ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی دو جائزصورتیں

بقلم: مفتی محمداشرف قاسمی

دارالافتاء:مہدپور،اُجین،ایم پی

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ میں؟
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی جملہ طبی رپورٹ نارمل ہونے کے باوجود انھیں بچے نہیں پیدا ہوتے ہیں۔
لیکن جدید طبی تحقیق وریسرچ کی ذریعہ ماہر اطباء نے ایسی کامیابی حاصل کی ہے جس میں عورت کی مدت حیض (M. C.Period)مکمل ہونے کے چنددنوں کے بعد بیضہ دانی (Ovary) سے بیضہ(Ovum) کونکالاجاتا ہے، اوراسی وقت شوہر کی منی(Semen) سے جرثومہ (Sperm) کو حاصل کرکے دونوں کے Ovum اور Spermکو ملاکرایک ٹیوب میں کچھ مدت کے لیے رکھ دیاجاتا ہے، جب ان کی نشو نما اس قدر ہوجاتی ہے کہ رحم مادر میں فطری طریقے پر ان کی تولید ہوسکے تو پھران کو رحم مادر(Uterus) میں منتقل کردیا جاتا ہے۔اورپھرمقررہ فطری مدت میں طبی نگہداشت میں بچے کی ولادت ہوجاتی ہے۔
ولادت کے اس عمل کوطبی اصطلاح میں In vitro fertilizationکہاجاتا ہے۔ اس کامخفف .I. V. F ہے۔ عرف عام میں اسے Test tube baby کہاجاتا ہے۔
بچے کے خواہش مند بے اولاد میاں بیوی اگر اس طبی عمل سے استفادہ کریں، تو شرعی لحاظ سے اس کاکیاحکم ہے؟ بینوا وتوجروا۔

المستفتی:
ڈاکٹرعمرفاروق ناگوری۔
راحت کلینک،مہدپور،اُجین، ایم پی۔

اسلام میں شادی کا مقصدجہاں معاشرہ میں اخلاقی پاکیزگی و پاکدامنی کوقائم کرنااور فروغ دینا ہے (1)وہیں ایک اہم مقصد نسلِ انسانی کی افزائش ہے۔ (2)
اسی کے ساتھ شادی کے ذریعہ پیدا ہونے والے بچوں کی پرورش وپرداخت کے لیےوالد ،یابچے کے ورثاء کو اسلام ذمہ دار قرار دیتا ہے(3)
نیزنسب کے اختلاط سے پرہیزکی سخت ہدایت اور نسب کی پاکی کےاہتمام کاتاکیدی حکم دیتا ہے(4)
نکاح کے بغیر کسی دوسرے کے نطفہ سے بچے کی ولادت ہوجائے تو اس کا نسب ثابت نہیں ہوتا ہے(5)
نسب کے ثابت نہ ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والے بچے اورجس خاتون کے بطن بچہ پیدا ہوا ہے اس ( زچہ وبچہ)کی پرورش وپرداخت کے ساتھ ہی دیگر بہت سے معاشرتی مسائل وپریشانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے شریعت نے بغیرنکاح کے جنسی روابط اور تولید کو سختی کے ساتھ منع فرماکر بے نکاح جسمانی روابط کوانسان و معاشرہ کے لیے تباہ کن وبدترین راستہ قراردیا ہے ۔(6)
ٹسٹ ٹیوب بے بی میں عموماً نسب میں اختلاط، نسل کاضیاع اور دیگر ممنوعات کاارتکاب پایاجاتا ہے، اس لیے اس طریقۂ تولید کی کئی صورتیں شرعی لحاظ سے ممنوع ہیں، جن میں خاص طور درج ذیل پانچ صورتیں قطعی ناجائز اورحرام ہیں۔
1. شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مردکا Sperm حاصل کرنا۔
2.یا منکوحہ بیوی کے علاوہ کسی خاتون کا بیضہ Ovum لینا.
3.یا ایک منکوحہ بیوی کابیضہ (Ovum)دوسری بیوی کے رحم(Uterus)میں رکھنا.
4.یا میاں و بیوی کےSperm اورOvum کو ملاکر کسی دوسری خاتون کے رحم میں پرورش کرنا۔
5.اجنبی مرد اور اجنبی عورت کےSperm اورOvum کو ملاکر اپنی منکوحہ خاتون کے رحم میں ڈالنا۔
یہ سب صورتیں ناجائز اور حرام ہیں۔
اورجو Sperm bank ہوتے ہیں ان میں عموماً یہ تمام صورتیں پائی جاتی ہیں، اس لیے Sperm bank بینک سے بھی استفادہ بچنا ضروری ہے۔

اسی کے ساتھ چونکہ شادی کاایک اہم مقصد افزائشِ نسل بھی ہے، بریں بناتمام ضروری احتیاط کو برائے کارلاتے ہوئے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی دوصورتیں جائز ہیں، جن سے استفادہ کیاجاسکتا ہے ۔ انٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی جدہ کے ایک اجلا س منعقدہ عمان(اردن) کے قراردادنمبر16(4/3)
میں مذکورہ بالا پانچوں صورتوں کی ممانعت کے ساتھ دوصورتوں سے استفادہ کی اجازت دی گئی ہے۔ وہ دوصورتیں درج ذیل ہیں:

"چھٹا اور ساتواں طریقہ تمام ضروری احتیاط کو بروئے کار لاتے ہوئے ضرورت کےوقت اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔ یہ دونوں درج ذیل ہیں:
ششم:شوہرکے نطفہ اور اس کی بیوی کے انڈے کو حاصل کرکے بیرونی طور پر بارآورکیاجائے، پھراسی بیوی کے رحم میں داخل کردیا جائے۔
ہفتم:شوہر کے نطفہ کو لے کر بیوی ہی کی اندام نہانی یا رحم میں مناسب جگہ پر اندرونی بارآوری کے لیے رکھ دیا جائے۔”
(انٹرنیشنل فقہ اکیڈمی کے شرعی فیصلے، ص103، ترجمہ:فہیم اختر ندوی، ناشر: ایفا پبلیکیشنز، دہلی، 2012ء) (7)
انٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی جدہ نے اپنے اجلاس منعقدہ جدہ(جزیرۃ العرب) اپنی قرارداد55(6/6)میں
بقدرضرورت انڈو(Ovum) کی بارآوری کی اجازت دی ہے اور ساتھ ہی اپنی منکوحہ بیوی کے بجائے دوسری خاتون کے لیے اس کے استعمال کوحرام قراردیا ہے۔(انٹرنیشنل فقہ اکیڈمی جدہ کے شرعی فیصلے، ترجمہ: فہیم اختر ندوی، ایفا پبلیکیشنز،دہلی، 2012ء)(8)

ہمارے ملک میں بسااوقات اطباء دینی امور کے سلسلے میں تساہل اختیارکرتے ہیں، اس لیے اطباء کو ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے جائزطریقے کا پابند بنانے کے لیے بچے کی ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی کاغذی کارروائی کامعاھدہ کرلینا مناسب ہے، جس میں یہ بات کی جائے کہ:
"بچے کی پیدائش کے بعد اس کا ڈی این اے(.D.N.A) کرایا جائے گا، اگربچہ کا ڈی این اے(.D.N.A) میاں بیوی سے الگ ثابت ہوا تو متعلقہ ڈاکٹر اور ہاسپٹل انتظامیہ کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔”
آج کے دور میں جب کہ مختلف منصوبوں کےتحت آبادی پرکنٹرول بلکہ آبادی کی تقلیل پرعمل ہورہاہے،تو ایسی صورت میں ایسے افراد جن کے بچے پیدا نہیں ہوتے ہیں، انھیں اوپر بیان کردہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے دوجائز طریقوں سے بچوں کی تولید اوردیگر ناجائزصورتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے مسلم اطباء کی دینی وملی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علم و مطالعہ اورتحقیق وریسرچ پر بہت ہی زیادہ توجہ دیں، اور شریعت کے دائرے میں بچوں کے تولیدی طریقہ میں اسلامی پاکیزگی وطہارت کو استحکام و فروغ دے کر صدقۂ جاریہ کے مستحق بنیں۔
(1) عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ :دَخَلْتُ مَعَ عَلْقَمَةَ والْأَسْوَدِعَلَى عَبْدِ اللَّهِ ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَابًا لَا نَجِدُ شَيْئًا ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ ، مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ ۔ (بخاری 5066)
(2)عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي أَصَبْتُ امْرَأَةً ذَاتَ حَسَبٍ وَجَمَالٍ وَإِنَّهَا لَا تَلِدُ، ‏‏‏‏‏‏أَفَأَتَزَوَّجُهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا ، ‏‏‏‏‏ثُمَّ أَتَاهُ الثَّانِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَهَاهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَتَاهُ الثَّالِثَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ.
(ابوداود،برقم الحدیث 2050نسائی3227.)
(3)وَ عَلَی الۡمَوۡلُوۡدِ لَہٗ رِزۡقُہُنَّ وَ کِسۡوَتُہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ لَا تُکَلَّفُ نَفۡسٌ اِلَّا وُسۡعَہَا ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِہَا وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ ٭ وَ عَلَی الۡوَارِثِ مِثۡلُ ذٰلِکَ ۚ (البقرۃ آیت نمبر233)
(4) عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا كَفَرَ وَمَنِ ادَّعَى قَوْمًالَيْسَ لَهُ فِيهِمْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ (بخاری، برقم الحدیث،3508)
(5)قَالَ عُوَيْمِرٌ:وَاللَّهِ لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ ، فَجَاءَ عُوَيْمِرٌ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، رَجُلٌ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ ، أَمْ كَيْفَ يَصْنَعُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ الْقُرْآنَ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ ، فَأَمَرَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمُلَاعَنَةِ بِمَا سَمَّى اللَّهُ فِي كِتَابِهِ ، فَلَاعَنَهَا، ثُمَّ قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنْ حَبَسْتُهَا فَقَدْ ظَلَمْتُهَا ، فَطَلَّقَهَا ، فَكَانَتْ سُنَّةً لِمَنْ كَانَ بَعْدَهُمَا فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : انْظُرُوا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْحَمَ أَدْعَجَ الْعَيْنَيْنِ عَظِيمَ الْأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ ، فَلَا أَحْسِبُ عُوَيْمِرًا إِلَّا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا ، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أُحَيْمِرَ كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ فَلَا أَحْسِبُ عُوَيْمِرًا إِلَّا قَدْ كَذَبَ عَلَيْهَا فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى النَّعْتِ الَّذِي نَعَتَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ تَصْدِيقِ عُوَيْمِرٍ ، فَكَانَ بَعْدُ يُنْسَبُ إِلَى أُمِّهِ (بخاری برقم الحدیث،4745)

(6) وَلَاتَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا، (اسریء آیت 23)

(7)الطریق الخمس التالیۃ محرمۃ شرعا، وممنوعۃ منعاباتااولما یترتب علیھا من اختلاط الانساب وضیاع الامومۃ وغیر ذالک من المحاذیرالشرعیۃ،۔۔۔۔۔ الی۔۔۔۔۔
ثانیا:-
الطریقتان السادسۃ والسابعۃ۔
لاحرج من اللجوء علیھما عندالحاجۃ مع التاکید علی ضرورۃ اخذ کل الاحتیاطات الازمۃ، وھما:-
السادسۃ:ان نطفۃ من زوج وبیضۃ من زوجتہ، ویتم التنقیح خارجیّاثم تزرع اللقیحۃ فی رحم الزوجۃ۔
السابعۃ:
ان توخذبذرۃ الزوج وتحقن فی الموضع المناسب من مھبل زوجتہ او رحمھا تلقیحا واخلیّاً، ( قرارارات وتوصیات مجمع الفقہی الاسلامی الدولی ص30،
قرار رقم 16 [4/3]مجلہ المجمع ،العدد الثالث، ج 1ص423)
(8) اولافی ضوء ماتحقق علمیامن امکان حفظ البیضات غیر الملقحۃ للسحب منھا، یجب عندالتلقیح البیضات الاقتصارعلی العددالمطلوب للزرع فی کل مرۃ تفادیا لوجود فائض من البیضات الملقحۃ، (قرارات وتوصیات لمجمع الفقھی الاسلامی الدولی ص, 104/منظمۃ المؤتمرالاسلامی لمجمع الفقہ الاسلامی الدولی۔1403الی1430ھ، 1988الی2009ء)

فقط،
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ :
محمداشرف قاسمی
خادم الافتاء:مہدپور،اُجین (ایم پی)
25جمادی الاول1443ھ،
مطابق30دسمبر2021ء
[email protected]
تصدیق:
مفتی محمدسلمان ناگوری

ترتیب:
ڈاکٹرمحمد اسرائیل قاسمی، آلوٹ، رتلام۔

Comments are closed.