اسلام میں وطن پرستی کا مفہوم ( قسط11)

بقلم:مفتی محمد اشرف قاسمی
10-الضمان والتکافل
دارالافتاء:مہدپور،اجین ایم پییثاق مدینہ کے23دفعات میں مسلم و غیر مسلم تمام رعایا کے لیے حق ضمان وتکافل کابیان موجود ہے۔
(السنن الکبری ج 8ص105، سیرت ابن ہشام ج1 ص 501تا504)
ریاستِ اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ جوغیر مسلمین اسلامی ریاست میں رہتے ہوں ان کی طبعی حاجات اور معاشرتی ضروریات کا خیال رکھے۔ان کے محتاجوں کی مدد کی جائے اور کسب ِمعاش سے معذوروں کے لیے وظائف کا بند وبست کرے۔خلفاء اسلام کے آ ثار میں اس کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں مثلاً:
”قصۃ عمر وشیخ نصرانی: مرَّ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، بشیخ من اھل الذمۃ، یسأل علی ابواب المسجد بسبب الجزیۃ والحاجۃ والسِّن،فقال: ما انصفناک، کنا اخذنا منک الجزیۃ فی شیبک ثم ضیعناک فی کِبَرک، ثم اجری علیہ من بیت المال ما یصلحہ، ووضع عنہ الجزیۃَ وعن ضرباتہ،2؎ ای نظراۂ، استدل بآ یۃ مصارف الزکوۃ وھی قولہ تعالی:’اِنما الصدقاتُ للفقراء والمسا کین۔](60) التوبہ، [ والفقراء ھم المسلمون،وھذا من مساکین من اھل الکتاب۔
”حضرت عمرؓ اور ایک نصرانی بوڑھے کا قصہ ہے کہ: آپ ؓاہل ذمہ میں سے ایک بوڑھے کے پاس سے گزرے جو کہ اپنی درازیِِ عمر، ضرورت اور جزیہ کے لیے مسجد کے دروازوں پر بھیک مانگ رہاتھا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: میں نے تمہارے ساتھ انصاف نہیں کیا، ہم نے تمہاری جوانی میں تم سے جزیہ لیا پھر تمہاری پیرانہ سالی میں تمہیں ضائع کردیا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المال سے اس کی ضروریات کے بقدر اس کے لیے وظیفہ جاری فرمایا، اور اس سے جزیہ اور ٹیکس معاف کردیا۔ اوربیت المال سے غیرمسلم (ذمی) کی اس قسم کی امداد پر مصارف زکوۃ والی آ یت سے استدلال فرمایا وہ آ یت یہ ہے:اِنما الصدقاتُ للفقراء والمسا کین’زکوۃ غریبوں، حاجتمندوں… کاحق ہے(60) التوبہ، اور فرمایا فقراء تو وہ مسلمان ہیں اور یہ اہل کتاب کے مساکین میں سے ہے‘۔“
(حقوق المواطنۃ وواجباتھا فی ضوء الکتباب والسنۃ،الدکتور حسن السید خطاب، شریک الا شاعۃ فی:بحوث العلماء العرب،ص 277/ایفا دلھی2014ء، ملتقتامن: ا لخراج لابی یوسف ص126/، منتخب کنزالعمال من مسند احمد ج 2ص309)
قصۃ خالد واھل الحیرۃ:جاء فی کتاب الصلح بین خالد بن الولید رضی اللہ عنہ، واھل الحیرۃ فی العراق: وجعلت لھم ایما شیخ ضعُف عن العمل، او اصابتہ آ فۃ من الآ فات، او کا ن غنیا فافقر وصار اھل دینہ یتصدقون علیہ، ظرحتُ جزیتَہ، وعیل من بیت مال المسلمین وعیالہ، مااقام بدارلھجرۃ، ودارالاسلام“
”حضرت خالدؓ اور اہل حیرہ کا قصہ ہے،جو عراق میں حضرت خالدؓ اور اہل حیرہ کے درمیان صلح نامہ میں تحریر ہے کہ: حضرت خالد ؓنے فرمایا کہ میں اِن (ذمیوں) میں سے جوکوئی معذور ہو جائے یا اُسےکوی مصیبت آن پڑے۔ یا کوئی پہلے مالدار تھا پھر وہ فقیر ہو گیا، اور اس کے ہم مذہب صدقات سے اس کی مدد کرنے لگیں، تو اس کے لیے میں نے بیت المال سے کچھ وظیفہ مقرر کردیا، اس سے میں نے جزیہ ہٹا دیا،اورجب تک وہ دارالہجرت یا دارالاسلام میں مقیم ہے،اُس وقت تک اس کی اوراس کے کنبہ کی مسلمانوں کے بیت المال سے کفالت کی جائے گی۔“ (ایضا ص 278/ ملتقتامن: الاموال لابی عبید، ص57/)
”قصۃ عمر بن عبدا لعزیز وعاملہ علی بصرۃ: کتب عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہُ الی عدی بن اَرطاۃ علی البصرۃ قائلا: وانظر مَن قِبَلک من اھل الذمۃ من کبَرت سنُّہ، وضعُفت قوتُہٗ وولَّت عن المکاسب، فاَجر علیہ من بیت المسلمین ما یصلحہ۔
”حضرت عمر بن عبدا لعزیز اوربصرہ میں اُن کے گورنر کا قصہ ہے۔حضرت عمر بن عبدا لعزیز نے علی ابن ارطاۃ کو بصرہ میں یہ کہتے ہوئے خط لکھاکہ:’تمہارے یہاں جو قوی ہو اس پر نظر رکھو ان میں جس کی عمر زیادہ ہوجائے اورجس کی قوت کمزور ہوجا ئے،اور جو کمانے سے معذور ہوجا ئے تو اس کے لیے مسلمانوں کے بیت المال سے اس کی ضروریات کے مطابق وظیفہ جاری کرو۔“ (ایضا ص278/ ملتقتامن: الاموال لابی عبید، ص57/)
*وطن کے لیے اسلامی ہدایات*
1۔وطن سیاسی و جغرافیائی اور شہری انتظامات کانام ہے، وطن کے ساتھ عبادت اورعقیدے کاکوئی تصور نہیں ہے۔ وطن یا ریاست کی وفاداری کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اس کی پوجا کی جائے، بغیر پوجا کے بھی خدمت اور وفا داری بلکہ فدا کاری پائی جاتی ہے۔
اسلام میں اللہ کے علاوہ کسی بھی شیء، ہستی یاوطن کی پرستش قطعی طورپر ممنوع اور گناہ کبیرہ ہے۔
2۔اسلامی ریاست، دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے مسلمانوں کا وطن ہیں۔ اسلامی ریاست میں پنا ہ لینے والے مسلمانوں کو شرعی لحاظ سے وہاں کے اصل باشندوں کی طرح تمام حقوق ومراعات حاصل ہیں۔
3۔اسلامی تعلیم کے مطابق وطن کے سلسلے میں صرف یہی نہیں ہے کہ وطن پر باشندوں کے حقوق لازم ہیں بلکہ باشندوں پر بھی وہ حقوق لازم ہوتے ہیں جن سے وطن کو استحکام وترقی حاصل ہو۔
4۔اسلامی ریاست میں توطن اختیار کرنے تمام افراد کے حقوق میں انسان کی مذہبی آزادی، امتیازات، ملکیت،معیشت، انسانی شرافت، اوردیگر خصوصیات کا حق حاصل ہے۔
5۔اسلامی ریاست کے حکام کی طرف سے جاری ہونے والی جائز ہدایات کی پیروی کرنا، دوسروں کو حاصل آزادی و خصوصیات کا لحاظ کرنا اسلامی ریاست کے باشندوں پر لازم ہے۔
6۔مسلم ریاست اور مسلم رعایاکی یہ بھی ذمہ داری ہے وہ دوسروں کو اسلام سمجھائیں اور اسلام کی دعوت دیں۔
7۔اسلامی ریاست کے تمام باشندوں کو عدل وانصاف کے ایک پیمانے سے مربوط کرکے انھیں باہم مرافقت کے ساتھ رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
8۔ریاست کے تحفظ وترقی اور استحکام کے لیے حکومت کا ساتھ دینا ریاست کے تمام باشندوں کی ذمہ داری ہے۔
9۔ اسلامی ریاست میں موجود غیر مسلموں کو مذہب پر عمل کی آزادی کے ساتھ ان کی جان،مال، معاش، آ برو کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ان کے فقر وافلاس اور کسب معاش سے معذور ہوجانے کی صورت میں ان کے لیے بیت المال سے اتنی مقدار میں وظائف جاری کیے جائیں، جس سے ا ن کا گزر بسرہو سکے۔
ترتیب:محمد فاروق قاسمی،
مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی، ضلع:شاجاپور،ایم پی۔
24جمادی الاوّل 1443ھ،
29دسمبر2021ء
جاری۔۔۔۔۔
Comments are closed.