کچھ دیر ادیب عصر و شاعر اسلام مولانا فضیل احمد ناصری کیساتھ

مفتی محمد ریحان القاسمی نیو مصطفےٰ آباد دھلی(بصیرت آن لائن)

آج عرصہ دراز کے بعد نمازِ ظہر کے بعد ادیب عصر اور علامہ اقبال ایوارڈ یافتہ شاعر اسلام مولانا فضیل احمد ناصری کی رہائش گاہ پر ملاقات کی غرض سے حاضری ہوئی، موصوف انتہائی خوش اخلاق، مضمون نگار، شاعر، نرم طبیعت، سادہ مزاج، رجال ساز، معاشرے کی اصلاح کا درد رکھنے والے حق گو انسان ہیں ۔

کافی دیر تک گفتگو ہوئی ذرہ برابر طبیعت نے اکتاہٹ محسوس نہیں کی بلکہ دل چاہ رہا تھا کہ مولانا کے پاس زندگی کے کچھ قیمتی لمحات گزارکر ان سے علمی پیاس کو مزید بجھایا جائے مگر وقت کی تنگ دامانی نے اس حسرت کو تکمیل کی راہ سے گزرنے سے روک دیا۔ دورانِ گفتگو مولانا موصوف نے اپنے مضمون نگاری کے تحقیقی انداز کو بیان کیا کہ میں نے تحقیقی مضامین کس طریقے سے لکھنے شروع کئے۔

چنانچہ موصوف نے فرمایا کہ شروع میں میرے مضامین تحقیقی نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ غیر محول ہوا کرتے تھے ایک دن ہوا یوں کہ میں کتب خانے میں کتابوں کی ورق گردانی کررہا تھا کہ ایک شخص جو وہاں موجود تھا اس نے طنزیہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ورق گردانی ایسے کررہے ہو جیسے کوئی تحقیقی مضمون رقم کرناہے بس اسی جملے سے میں سمجھ گیا کہ میرے مضامین تحقیق سے عاری ہیں اس کے بعد سے میں نے اپنے اوپر لازم کرلیا کہ میں جو بھی لکھوں گا تحقیق کیساتھ ہی لکھوں گا ان شاءاللہ اس واقعے سے احقر کو جو تٱثر ملا وہ یہ ہے کہ ہمارے مضامین بھی تحقیقی ہی ہونے چاہیے تاکہ نفع زیادہ ہو اور آدمی خود بھی محقق بن سکے، اس کیلئے محقق علماء سے رابطہ ضروری ہے جن سے اپنا مزاج ملجائے تو سیکھنے میں شرم محسوس نہ کرے کیونکہ علم حاصل کرنے کی کوئی عمر متعین نہیں ہے۔

اب ہماری رخصت و جدائی کا وقت ہو چلا تھا میں نے علامہ ناصری سے اجازت چاہی تو حضرت نے رخصت کرتے وقت بہت سی دعاؤں سے نوازا کہ "اللہ تعالیٰ علم و عمل میں ترقیات کیساتھ ساتھ عمر میں برکت پیدا فرمائے دین کی خدمت کیلئے قبول فرمائے اور خدمتِ دین کو بھی قبول فرمائے اور ہر وقت ہر جگہ آپ کی حفاظت فرمائے”۔ میں حضرت کے دعائیہ کلمات پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے قیمتی دعاؤں سے نوازا اور دعاگو ہوں کہ باری الہ آپ کا سایۂ عاطفت دراز فرمائے اور آپ کے فیض کو عام و تام کرے۔ آمین یارب العالمین۔

Comments are closed.