مسلم بچیوں کی بےراہ روی کا ذمہ دار کون ؟

احساس نایاب ( شیموگہ، کرناٹک )
سیاہ پردے کی آڑ میں انجام دئے جارہے ہیں سیاہ کارنامے ،باقاعدہ برقعہ، حجاب، نقاب میں پہچان چھپاکر کیا جارہا ہے کھلے عام جسم فروشی کا دھندا ، غیرمسلم عورتوں کے ساتھ ساتھ اب ایک بڑی تعداد میں مسلم خواتین بھی ہورہی ہیں اس بدکاری میں ملوث، لیکن یہاں پر سوال یہی اٹھتا ہے کہ معاشرہ میں بڑھتی اس بےراہ روی اور زناکاری کا ذمہ دار کون ہے؟
ایک وقت جس بدکاری کو چاردیواری میں انجام دیتے ہوئے بھی لوگ گھبراتے تھے، اللہ کا نہ سہی انسانوں کا ،پاس پڑوس ، دوست احباب سے خوف کھاتے تھے آج وہی بدکاری دھڑلے سے ایک پروفیشن کی طرح کیا جارہا ہے۔ ایک وقت جس ، ریڈ لائٹ ایریا اور طوائف کے کوٹھوں کے قریب سے گزرنا بھی عیب سمجھا جاتا تھا آج وہی افسانے شریفوں کے محلوں میں عزت داروں کی چوکھٹوں میں سننے کو مل رہے ہیں اور قوم کی بیٹیاں، اسلام کی شہزادیاں جن کے لئے دلہا تلاش کرنا، نکاح کروانا والدین اور پوری قوم کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی آج وہ بچیاں کھلے عام چوراہوں اور بازاروں میں اپنے لئے کاہگ تلاش کررہی ہیں اور سماج اس کو گناہ، زنا، عیب مانتا تو ہے لیکن ہاتھوں سے روکنا نہیں چاہتا کیونکہ یہ وہ دلدل ہے جہاں سے ہر کوئی اپنا اپنا دامن سنبھالے لعن طعن کرتے ہوئے گزر تو جاتے ہیں لیکن کوئی اس دلدل میں پھنسی عورتوں اور بچیوں کو نکالنا یا سہارا دینا نہیں چاہتا ،کیونکہ شریف عزت داروں کی سفید چادریں بہت جلد میلی ہوجایا کرتی ہیں ایسے میں ان لڑکیوں کو راہ راست پہ لانا ان کے لئے ناممکن بات ہوچکی ہے، مگر یہاں پر جو جتنا بڑا شرافت کا چولہ اوڑھے ہوا ہے یقین جانیں اُس کا دامن ماحول کے چھینٹوں سے اتنا ہی زیادہ داغ دار ہے ، لیکن ہمیشہ کی طرح کہیں دولت ہر عیب ڈھانپ دیتی ہے تو کہیں غربت سربازار تماشہ بنادیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
خیر آگے بڑھتے ہیں اور حیدرآباد ہی کی مثال لیتے ہیں۔ یوں تو حیدرآباد کو بڑی ہی شان و شوکت کے ساتھ مسلم اکثریت والا نوابوں کا تاریخی شہر کہا جاتا ہے ، اویسی جیسے قدآوار سیاستداں، رہنمائے قوم ، مفکران ملت کی جائے پیدائش ہے لیکن افسوس یہاں کی مسلم خواتین کے حالات دیکھ کر اورسن کردکھ ہوتا ہے، شرم محسوس ہوتی ہے ۔
مختلف ذرائع سے موصولہ خبروں کے مطابق حیدرآباد کے کئی علاقوں میں مسلم عورتیں برقعہ پہن کر کھلے عام جسم فروشی کا دھندا کررہی ہیں ، شام ہوتے ہی یہ برقعہ پوش عورتیں بس اسٹینڈ کے پاس گاہکوں کے انتظار میں کھڑی ہوجاتی ہیں اور مردوں کے ساتھ ساتھ کم عمر اسکول کالجس کے لڑکوں کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن افسوس حیدرآباد اسدالدین اویسی جیسے مسلم قائد کا گڑھ اور گھر ہونے کے باوجود اس زناکاری اور جسم فروشی کو روکا نہیں جاسکا، ایسے میں اویسی پر بھی سوال اٹھانے ضروری ہیں، جو خود کو مسلمانوں کا لیڈر کہتے ہیں، بھارت کے مسلمانوں کی قیادت کا دم بھرتے نہیں تھکتے، جو ملک بھر کی خبر رکھتے ہیں اور ہر علاقے ،ہر کونے میں ہورہے مظالم کے خلاف بولتے ہیں ،وہ اپنے گڑھ، اپنے گھر حیدرآباد کے حالات سے اس قدر بےخبر کیوں ہیں؟
ان کے شہر کی عورتیں جسم فروشی میں ملوث ہیں اور یہ اپنے ہی شہر کو سنبھالنے میں ناکام کیوں ہیں ؟
جب یہ ایک شہر کو سنبھال نہیں پارہے تو وہ ملک کو کیسے سنبھال پائیں گے ؟؟؟
خیر جانےدیں شاید اسی کو کہتے ہیں چراغ تلے اندھیرا ۔
بہرحال! آج ہماری قوم کے حالات جس قدر بگڑ چکے ہیں بیان کرنا بھی مشکل ہے، لیکن ایک قلمکار ہونے کے ناطے یہ ہماری ذمہ داری ،ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر مدعا ہر مسئلہ پر کھُل کر بلاخوف حق اور سچ بولیں ، سو ان شاءاللہ ہم بولیں گے، بھلے کسی کو اچھا لگے یا بُرا ۔
میں آئنہ ہوں دکھاؤں گا داغ چہروں کے
جسے بُرا لگے وہ سامنے سے ہٹ جائے
مانا آج ایک انسان کو بگاڑنے، انہیں زنا کی طرف راغب کرکے بدکاری میں مبتلا کرنے کے لئے نت نئے ذرائع موجود ہیں ، یہاں تک کہ بھارت جیسے ملک کا قانون بھی زناکاری کی کھلی چھوٹ دیتا ہے، جہاں نکاح کر کے جائز طریقے سے فطری خواہشات پورے کئے جاسکتے ہیں وہان شادی کی عمر 18 سے بڑھا کر 21 سال کردینا سیدھے سیدھے انسانی فطرت سے بغاوت ہے اور ایسی بغاوت جس کی قیمت کم عمر لڑکے ،لڑکیاں اور نوجوان نسلوں کو چکانی پڑے گی، اس پہ اڈلٹ ریلیشن شپ، لیوان رلیشن شپ اور ہم جنس پرستی کی کھلی آزادی، ملک میں زانیوں کو دعوت دینا ہے اور افسوس کہ آج اس ملک میں زناکاری کے لئے تو کسی بھی عمر کی قید نہیں ہے لیکن شادی کے لئے ہزاروں پابندیاں۔ سماج اور معاشرے کے لئے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
جس ملک میں ہر اٹھارہ منٹ میں ایک ریپ ہورہا ہے، گینگ ریپ کرکے متاثرہ کا قتل کردیا جاتا ہے وہاں ان زانی قاتلوں کے خلاف کسی بھی قسم کا قانون یا سزا نہیں دی جاتی ۔ اور نکاح شادی کے لئے باقاعدہ سزائیں موجود ہیں ۔
اس کے علاوہ اگر سوشیل میڈیا پر ہورہی فحاشی اور لڑکیوں ، عورتوں کے ساتھ کئے جانے والے استحصال کی بات کی جائے تو
سال 2000 میں سوشیل میڈیا پر فیک اکاؤنٹس بناکر عورتوں کو ٹرول کرنے ، دھمکانے والوں کے خلاف سیکشن 66 ڈی نافذ کیا گیا تھا جس کے ذریعے جرمانہ اور تین سال کی سزا مقرر تھی ،لیکن 2014 میں مودی سرکار کے بننے کے بعد سپریم کورٹ کے ذریعہ اس قانون کو رد کروا دیا گیا ، اس سے بی جے پی حکومت کی منشاومقصد صاف ظاہر ہے، بھارت کا سب سے بڑا ” آئی ٹی سیل” بھاجپا کا ہے جو 24 گھنٹے سوشیل میڈیا پر الرٹ رہتا ہے اور اس کا کام فیس بک اور ٹیوٹر پر اُن لوگوں کو پریشان کرنا دھمکانہ گالی گلوج کرنا ہوتا ہے جو بی جے پی سرکار کی غلط پولسیوں کے خلاف لکھتے ، بولتے ہیں، 2014 مودی گورنمنٹ بننے کے بعد اس سیکشن کو ہٹادینا بیشک اپنے آئی ٹی سیل کو گولی کے بیل کی طرح کھُلی چھوٹ دینے کے لئے ہے ، جس کی وجہ سے گذشتہ 8 سالوں میں سائبر کرائمس مین مزید اضافہ ہوا ہے ۔
ویسے بھی اس سرکار اور اس کے اندر کام کرنے والی پولس سے امید بھی کیا کی جاسکتی ہے جس کے ناک کے نیچے پچھلے سال ’’سلی ڈیل‘‘ نامی ویب سائٹ پہ مسلم خواتین کی تصاویر کو نیلام کیا گیا جس میں خاتون صحافیون سے لے کر رائٹرس اور سوشل ایکٹویسٹ کی تصاویر موجود تھیں ، ابھی وہ مجرم پولس کی پکڑ میں بھی نہیں آپائےتھے کہ دوبارہ ’’ بُلّی بائی ‘‘ کے نام سے ایپ بناکر مسلم خواتین کے ساتھ ایک بار پھر شرمناک حرکت کی گئی ہے ، مسلم خواتین کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے فحش کمنٹس لکھے گئے اور ہر بار کی طرح اس بار بھی پولس اور سائبر سیل اسے روکنے میں ناکام رہی اور سرکار خاموش ۔
ایسے میں آپ خود سوچیں ایسی سرکار سے کیا امید ؟
خیر فی الحال ہمارے آگے بڑا مسئلہ اپنی قوم کا ہے، جب گندگی خود کے آنگن مین پڑی ہو تو شہر کی صفائی کرنے کے دعوے حماقت اور بیوقوفی ہے، سو پہلے اپنوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔۔۔
یہاں پر اس بات کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ فتنوں بھرے دور میں شریف سے شریف انسان کے ڈگمگانے میں بھی دیر نہیں لگتی ایسے میں حیرت نہیں کہ انسان کے اندر کی ہوس ایک بھوکے جنگلی جانور کی شکل اختیار کرلے اور اُس وقت اُس کے آگے ایک لڑکی،ایک عورت کی حیثیت محض گوشت کے لوتھڑے کے برابر ہو ، یہی وجہ ہے کی آج ہوس نے ہر رشتہ کو داغدار کردیا ہے، باپ نے بیٹی کے ساتھ زیادتی کی، تو ایک بھائی نے اپنی ہی بہن کو نوچ ڈالا اور ایسے اکثر واقعات خود ہماری قوم کے اندر پیش آچکے ہیں۔
حال ہی میں ایک معاملہ بلگام کے قریب پیش آیا جہاں ایک داماد اپنی ہی ساس کو بھگالے گیا ، دوسرا واقعہ جہاں پریگنینٹ بیوی ڈلیوری کے لیے مائکہ گئی ہوئی تھی اور بیوی کے پیٹھ پیچھے باپ نے خود کی ہی بیٹی کو حاملہ کردیا ، کہیں پڑوسی مامو نے 12 سال کی بچی کے ساتھ زیادتی کی تو کہیں 2 سالہ بچی کو بھی نہیں چھوڑا گیا ، ایک معاملہ ایسا بھی سامنے آیا ہے جہاں ایک لڑکی 8 سے 9 دفعہ الگ الگ لڑکوں کے ساتھ بھاگ گئی اور والدین 8 دفعہ بھاگنے کے بعد بھی غفلت کی نیند سوتے رہے پھر جب ہوش آیا تو بیٹی کی اس حرکت سے تنگ آکر اُس آخری لڑکے کے ساتھ بیٹی کی منگی کردی، تو اس بار لڑکی اپنے منگیتر کے چھوٹے بھائی یعنی ہونے والے دیور کے ساتھ ہی بھاگ گئی اور یہ سارے واقعات کوئی فلمی یا افسانوی نہیں ہیں نہ ہی کسی غیرمسلم گھروں میں پیش آئے ہیں بلکہ یہ ہماری اپنی مسلم قوم کے حالات ہیں، اس کے علاوہ بھابی دیور ، ممانی بھانجہ ، چچانی فلاں فلاں جیسے ناجانے کتنے ہی ناجائز رشتے پروان چڑھ رہے ہیں اور زنا بھی جیسے معمول بن چکا ہے۔
ویسے تو زناکاری آج سے نہیں بلکہ زمانہ جاہلیت سے ہے لیکن آج اس میں جس قدر اضافہ ہورہا ہے جو گندگی، خباثت بھری پڑی ہے اور جو شدت دیکھنے سننے کو مل رہی ہے وہ شاید زمانہ جہالت مین بھی نہ ہو ۔
ہوٹلس اور لاجس میں پولس ریڈ کے دوران بھی کئی اچھے گھرانوں کی مسلم عورتیں پائی گئی ہیں، اسکول کالجس اور انجنئیرنگ و میڈیکل کی چند طلبہ اپنے اخراجات یا شوق پورے کرنے کے لئے بھی جسم فروشی میں اتر چکی ہیں ، بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کا رواج عام ہوچکا ہے، پانچ پانچ ، چھ چھ سال سے لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو ڈیٹ کررہے ہیں ، ایک ایک لڑکی کے کئی کئی بوائے فرینڈز لباس کی طرح لڑکے لڑکیاں تبدیل کی جارہی ہیں اور ان سب کے پیچھے بڑی وجہ ہاتھ میں موجود موبائل نامی فتنہ ہے ۔
اس کے علاوہ جابس کرنے والی خودمختار کہلانے والی بچیوں کے حالات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
کل رات مولانا سجاد نعمانی صاحب کا ایک بیان سُن رہے تھے جس مین مولانا نے ارتداد کی تعداد بتائی جو سُن کر ذہن سن پڑگیا فی الوقت 8 لاکھ سے زائد مسلم بچیاں مرتد ہوچکی ہیں، یعنی مسلم لڑکیاں ہندو لڑکوں سے شادیاں کرکے ہندو ہوچکی ہیں اور یہ تعداد محض ظاہری ہے یعنی ملک بھر کے رجسٹرار آفس سے ملی ہوئی ہیں اس کے علاوہ اگر چوری چھپے مندروں میں جاکر شادیاں کرنے والی ناجانے اور کتنی بچیاں موجود ہیں ۔
مولانا کے مطابق ان حالات کا ذمہ دار اسکول کالجس کا نظام ہے جو ایک حد تک صحیح بھی ہے ۔لیکن اگر یہاں پر گھر بیٹھی غیرتعلیم یافتہ لڑکیوں کی بھی بات کی جائے تو یہ بھی شرمسار کردینے کے لئے کافی ہے ، مجبوری، غریبی اور ضروریات کے نام پر مسلم بچیوں کو خود والدین کپڑوں، کاسمیٹک و دیگر مارواڑیوں کی دکانوں میں سیلس گرل کی طرح کام کرنے کےلئے بھیج رہے ہیں، جہاں اکثر مارواڑی لڑکے ان بچیوں کا استحصال کرتے ہیں، کئی جگہوں سے یہ شکایتیں بھی موصول ہوئی ہیں کہ یہ لڑکیاں صبح دکانوں کے لئے نکلتی ہیں لیکن پتہ نہیں کہاں جاتی ہیں۔
خیر ہمارے حالات پہ جتنا رویا جائے، سر پیٹ کر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے باوجود اس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔
ہمیں اس کی وجوہات تک پہنچ کر حل تلاش کرنے ہوں گے تاکہ بگڑے حالات کچھ تو بہتر بناسکیں ۔
تین چار سالوں سے امدادی کاموں کے سلسلے میں اکثر ہمارا مختلف خواتین سے ملنا ہوتا ہے، اُن کی پریشانیوں پر بات چیت کرنا پڑتا ہے، جس سے الحمدللہ ہمیں بہت کچھ سمجھنے کا موقعہ بھی ملا اور اس درمیان ایسی کئی وجوہات ہمارے سامنے آئی ہیں جو ایک حد تک ان حالات کی بہت بڑی وجہ ہے اور ان وجوہات میں سب سے بڑی وجہ ریاکاری ، حیثیت سے بڑھ کر اپنے اندر خواہشات کو پالنا پرورش کرنا اور انہین پورا کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی حدیں پار کردینا ہے۔۔۔
دوسری سب سے بڑی وجہ صحیح وقت میں نکاح نہ کرنا ، اور ایک سے زائد نکاح کو فروغ نہ دینا ہے ۔
آج ہمارے درمیان ایسی کئی بچیاں موجود ہیں جن کی عمریں ڈھل چکی ہیں اور 30 ، 32 یہاں تک کہ 40 سے 45 سال ہونے کے بعد بھی وہ گھروں میں کنواری بیٹھی ہیں ۔۔۔۔
کہیں غربت کا بہانہ ، کہیں جہیز کے نام پر ، کہیں تعلیم اور کریئیر کے پیچھے بھاگ کر عمر گنوارہے ہیں ، تو کہیں سلمان خان، شاہ رُخ اور کترینہ کیف اور ایشوریہ کی تلاش ،ایسے میں ایسا کوئی نہیں جو انہیں سمجھاسکے ۔
خطبوں میں، جلسے تقاریب میں چلا چلا کر جہیز ایک لعنت ہے اور نکاح آسان کریں پر لمبے چوڑے بیانات دینے والے علما ، خطیب خود مالداروں کی شادیوں میں پہلی صف میں بیٹھے بوٹیاں کھینچ رہے ہوتے ہیں ، ایسے میں جہاں قول و عمل میں تصادم ہو وہاں زبان اور زبان سے نکلے الفاظ میں تاثیر کیوں کر آئے گی ؟؟؟؟
ایسے میں نکاح آسان بنانے کے لئے جتنی بھی اپیلیں کی جائیں، جتنے بھی بیانات دئے جائیں ، سب بیکار ہیں اور حسٹ فارمیلٹی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ میں مزید دکھاوا، جھوٹی شان و شوکت اور ریاکاری عروج پر ہے ۔۔۔۔۔۔
اس پہ ستم ظریفی ایک سے زائد نکاح کی افادیت پہ بیان دینے والے، عام مسلمانوں کو اس جانب متوجہ کرنے والے علماؤں کے خود اپنے گھروں کے حالات انہیں دوسرے نکاح کی اجازت نہیں دیتے، ایسے میں عام مسلم گھروں کا کیا حال ہوگا ۔
جب کسی بات کا ذکر ہوتا ہے تو بہت سارے واقعات سامنے آجاتے ہیں ایسا ہی ایک واقعہ چند سال پہلے سننے میں آیا تھا
جہاں ایک عالمہ جی ہاں عالمہ خاتون جو کسی مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اولاد سے تو محروم تھی ہی، ساتھ ہی شوہر کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے سے بھی محروم تھیں ،جس کی وجہ سے اُن کے شوہر جو خود بھی عالم ہیں انہونے بیوی سے دوسرا نکاح کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو بیوی ہر عام خاتون کی طرح تلملا اٹھیں اور اپنے شوہر کو اپنی محبت کے واسطے دئے، قسمیں دلائیں اور دوسرے نکاح کی اجازت نہ دیتے ہوئے استغفراللہ غیر ازدواجی تعلقات قائم کرنے کا مشورہ دے ڈالا ۔
بیشک اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد کئی اہل علم حضرات ہم پہ لعن طعن کریںگے ، گالی گلوج بھی دیں گے لیکن جو سچ ہے وہ ہے۔
آج سماج میں ایک سے زائد عیب سمجھا جارہا ہے جس کی وجہ سے غیر ازدواجی تعلقات عروج پر ہیں۔
خیر جب بھی اہل علم حضرات کا ذکر ہوتا ہے تو چند مولوی حضرات چڑھ جاتے ہیں ان کے لئے ہم بس اتنا کہیں گے آپ قوم کے سر کا تاج ہیں آپ کی اہمیت، آپ ہی عزت سر آنکھوںپر، آپ کی ذات امت کے لئے رول ماڈل ہونی چاہئیے، قوم آپ کو فالو کرتی ہے اس لئے امت کے لئے آپ کی ذات مثالی نمونہ ہونی چاہئے ہیں کیونکہ آپ کو نبیوں کے وارث ہونے کا درجہ ملا ہے اور امت کو قوم کو راہ راست پہ لانے کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر ہے ، اور ایک عام مسلمان سے کئی گنا بڑھ کر آپ کی ذمہ داریاں ہیں ۔۔۔
یہاں پر اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج ہر شہر ہر گلی محلے گھر مین مختلف جماعتوں، تنظیموں، اداروں کی جانب سے بچے بچیوں، مرد و خواتین کے لئے اصلاحی پروگرام کئے جاتے ہیں ، تربیتی کیمپس منعقد کئے جاتے ہیں لیکن افسوس نتائج زیرو کیوں ؟
آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ آخر ہماری محنت میں کمی کہاںپر ہے ، یوں تو ہم غیروں میں اسلام کی تعلیمات عام کرنے کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، لیکن یہاں خود اپنی ناک کے نیچے سے اپنے بچے بچیاں مرتد ہورہے ہیں اس کا ذمہ دار کون ؟
بیشک اس کے جواب میں والدین کی تربیت پر ہی سوال اٹھائے جائیں گے ، لیکن جہاں خود والدین کو تربیت کی ضرورت ہو وہاں اولاد کی تربیت کیا ہوگی ؟
دوسری بات جس ماحول کا اثر آج علما و مفتیان کے گھروں تک کو زہرآلود کررہا ہے جو فتنہ اہل علم حضرات کی چوکھٹوں تک پہنچ چکا ہے وہاں پر کس تربیت کا فقدان ہے ؟
ایک مہتمم کے ذمہ کئی بچوں کی ذمہ داری ہے، اگر وہی مہتمم کی بیٹی اس فتنہ کا شکار ہوجائے تو یہاں کس کو ذمہ دار ٹہرایا جائے گا ؟
بہرحال اس پر کہنے لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن مضمون طویل ہوجائے گا سو اتنے پر اکتفا کرتے ہوئے ہم بس اتنا کہیں گے کہ ایک دوسرے کو موردالزام ٹہرانے کے بجائے ہر شخص اگر اپنی اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھائے اور فرقہ بندی و مسلکوں سے باہر نکل کر امت مسلمہ کے حالات ہر غور و فکر کرتے ہوئے متحد ہوکر اس پر کام کریں گے تو ان شاءا اللہ کچھ ہوسکتا ہے ورنہ تو غلط مین غلط میں سب کچھ ختم ہوجائے گا ۔
آخر میں حالات کے مدنظر ہماری جانب سے ادنی سا مشورہ ۔۔۔۔۔
والدین کو چاہئیے کہ وہ اپنے گھروں میں بچوں کے ساتھ دوستانہ ماحول بنائیں تاکہ بچہ ہر چھوٹی بڑی بات بلاخوف آپ سے شئر کرسکے ۔
اس کے علاوہ والدین کے لئے ایک اور ہم اور ضروری بات بیشک ماں باپ کے لئے اُس کی اولاد دنیا کی سب سے زیادہ نیک و پارسا ہوتی باوجود اس پہ نظر رکھنا ضروری ہے بھلے ہمارے بچے اچھے ہون لیکن گھر سے باہر اُن کی صحبت اُن کا ماحول کبھی بھی انہیں بگاڑ سکتا ہے سو پلیز ایک چیل کی طرح اپنے بچے کی بگہبانی کریں بیشک اُسے سونے کا نوالا کھلائیں مگر 24 گھنٹے نگاہ دشمن کی رکھیں ۔۔۔۔۔۔۔
بچوں کی پسند کو اہمیت فوقیت دیں، بالخصوص نکاح کے معاملے میں ورنہ انا اور ضد کے چلتے اکثر زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں اگر آپ کا بچہ یا بچی کسی غریب آپ کے اسٹیٹس کے مقابلے کم، لیکن دیندار مسلم لڑکے لڑکی کو چاہتے اُنہیں اپنا شریک حیات بنانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو یقین جانین موجودہ دور میں جو فتنہ چل رہے ہیں اُس مین یہ آپ کے آپ کے خاندان کے لئے تسلی بخش اور خوش آئند بات ہے سو بلاتاخیر ہان کی مہر لگاتے ہوئے نکاح کروادیں۔
جہاں مسلم بچہ غیرمسلمانوں سے شادیاں رچا کر زنا کرتے ہوئے مرتد ہورہے ہیں وہاں پر یہ خیر کی بات ہے کہ آپ کی بچے دیندار مسلمان کو اپنا شریک حیات بنانا چاہتے ہین اور خدارا اس مین کیڑے نکالتے ہوئے روڑے نہ ڈالین
دوسری بات ریاکاری سے بچتے ہوئے نکاح کو اتنا آسان کریں کہ زنا مشکل ہوجائے
اور ایک سے ذائد نکاح عام کریں جس کا مقصد خالص اللہ کی رضا ہو، نیت طلاق شدہ، بیوہ اور بےسہارا عورتوں کو سہارا دینا ہو
نکاح کو شوق نہیں بلکہ ذمہ داری سمجھتے ہوئے غریب اور یتیم بچیون کے سروں پر دست شفقت رکھیں اور نیک لڑکون سے اُن کا نکاح کروائیں تاکہ اُن کی زندگیان بھی آباد اور خوشگوار ہوسکے ، یاد رہے قوم کی مسلم بیٹی صرف والدین یا خاندان ہج کی نہیم بلکہ پوری قوم کی ذمہ داری ہے اور جس قوم کی لڑکیان کنواری بیٹھی ہیں وہ زندہ لاشیں ہیں اور ان کی اس حالت کی ذمہ دار بیشک پوری قوم ہوگی اور اب کو اللہ کی۔بارگاہ میں جواب دہ ہونا پڑے گا پھر وہاں نہ ہماری عبادتیں کام آئیں گی نہ ہمارے حج ہمیں بچاسکیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسری اور اہم بات شہر کے ہر محلے میں مسلمانوں کے کاؤنسلنگ سینٹرس بنائے جائیں، جہاں بلا کسی ڈر ُخوف کے ہر مسئلے پر بات ہو ہمارے بچے بچیاں ، خواتین کھل کر اپنی پریشانیاں بتائیں تاکہ ان کا بہتر حل نکالا جائے اور اس کے لئےمسجد سے زیادہ مبارک اور مقدس مقام کہیں نہیں ہوگالیکن بشرط اس کی ذمہ داری دیندار نیک، پڑھے لکھے باشعور افراد کے ذمہ ہو، نہ کہ جاہل بدمعاش قسم کے اُن ممبران کے ماتحت ہرگز نہ ہو جنہیں جائز ناجائز اور حلال حرام کا فرق تک پتہ نہیں ہے ۔۔۔۔۔
اور لڑکے لڑکیوں کا الگ سینٹر ہے جہاں بچیوںکی کاؤنسلینگ علاقے کی باشعور خواتین کے ذمہ ہو اور لڑکوں کی کاؤنسلینگ مرد حضرات کریں اورکاونسلینگ سینٹر کے لئے ہر ایک عالم دین کے ساتھ ساتھ ایک ڈاکٹر، ایک وکیل اور ایک سماجی کارکن ضرور ہو، جو اعتماد کے قابل ہوں اور کسی کے راز کو امانت سمجھیں ، ایسے افراد کی باقاعدہ ٹیمیں بناکر اگر اس پہ غور وفکر کے ساتھ کام کیا جائے تو ان شاءاللہ بہتر و مثبت نتائج سامنے آئیں گے اور ان شاءاللہ کامیابی ضرور ملے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.