تبدیلی مذہب بل اقلیتوں کے سر پر لٹکتی تلوار!

احساس نایاب ( شیموگہ ، کرناٹک )
محمد اشفاق اور بھگت سنگھ کا بھارت انگریزوں سے تو آزاد ہوگیا لیکن انگریز اپنے پیچھے اُن دلالوں کو چھوڑ گئے جنہوں نے جنگ آزادی کے دوران مجاہدین آزادی کے ساتھ غداری کی تھی اور آج وہی غدار اقتدار ملنے کے بعد کارپوریٹ گھرانوں کے دلال بن کر ملک سے غداری کررہے ہیں، بھارت اور بھارت کی عوام کو اڈانی امبانی کے ہاتھوں فروخت کررہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
یونان سے آئے ان چار فیصد یونانی ڈی این اے والوں نے بھارت کی جڑیں اُس وقت کھوکھلی کردیں جب انہوں نے گوڈسے جیسے دہشتگردوں کو جنم دیا اور بھارت کو ہندوراشٹر بنانے کے لئے پہلے تو دیش کو دو حصوں میں تقسیم کروا دیا، ملک میں مذہبی فسادات بھڑکائے، پھر جب اس سے بھی بات بنتی دکھائی نہیں دی تو راشٹر پتا گاندھی جی کا قتل کروادیا، یوں
گاندھی کے قتل سے لے کر آج من موہن سنگھ کو قتل کرنے کی بات کہنے والے اسی گوڈسے کی نسلوں نے اُس وقت بھی ہندو دھرم کو خطرہ میں بتاکر دہشتگردی کو فروغ دیا تھا اور آج ملک میں ہندوؤں کی اکثریت یعنی 80 فیصد آبادی ہونے کے باوجود عام ہندوؤں کو ہندو دھرم خطرے میں ہونے کا ڈر خوف دلاکر اپنے اقتدار کو زندہ رکھنے اور ستر، اسی سال پہلے دیکھا گیا ہندو راشٹر کا خواب پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
تبدیلی مذہب بل بھی ان کی اسی گندی سیاست اور سوچ کا ایک حصہ ہے ورنہ ملک میں مسائل کی کمی نہیں ہے، روزبروز بڑھتی مہنگائی، نوجوانوں کی بےروزگاری، میڈیکل فیلڈ سے لے کر ایجوکیشن، پولس محکمہ، عدلیہ و دیگر شعبوں میں بڑھ رہا کرپشن ملک کا ایک سنگین مسئلہ ہے اس پہ سونے پہ سہاگہ خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم ، ملک کے اقلیتوں پہ ہورہے مظالم اور ماب لنچنگ کے بڑھتے واقعات کسی بھی ملک کے وقار اُس کی شان کے لئے ناسور ہیں، لیکن افسوس بی جے پی کم آر ایس ایس کی نام لیوا سنگھی سرکار ان تمام سنجیدہ مسائل کو نظرانداز کر کے کبھی طلاق ثلاثہ جیسے غیرضروری معاملے میں ٹانگ اڑاتی ہے تو کبھی شریعت میں مداخلت تو کبھی ملک کی اقلیتوں کی عبادتوں پہ پابندیاں لگا کر اُن کے کھانے پینے ، رہن سہن، پہناوے و بول چال پر جبرا روک لگانے کی کوشش کرتی ہے.
جبکہ بھارت ایک سیکولر جمہوری ملک ہے اور ہمارا آئین اپنے ہر شہری کو مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے اور اپنے من چاہے مذہب کو مانتے ہوئے اپنے عقیدے کے مطابق چلنے کی اجازت دیتا ہے باوجود ان پہ سوال اٹھانا یا انہیں غیرقانونی اور جرم قرار دیتے ہوئے اقلیتوں پہ ظلم کرنا بیشک آئین کی خلاف ورزی ہے، ساتھ ہی سیکولر ملک کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے کی منصوبہ بند سازش ہے ۔۔۔۔۔
ملک میں جب کبھی سرکار کی ان غلط نیتیوں کی مخالفت کی جاتی ہے ، بی جے پی کی آٹھ سالہ ناکامیوں پہ سوال اٹھاتے ہوئے عوام کی جانب سے اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو یہ فرقہ پرست نکمی سرکار اپنی ناکامی کو چھپانے ، اپنے خلاف اٹھتی آوازوں کو دبانے اور عوام کو اصلی مدعون سے بھٹکانے کے لئے مندر مسجد اور ہندو مسلم کا کارڈ پھینکتے ہوئے چوری چھپے ملک کی اقلیتوں پہ آئین مخالف فیصلے تھوپنے کی کوشش کرتی ہے ۔۔۔۔۔
چاہے وہ گاؤکشی بل ہو، این آر سی ، سی اے اے ہو یا اترپردیش ، مدھیہ پردیش اور ہماچل کی طرح حال ہی میں بی جے پی کے زیراقتدار کرناٹک میں لایا گیا تبدیلی مذہب بل ہو ، جو بروز جمعرات کرناٹک اسمبلی مین اپوزیشن جماعتون کی سخت مخالفت و ہنگامہ کے درمیان کرناٹک پروٹیکشن آف رائٹ ٹو فریڈم آف ریلجن بل 2021 منظور کرلیا گیا ہے
جس کے چلتے اب کرناٹک مین تبدیلی مذہب اور بین المذاہب شادیوں پر پابندی ہوگی، بل میں
مذہب تبدیل کرنا یا تبدیل کروانا دونوں قانونً جرم مانا جائے گا، اور
اگر کوئی مذہب تبدیل کرنا چاہتا بھی ہے تو اسے اس کی جانکاری ضلع انتظامیہ کو دینی ہوگی جس پر پوری کاروائی کی جائے گی اور اگر کوئی کسی کا مذہب تبدیل کرواتا ہے تو اسے سخت سزا دی جائے گی ۔۔۔۔۔۔
فی الحال سرکار نے اسمبلی میں بل ہاس کرالیا ہے لیکن ابھی کونسل میں اس بل کا پاس ہونا باقی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اسمبلی میں اس بل کو پیش کرنے سے قبل کرناٹک کے وزیر اعلی بسواراج بومائی نے یہ دعوی کیا تھا کہ ’’مختلف مذاہب کے پیروکاروں نے ریاست میں مذہب کی تبدیلی پر پابندی کے قانون کو نافذ کرنے کے لیے ریاستی حکومت سے اپیل کی ہے۔
ابھی بومئی کے اس دعوی مین کتنی سچائی ہے یہ بل کی مخالفت میں ہورہے احتجاجات سے صاف نظر آرہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
کرناٹک بھر میں سرکار کے اس قدم کی پرزور مخالفت کی جارہی ہے اپوزیشن پارٹیون کے علاوہ سماجی وملی تنظیمیں بالخصوص عیسائی طبقہ اس کی پرزور مخالفت کررہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
کیونکہ اس بل کے مطابق کوئی تحفہ، رقم یا مادی فائدہ، نقد رقم، مہربانی، ملازمت، مفت تعلیم، شادی کرنے کا وعدہ، بہتر طرز زندگی کی پیشکشوں، خدائی ناراضگی یا کسی بھی صورت میں کسی بھی قسم کی ترغیب کے ذریعے کی گئی مذہبی تبدیلی کو غیرقانونی قرار دیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ یہ بل غلط تشریح ، زبردستی غیر ضروری اثر و رسوخ لالچ، دھوکہ دہی یا شادی کے ذریعہ ایک مذہہب سے دوسرے مذہب میں غیرقانونی تبدیلی کو روکنے کا دعوی کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔
اس بل کے تحت اگر کوئی تنظیم اس کی خلاف ورزی کرتی پائی جاتی ہے تو اس تنظیم اور ادارے کو سیکشن پانچ کے تحت مقرر کردہ سزا دی جائے گی اور ادارہ کو منسوخ بھی کیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ ریاستی حکومت خلاف ورزی کرتے ہوئے ادارے یا تنظیم کو کوئ مالی امداد یا گرانٹ فراہم نہیں کرے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنا ہی نہیں اگر کوئی شخص اس بل سے جُڑے کسی بھی سیکشن کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے قید کی سزا دی جائے گی اور سزا کی مدت تین سال سے دس سال تک کی ہوسکتی ہے اور جرمانہ ایک لاکھ روپیہ تک بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔
آپ کی جانکاری کے لئے ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ حال ہی میں گجرات اینٹی کنورژن ایکٹ میں اسی طرح کی دفعات کو یہ اعلان کرتے ہوئے کمزور کردیا گیا ہے کہ یہ دفعات آزاد رضامندی پر بین مذہبی شادی کرنے والی جماعتوں پر لاگو نہیں ہوں گی
ہائی کورٹ نے پہلی نظر مین مشاہدہ کیا تھا کہ گجرات کا قانون شادی کی پیچیدگیوں میں مداخلت کرتا ہے جس میں ایک شخص کے لئے انتخاب کا حق بھی شامل ہے اور یہ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 21 اور آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے اور یہ بل کسی بھی شخص کی ذاتی آزادی ، راز داری اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے میں یہاں پر اس قانون کو ہلکے میں لینا بیوقوفی اور حماقت ہوگی کیونکہ آنے والے دنوں میں یہ قانون مسلمانوں پہ خران بن کر اترے گا ۔۔۔۔
ویسے بھی مسلمانوں کے سامنے ذاکر نائک ، عمر گوتم اور مولانا کلیم صدیقی جیسے رہنما جیتی جاگتی مثالیں ہیں، کہ کیسے ان رہنماؤں کو تبدیلی مذہب کے جرم میں گرفتار کیا گیا، جبکہ ذاکر نائک کے وقت ابھی تبدیلی مذہب بل نافذ بھی نہیں کیا گیا تھا باوجود نوبت یہاں تک آگئی کہ انہیں ملک سے ہحرت کرنا پڑگیا ۔۔۔۔۔۔۔ ایسے میں ذرا سنجیدگی سے سوچین کہ اس بل کے مکمل نافذ ہونے کے بعد اس کے ذریعہ مسلمانوں کے ساتھ کیا کچھ کیا جاسکتا ہے اور انہیں کس کس بہانہ کس کس طریقہ سے پریشان کیا جاسکتا ہے ؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔
کل کو یہ کسی پر بھی تبدیلی مذہب کا الزام لگاکر گرفتار کرسکتے ہیں ، اس قانون کے ذریعہ کوئی کسی سے بھی ذاتی رنجش نکال سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ بات کی جائے تو ہمارا حسن اخلاق، ایک دوسرے سے ہمدردی کا جذبہ ، فورا کسی کی مدد کے لئے آگے بڑھنا، کسی ہندو دلت ہمسائے کی خیرخواہی کرنا بھی آنے والے دنوں میں ہمارے لئے جی کا جنجال بنادیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔ اور ہماری اچھائیاں کسی کو مذہب تبدیل کروانے کے غرض سے ورغلانے، بہلانے پھسلانے اور لالج دینے کے زمرے میں ڈال دی جائیں گی ۔۔۔۔۔۔۔
مثلا آپ اپنے کسی مجبور ہندو پڑوسی کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آرہے ہیں، اُس کی خیرخواہی کرتے ہوئے اُس کا خیال رکھ رہے ہیں کل کو کسی نے آپ پہ یہ الزام لگادیا کہ آپ کی نیت آپ کا مقصد غلط ہے، یعنی آپ اُس شخص کا اُس کے خاندان کا مذہب تبدیل کروانے کی کوشش کررہے ہیں تو پھر کیا عمرگوتم کی طرح جیل کی سلاخون میں آپ بھی ہوں گے، بالخصوص داڑھی ٹوپی پہنے مولوی حضرات اور کسی تنظیم یا ادارے سے جُڑے حضرات تو سیدھے سیدھے مجرم بنادئے جائیں گے اور آپ کی اچھائی آپ پہ بھاری پڑ جائے گی ۔۔۔۔۔
یہان تک کہ کالج یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبہ اور ایک ہی آفس میں کام کرنے والے ملازم کبھی بھول چوک کر بھی اپنے مذہب اپنے دین کی تعریف کردیں تو اس کو بھی ایک طرح سے ہندوؤں کا مائنڈ واش کرنا سمجھا جائے گا اور ہمارے بچے بھی اس فتنہ سے محفوظ نہیں رہ پائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے بھی ہمارا دین ہماری عبادتین صرف مسجد تک محدود نہیں ہیں بلک بیٹھے اٹھتے ، سوتے جاگتے، کھاتے پیتے زندگی کے ہر پہلو سے یہ جھلکتی ہیں اور یہ ضروری بھی ہے، کیونکہ یہ ایک مسلمان کی پہچان ہے لیکن کل کو اسی پہچان کو وجہ بناکر مسلمانوں کو موردالزام ٹہراتے ہوئے پریشان کیا جاسکتا اور سامنے والے کا ہم سے مثاثر ہونا بھی ہمارے لئے جرم ثابت ہوجائے گا ۔۔۔۔۔ ساتھ ہی یہ عین ممکن ہے کہ عنقریب اس قانون کو بہانہ بناکر ہمارے مذہبی تقاریب و اجتماعی اجلاس پر بھی پابندیاں لگادی جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
مدرسوں پر تو حکومت کی نظر پہلے سے ہے اب مزید شکنجہ کسا جائے گا اور ملک میں دعوت و تبلیغ کو غیرقانونی قرار دے دیا جائے گا ۔۔۔۔۔
سو ان تمام پہلوؤں پر غور و فکر کرتے ہوئے مسلمانوں کو چاہئیے کہ وہ بھی خواب غفلت سے جاگیں اور عیسائیوں کی طرح اس بل کی مخالفت میں سڑکوں پر اُتر آئیں ، احتجاج و مظاہرے کریں، بھلے ایک اور شاہین باغ ہی کیوں نہ بنانا پڑے۔۔۔۔۔
لیکن عنقریب مسلمانوں پر ٹوٹنے والے اس خران کو روکنے کے لئے ابھی سے کمربستہ ہوجائیں اور تینوں زرعی قوانین کی طرح تبدیلی مذہب بل اور این آر سی ، سی اے اے جیسے ظالمانہ بل کو بھی واپس لینے کے لئے حکومت کو مجبور کریں ۔۔۔۔۔۔
یہاں آخر میں غور طلب بات یہ بھی ہے کہ اس بل کے مطابق اگر کوئی شخص اپنے سابقہ مذہب میں واپس آجاتا ہے، تو اسے اس ایکٹ کے تحت تبدیلی نہیں سمجھا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ اس پہ غور کریں یہان بی جے پی کا مقصد بالکل صاف ہے ۔۔۔۔۔۔۔
سنگھیون کے مطابق بھارت میں رہنے والا ہر شخص ہندو تھا جو جبرا ہندو سے عیسائی اور مسلمان بنایا گیا
ایسے میں کوئی عیسائی یا مسلمان ہندو بنتا ہے تو سوفیصد ممکن ہے کہ اُسے تبدیلی مذہب نہیں بلکہ گھرواپسی کہا جائے گا ایسے مین تبدیلی مذہب بل ہندؤں کے خلاف ہونے کی تو گنجائش ہی نہیں ہے بلکہ یہ 101 فیصد عیسائی بالخصوص مسلمانوں کے لئے خلاف ہے
جیسے مسلم لڑکے کا ہندو لڑکی سے شادی کرنا لوجہاد اور ہندو لڑکوں کا مسلم لڑکیون کو اپنے جال مین ہھنسا کر زندگیان تباہ کرنا گھرواپسی ہے ۔۔۔۔۔۔
اگر مسلمان ابھی بھی ہوش میں نہیں آئیں گے تو یاد رہے اس بار جان، مال اور آبرو کے ساتھ ساتھ اللہ نہ کریں ایمان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائیں آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.