اسلام میں وطن پرستی کا مفہوم ( قسط10)

بقلم:مفتی محمداشرف قاسمی

دارالافتاء:مہدپور،اُجین ایم.پی

5۔حق مساوات

اھل الذمۃ فی المعاملات کالمسلمین، ماجاز للمسلم ان یفعلہ فی ملکہ جاز لھم ومالم یجز للمسلم لم یجز لھم۔(الفتاوی الخیریۃ ج1 ص92)
”اہل ذمہ(اسلامی ملک میں مقیم غیرمسلمین) کے معاملات مسلمانوں کی طرح ہیں، اپنی مملو کہ چیزوں میں جو کاروباراورباتیں مسلمانوں کے لیے جائزہیں، وہ اہل ذمہ کے لیے بھی جائز ہیں اور جو کاروبار یا باتیں مسلمانوں کے لیے ممنوع ہیں وہ اہل ذمہ کے لیے بھی ممنوع ہیں۔“
(الفتاوی الخیریۃ ج1 ص92)

علامہ شامیؒ فرماتے ہیں:
”فان قبلوا الجزیۃ(وھی ضریبۃ دفاع بمقدار دینار واحد علی الشخص القادر) فلھم مالنا، وعلیھم ماعلینا من الانصاف(المعاملۃ بالعدل والقسط،)والا نتصاف(الاخذ با لعدل) ای انہ یجب لھم علینا،یجب لنا علیھم لوتعرضنا لدمائھم واموالھم او تعرضوا لدمائنا واموالنا مایجب لبعضنا علی بعض عند التعرض۔
(رد المحتار مع الدر المختار، ج 3ص307/)
”اسلامی ملک میں رہنے کے لیے جزئیہ ادا کرنا قبول کرلیں (یہ جزئیہ ان کی حفاظت وسکوریٹی کے لیے ایک قسم کا ٹیکس ہے، جو کہ ہر صاحب وسعت شخص پر ایک دینار آتا ہے) تو انھیں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ اور ان پر وہ تمام باتیں لازم ہوں گی جو مسلمانوں پر لازم ہوتی ہیں۔ یعنی ان کے معاملا ت اور مالیات میں انصاف اور صحیح فیصلے کرنا اوران سے تاوان وغیرہ انصاف کے ساتھ لینا، یعنی اگر ہم مسلمان ان کے خون یا ان کے اموا ل سے تعرض کریں یا وہ ہمارے خون یااموال سے تعرض کریں تو ان کے لیے ہم پرجوتاوان لازم ہو گا، ہمار ے لیے ان پر بھی وہی لازم ہوں گے،جو باہم تعارض واختلاف کے وقت ہم مسلمانوں پر لازم ہوتے ہیں۔“ (رد المحتار مع الدر المختار، ج 3ص307/)

*6۔حفاظت جان،مال، آبرو*

اسلامی ریاست میں موجودغیرمسلم (ذمی یامعاھدیا مستامن) کی جان مال،عزت،آ برو معاش کی حفاظت اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ حتی کی اگر کوئی دوسرا ملک اُسے قید کرلے یا اس پرتعدِّی وزیادتی کرے تو اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کا دفاع کرے:
”ان ابا عبیدۃ بن الجراحؓ- کما ذکر ابو یوسف فی کتابہ الخراج- صالح اھل الشام علی دفع الجزیۃ عند الفتح الاسلامی لبلاد الشام، فلما رأی اھل الذمۃ وفاء المسلمین لھم، وحسن السیرۃ فیھم، صاروا اشدَّا ء علی عدو المسلمین، وعوناً للمسلمین علی اعدائھم، فکانوا یتجسسون الاخبار عن الروم وعن مُلکھم۔ ولما اشتد خطر الروم علی المسلمین امر ابو عبیدۃ برد الجزیۃ والخراج علی النصاری دی حمص وغیرھا، فردوا علیھم الاموال التی جبو ھا منھم، فقالوا:’ردکم اللہ علینا، ونصرکم علیھم، فلو کانوا ھم لم یردوا علینا شیئا، واخذوا کل شیء بقی لنا حتی لا یدعوا لنا شیئا، ھذالفرح من اھالی حمص وغیرھم بزوال حکم الصبین۔
”حضرت امام ابو یوسف ؒ نے اپنی کتاب الخراج میں بیان کیا ہے کہ:شام کی فتح کے وقت حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ نے اہل شام سے جزیہ کی ادائیگی پر صلح کرلی،اہل ذمہ نے اپنے حق میں مسلمانوں کی وفا داری اوراپنے درمیان مسلمانوں کے حسن اخلاق کو ددیکھ کروہ مسلمانوں کے دشمنوں پر بہت سخت ہو گئے، اور مسلمانوں کے دشمنوں کے مقابلے میں مسلمانوں کےمدد گار بن گئے،چنانچہ مسلمانوں کی مدد کے لیے وہ روم اور خود اپنے ملک میں مختلف خبروں کی جاسوسی کرتے تھے۔ لیکن جب مسلمانوں پر روم کا خطرہ سخت ہوگیا تو حضرت ابو عبیدہ ؓ نے حمص وغیر علاقوں میں جزیہ اور خراج کی رقوم واپس کرنے کا حکم جاری فرمایا،اورپھر ان کے وہ اموال جو ٹیکس(جزیہ یاخراج) سے وصول کیے گئے تھے لوٹا دیئے گئے، اس پر ان اہل ذمہ نے بیک زبان کہا: اللہ تم کو ہمارے پاس حاکم بنا کر دوبارہ واپس لائے، اور تمہارے دشمنوں پر تمہاری مدد فرمائے، کیونکہ اگر وہ (اہل روم) ہوتے تو وہ ہمیں کچھ بھی نہ واپس کرتے اور جو کچھ ہمارے پاس بچا ہے اسے بھی لے لیتے یہاں تک کہ وہ ہمارے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑتے، حمص وغیرہ کے لوگوں کو دوبارہ اس وقت خوشی حاصل ہوئی جب اہل صلیب کی حکومت وہاں نہیں قائم ہو پائی۔“
(حقوق المواطنۃ وواجباتھا فی ضوء الکتاب والسنۃ،الدکتور حسن السید خطاب، شریک الا شاعۃ فی:بحوث العلماء العرب،ص 274/ایفا دلھی2014ء، ماخوذمن: غیر المسلین فی المجتمع السلامی،ص10/ الدکتور یوسف القرضاوی)

”ولو اُسر بعض المعاھدین من الاعداء، وجب علی المسلمین فکاک اسرھم، من امثلۃ ذالک، حینما تغلب التتار علی بلا د الشام، ذھب شیخ الاسلام ابن تیمیۃ لیکلم’قطلو شا‘ فی اطلاق الاسری، فوافق القائد التتر ی علی اطلاق اسری المسلمین،دون اسری اھل الذمۃ، فقال ابن تیمۃ: لا نرضی الا بفکاک جمیع الا ساری من الیھود والنصاری، فھم اھل ذمتنا، ولا ندع اسیراً، لامن اھل الذمۃ،ولا من اھل الملۃ، فلما رأی اصرارہ وتشددَہ، اطقلھم۔
”اوراگردشمنوں کے ہاتھوں میں کچھ معاہد(غیر مسلم)قید کرلیے جائیں توانھیں قید سے رہائی دلانا مسلمانوں پر واجب ہے۔اس کی مثال وہ واقعہ ہے جب تاتاری شام کے شہروں پر غالب آ گئے تو شیخ الاسلام ابن تیمہؒ قیدیوں کی رہائی کی بات کرنے تاتاری پیشوا’قطلوشا‘کے پاس گئے، جس پرتاتاری پیشوانے اہل ذمہ قیدیوں کے بجائے صرف مسلمان قیدیوں کی رہائی پر اتفاق کیا، لیکن ابن تیمیہ ؓ نے کہاکہ ہم (مسلمان) یہودی، عیسا ئی تمام قیدیوں کی رہائی پر ہی رضامند ہوں گے، کیونکہ وہ ہمارے اہل ذمہ ہیں، اس لیے ہم کسی ایک قیدی کو بھی رہاکرائے بغیر نہیں چھوڑیں گے، نہ اہل ذمہ کو،اورنہ اہل ملت(مسلمان)کو۔
تو تاتاری سردار نے ابن تیمیہؒ کے اصرار و سختی کو دیکھتے ہوئے تمام قیدیوں کو رہا کردیا۔“
(حقوق المواطنۃ وواجباتھا فی ضوء الکتباب والسنۃ،الدکتور حسن السید خطاب، شریک الا شاعۃ فی:بحوث العلماء العرب،ص 275/ایفا دلھی2014ء، ماخوذمن: آ ثار الحرب فی الفقہ الا سلامی – دراسۃ مقارنۃ للباحث708- 709)

*7۔خصوصیات وامتیازات کی رعایت*

ان کے خاندانی وعائلی معاملا ت (شادی بیاہ، طلاق،فسخ وغیرہ) ان کے مذہبی معتقدات کے مطابق حل کیے جائیں گے۔ اور ان کے مذہب کے مطابق جوماکولات ومشروبات جائز ہیں،(اسلام میں ان کے استعمال پر پر سزا ہے تو بھی) اُن کے استعما ل پر انھیں سزانہیں ہو گی۔

*8۔تعلیم وتعلُّم*

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہِ وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ (125)النحل
”(اے رسول!) آ پ اپنے پروردگار کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ذریعہ بلایئے اور ان سے بہتر طریقہ پر بحث کیجئے، یقینا آ پ کے پروردگاراس شخص سے بھی واقف ہیں، جو اپنے راستے سے بھٹک گیا اور راہ راست پر لگنے والوں کو خوب جانتے ہیں (125)النحل

وَلَا تُجَادِلُوا أَھْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِی ھِیَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْھُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِی أُنزِلَ إِلَیْنَا وَأُنزِلَ إِلَیْکُمْ وَإِلَٰھُنَا وَإِلَٰھُکُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ (46) العنکبوت
”اور اہل کتاب سے ایسے طریقے سے بحث کیا کرو جو سب سے بہتر ہو، ہاں اُن میں سے جو زیادتی کرے (تو ان کو اسی کے مطابق جواب دے سکتے ہو) اور کہو کہ ہم اس کتاب پر بھی ایمان لائے،جو ہماری طرف اُتاری گئی ہے، اور ان کتابوں پر بھی جو تمہاری طرف اُتاری گئی ہیں، نیز ہمارے تمہارے معبود ایک ہی ہیں، اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں“(46) العنکبوت

*9۔حسن معاملہ وسلوک*

لا یَنھیکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِینَ لَم یُقَاتِلُوکُم فِی الدِّینِ وَ لَم یُخرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُم اَن تَبَرُّوھُم وَ تُقسِطُوا اِلَیھم اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ المُقسِطِینَ
(8)الممتحنہ
”اور اللہ تم کو ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتے، جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے لڑائی نہیں کی،اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، یقینا اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں، (8)الممتحنہ

اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (134)آل عمران
”یہ وہ لوگ ہیں جو خو شحالی میں بھی (اللہ کے راستے میں)خرچ کرتے ہیں، اور تنگدستی میں بھی، غصہ پی جاتے ہیں،لوگوں سے در گذر کرتے ہیں اور اللہ تعالی بھلائی کرنے والوں سے محبت رکھتے ہیں (134)آل عمران

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّءَۃُادْفَعْ بِالَّتِی ھِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ(34) حٰمٓ السجدۃ
”اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی (اس لیے برائی کا) ایسے طریقے سے جواب دیجئے جو بہت اچھا ہو، تو یکایک جس شخص کے اور تمہارے درمیان دشمنی تھی، وہ ایسا ہوجائے گا جیسے کوئی جگری دوست(34) حٰمٓ السجدۃ

آ پ ﷺ نے فرمایا:
قال رسول اللہ ﷺ: من آذی ذمیا فانا خصمہ، ومن کنت خصمہ خصمہ یوم القیامۃ،(کنز العمال، برقم الحدیث، 10913)
”حضرت رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی ذمی(اسلامی ریاست میں رہنے والے کسی غیر مسلم) کو تکلیف پہونچائی تو میں اس ذمی کی طرف سے اُس تکلیف پہونچانے والے کے خلاف خصم بنوں گا اور قیامت کے دن اس تکلیف پہونچانے والے سے جھگڑا کروں گا۔“ (کنز العمال، 10913)

ترتیب:
*محمد فاروق قاسمی*

مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی، ضلع:شاجاپور،ایم پی۔
23جمادی الاوّل 1443ھ،
28دسمبر2021ء
جاری۔۔۔۔۔

Comments are closed.