ناخواندگی کی بڑی وجہ مناسب تعلیمی اداروں کا فقدان

توصیف احمد
مسلمانوں میں شرح خواندگی دلتوں اور آدیواسیوں سے بھی کم ہے، یہ شرح بظاہر دنیوی تعلیم کے لیے ہے، لیکن دینی تعلیم یا مدارس کی تعلیم اور بہت کم ہے، کسی نے کہا تھا 5 فی صد مسلمان بچے مدارس میں پڑھتے ہیں، مجھے لگتا ہے یہ مبالغہ ہے، شاید 1، زیادہ سے زیادہ 2 فی صد بچے مدارس میں پڑھتے ہیں، یہ آپ مجموعی اندازا لے لیجیے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض علاقوں میں یہ 5 سے 30 فیصد تک بھی جا سکتا ہے، اور بعض جگہوں پہ 0.1 بھی مشکل سے ہوگا، تو اگر مدارس اور اسکول کی تعلیم دونوں کو ملا کے بھی اعداد وشمار نکالیں تو بھی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
ناخواندہ یا نری جاہل قوم سے کیا توقع کرتے ہیں ؟
کیا اس کی آخرت محفوظ ہے؟ یا دنیا ہی آباد ہے؟
شاید کچھ نہیں ہے!
اور اس صورت حال سے کوئی خوش نہیں ہے، شاید اغیار خوش ہوں، لیکن اپنے تو نہیں!
تعلیم سے اس قدر دوری کی کیا وجہ ہے؟ یہ بیشک غور کرنے کی بات ہے، وہ قوم جس نے پوری دنیا کو علم سے روشناس کرایا وہ اب اتنی تاریکی میں کیوں ہے؟وجوہات ایک سے زیادہ ہو سکتی ہیں، جن کو ایک دو تین کرکے گنایا جا سکتا ہے، جتنی بھی وجہ ذکر کی جائیں شاید سبھی درست ہوں؛ لیکن ایک وجہ درست نہیں ہوگی کہ "مسلمان اقلیت میں ہیں، یا ان کے ہاتھ میں زمام اقتدار نہیں ” کیوں کہ تعلیم کا ان سب چیزوں سے خاص تعلق نہیں ہے۔
اسباب و وجوہات کی اس فہرست میں ایک بڑا سبب یہ ضرور ہوگا اور ہونا چاہیے کہ:
"مسلمانوں کے پاس کوئی جامع نظام تعلیم نہیں ہے جس پہ خود مسلم قوم مطمئن ہو”
درحقیقت دو نظام تعلیم دستیاب ہیں:
ایک مدارس کا
دوسرا اسکول و کالجز کا
۱. مدارس میں قوم اپنے سارے بچوں کو اس لیے نہیں بھیجتی کہ کمانا بھی ہے، غربت اتنی ہے کہ بلوغت سے پہلے ہی بچے کام کرنے لگتے ہیں، ایسے میں دور دراز مدرسوں میں بھیجنے کی ہمت نہیں ہوتی، کھانا پینا مدرسے کی طرف سے ہوگا تب بھی جیب خرچ تو دینا ہی ہوگا، اس کے بجائے یہ بچہ گھر رہے گا تو خود چار پیسے کما کے لائے گا، بعضوں کے لیے وجہ غربت نہیں بل کہ وجہ مالداری ہوتی ہے، یعنی وہ اپنے بچے کو اسکول اور کالج میں بھیجنا پسند کرتے ہیں تاکہ انجینئر، ڈاکٹر بنے، پیسہ کمائے، نام کمائے، بعض رہ جاتے ہیں بیچارے تبلیغی جماعت کے احباب جو آخرت بنانے کے لیے اپنے بچے مدرسے میں بھیجتے ہیں وہ بھی سب کو نہیں ایک دو کو، الا ماشاء اللہ۔
دوسرا نظام اسکول کا ہے، یہاں مجبوراً ابتدائی تعلیم تو ہوجاتی ہے دوچار کلاس، پھر وہی کہ بچہ چار پیسے کمائے، ورنہ نہ تو بچہ پڑھ ہی رہا ہے نہ ہی کما رہا، یا پھر گھر کی کھیتی یا فیملی کا کاروبار ہے تو اس میں لگا دیتے ہیں یہ کہ کر کہ "پڑھائی کی کیا ضرورت ہے” کون سا نوکری کرانی ہے؟! ” بعض لوگ ایسے بھی ملے جو دینی بنیادوں پہ اسکول کی تعلیم سے دور رکھتے ہیں، پھر کئی بار مدرسے میں بھی نہیں پڑھا پاتے تو بچہ دونوں تعلیموں سے نابلد رہتا ہے۔
مناسب تعلیمی اداروں کا نہ ہونا بڑی وجہ ہے، اوپر ذکر کردہ گفتگو حقیقی صورتحال کا محض عکس ہے، مثلا مدارس سے امت کی دوری اور قربت دونوں پہ مزید کلام ہو سکتا ہے، قربت یا انسیت کے حوالے سے یہ بات درست ہوگی کہ "امت کو مدارس سے انسیت ہے، چاہے بچوں کو بھیجیں یا نہ بھیجیں؛ لیکن اس حوالے سے مطمئن ہیں کہ یہ اپنے ادارے ہیں، یہاں ایمان محفوظ ہے، مجموعی طور پہ مدارس پیسہ کمانے کے لیے نہیں؛ بل کہ علم دین سکھانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں” ساتھ ہی بوجوہ اپنے بچوں کو مدرسوں میں نہیں بھیجتے، جن میں سے چند اوپر ذکر کی گئیں۔ اسی طرح اسکول و کالجز سے اس حوالے سے بے اطمینانی کہ "یہاں ایمان واعمال داؤ پہ لگتے ہیں” سو زیادہ تر یہاں بھی نہیں بھیجتے، ان کی اپنی وجوہات ہیں بعض کو اوپر ذکر کیا، اور بعض یہاں بھیجتے ہیں، جس کے اچھے برے نتائج سب کے سامنے ہیں۔
نظام اگر مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہو (مثلا مدارس) تو مسلم والدین کو اپنے بچوں کے ایمان و اعمال کے حوالے سے اطمینان ہوتا ہے؛ لیکن مسلمان اپنے سو فی صد بچوں کو وقف للہ بھی نہیں کر سکتے، یعنی سب کو مدارس میں بھیجنا/لانا ناممکن ہے، تو سوچیے اگر ایسے ادارے ہوں جو مسلم بچوں کی بنیادی دینی تعلیم کی ضرورت بھی پوری کریں، عصری تعلیم کے لیے مناسب ماحول فراہم کریں، اسی طرح جن کا اختصاص قرآن وسنت ہو ان کے ضروری دنیا سے واقفیت بھی فراہم کریں، ان کا نظام حکومت وقت کے بجائے مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہو، دور دراز خطوں میں چھوٹے بڑے ادارے قائم ہوں، جو ایک دوسرے سے مربوط ہوں، اعلی تعلیم (ہائر ایجوکیشن) کے لیے بڑے ادارے بھی متعدد مقامات پہ ہوں، فیس اور دیگر اخراجات میں غریب بچوں کا خاص خیال رکھا جائے، جہاں سے ملک وملت کی خدمت کے لیے قانون داں نکلیں، سیاست داں نکلیں، وہیں حفاظ وقراء، علما و دانشور نکلیں، مسلم ماہر معاشیات وجود میں آئیں (اور مزید باتیں جو ہر جگہ پڑھنے سننے کو ملتی ہیں یہاں جوڑ لیجیے) تو یہ کامیاب، جامع نظام تعلیم قوم مسلم کے شعور کو ثری سے ثریا پہ لے جائے گا، پھر مخلوط تعلیم اور فلاں فلاں خدشات نہیں ہوں گے۔
زیادہ تر لوگ کہیں گے یہ سب أضغاث أحلام ہے، ویسی بات نہیں ہے، جب انگریز علم دین مٹا رہے تھے تب دینی مدارس کا قیام بیشک ایک خواب تھا جو پورا ہوا، آپ جب چاہیں جس خواب کو چاہیں پورا کر سکتے ہیں، بس ہمت جواں ہونی چاہیے:
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
جب کہ یہ کام عملا اتنا مشکل نہیں ہے، حوصلہ ہو، کوششیں ہوں، تو سب کچھ ممکن ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
نوٹ: یہ موضوع واقعی بہت بڑا، اور بڑا لچک دار ہے، تقریبا ہر جگہ ایک سے زیادہ رائے اور وجہ کی گنجائش ہے، لیکن سب کا احاطہ ممکن نہیں، اس کی عملی شکل پہ بیشک گفتگو ہونی چاہیے، آپ لوگ بھی رائے دیں، ان شاءاللہ ہم بھی اس سے آگے گفتگو کریں گے۔
Comments are closed.