سوشل میڈیا کے فواٸد کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی ہیں۔ اس جدید دور میں اس کا استعمال ویسے بھی عروج پر ہے، جس کی وجہ سے اس کے نقصانات بھی اسی قدر بڑھ چکے ہیں۔یہ ہماری نجی زندگی پر منفی اثرات مرتب کررہا ہےاس کی مختلف اقسام ہیں ۔
جیسا کہ: واٹس ایپ، فیس بک ، ٹو ٸیٹر ،انسٹا گرام، یوٹیوب، انٹرنیٹ وغیرہ ۔اگر ہم بہت پیچھے بھی نہ جاٸیں اور صرف سال 2021 میں لوگوں کا سوشل میڈیا کی طرف رحجان دیکھیں(جو کہ نۓ سروے سے ظاہر ہے )وہ کچھ اس طرح سے ہے :فیس بک : %88. 7 ،ٹوٸیٹر: %8.83 ،یو ٹیوب%0.87 ،انسٹاگرام : % 0.84 ،پی انٹرنیٹ: %0.53سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگ بےچینی ،ڈپریشن،آنکھوں کی بیماریاں ،جوڑوں کے درد اور دماغی بیماریوں میں مبتلا ہیں ۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا نے ہمارے گھریلو نظام کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ابھی بچہ ایک سال کا ہوتا نہیں ہے کہ اُس کے ہاتھ میں موباٸل تھما دیا جاتا ہے کہ کارٹونز دیکھ لے یا گیمزکھیل لے ۔ماٸیں بچوں کی تربیت صحیح طریقے سے نہیں کر پا رہیں۔ بلکہ اُن کو موباٸل کا استمعال کرنا سکھا رہی ہیں،جس کی بنا پر وہ بہت چھوٹی عمر میں ہی اپنا الگ سے موبائل لینے کی رٹ لگاتے ہیں اور ماں باپ ان کی جب یہ ضد پوری کرتے ہیں اور اسی طرح باقی ہر ضد پوری کر کے انہیں ضدی اور ہٹ دھرم بنا دیتے ہیں، اسی بنا پر۔ وہ اپنا مستقبل بھی برباد کر بیٹھتے ہیں ۔ عورتوں کا رحجان زیادہ تر یو ٹیوب سے ڈرامہ سرچنگ کی طرف ہے۔نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنا زیادہ تر قیمتی وقت واٹس اپ اور فیسبک گروپس میں خوش گپیاں کرنے میں گزار دیتے ہیں۔اور اس کے ساتھ ساتھ یو ٹیوب پر موویز ، ڈرامہ اور فحاشی و عیاری سےبھرپور ویڈیوز دیکھتے ہیں۔ نہ ہی اپنی تعلیم پر بھرپور توجہ دیتے ہیں جس کا نتیجہ امتحانات میں ناکامی نکلتا ہے ۔ان سب کے بے جا استمعال سےان کے دماغوں پر بُرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔اب اس طرح ہمارا معاشرہ برباد ہو رہا ہے اور ہم اسلام سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔مثال کے طور پر: جعلی اکاونٹس بنا کے لوٹ مار کرنا ،لوگوں کو خصوصی طور پر، لڑکیوں کو تنگ کرنا ،جعلی محبتیں کرنا، ویڈیوز لیک کرنا، تصاویروں کا وائرل ہونا، لڑکیوں کا مغربی رہن سہن اختیار کرنا (فیشن کرنا ،پینٹس شرٹس کا استعمال، پہننا دوپٹہ اتارنا ،پردے سے دوری )، ہر طرح کا تہوار منانا مثال کے طور پر میری کرسمس، ہولی، دیوالی وغیرہ ، یہاں تک کے ہماری عزت بھی محفوظ نہیں رہنے دی۔ قرآن پاک میں آتا ہے کہ:”جس نے کسی دوسری قوم کی روش اختیار کی وہ ہم میں سے نہیں۔ "اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس سوشل میڈیا نے ہمیں مسلمان بھی نہیں رہنے دیا۔۔”جب سوشل میڈیا ایسی جگہ بن جائے جہاں آپ اپنی منفی سوچ لکھنا شروع کر دیں یا دوسروں کی وجہ سے آپ منفی سوچنا شروع کر دیں ۔تو چھوڑ دیں اس کو ، اس سے پہلےکے آپ اپنی ساکھ کھو دیں” ۔آپ نے کس جانب جانا ہے اسلام یا پھر اس غلاظت کا ہاتھ تھام کر اپنی آخرت ،اپنی سماجی، معاشی اور معاشرتی زندگی کو سب کچھ خراب کرنا ہے یہ سوچنا آپ کا کام ہے۔دعا ہے کے اللہ ہمیں اس غلاظت سے محفوظ فرمائے اور ہمیں سیدھا راستہ دکھائے ۔آمین!
Comments are closed.