پنجاب تنازع: تلخیاں اس میں بہت کچھ ہیں مزا کچھ بھی نہیں

 

ڈاکٹر سلیم خان

معروف محاورہ تھا ’لوٹ کے بدھو گھر کو آئے‘۔وزیر اعظم پنجاب گئے اور جان بچا کر لوٹ آئے ۔ اس  دورے کے بعد  اب محاورے میں  اس  تبدیلی کی ضرورت  ہے کہ ’ لوٹ کےمودی واپس آئے‘۔ مودی جی کی اس طرح ’بے آبرو‘ ہوکر  گھر واپسی   کو وزار ت داخلہ  نے سیکورٹی میں بہت بڑی  قرار دیا ہے۔  شاہ جی کا اس معاملے میں  سخت تیور دکھاتے ہوئے پنجاب حکومت سے جواب طلب کرنا الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی مصداق  ہے۔ وزیر اعظم کا تحفظ ایس پی جی کی  واحد ذمہ داری ہے اور یہ محکمہ  وزارت داخلہ کے تحت کام کرتا  ہے۔   ریاستی  یا مقامی انتظامیہ اس کے اشارے پر کام کرنے کے لیے مجبور ہوتا ہے ۔ اس لیے اگر سیکورٹی میں کوئی کجی تھی تو اس کی پہلی اور آخری ذمہ داری ایس پی جی کے توسط سے خود وزارت داخلہ پر آتی ہے۔

وزارتِ داخلہ   کاالزام  ہے کہ وزیر اعظم کے دورے کی ساری  معلومات حکومتِ  پنجاب  کو فراہم کر دی گئی تھی۔ منصوبے کے مطابق  صوبائی حکومت کو لاجسٹکس، سیکورٹی اور متبادل  پلان تیار رکھنا تھا۔ پنجاب  سرکار  نے  اضافی سیکورٹی فورس تعینات  نہیں کی۔  مرکز نےریاست کواس ’ بھول چوک‘ کی  جوابدہی طے کرنے کاحکم دیا  ہے۔ سرکار دربار میں جوابدہی طے کرنا ٹال مٹول کا بہانہ ہوتا ہے۔  اس میں ہمیشہ چھوٹے موٹے اہلکاروں  کو بلی کا بکرا بنایا جاتا ہے لیکن بی جے پی اس کی آڑ میں جو سیاسی تماشہ کررہی ہے اس کا منہ توڑ جواب وزیر اعلیٰ  چرنجیت سنگھ چنی نے دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ موسم کی خرابی کے سبب اچانک وزیر اعظم نے ہیلی کاپٹر کے بجائے سڑک کے راستے آنے کا فیصلہ کیا اس وجہ سے گڑ بڑ ہوگئی۔

 سوال یہ ہے کہ اگر محکمہ ٔ موسمیات نے بارش  کی پیشنگوئی کردی تھی  اس لیے سڑک سے جانا لازمی تھا۔ دس کسان تنظیموں نے اس دورے کے خلاف احتجاج کرنے کا اعلان بھی  کردیا تھا جو ظاہر  ہے  سڑکوں پر ہو ناتھا اس لیے  ایس پی جی کو چاہیے تھا کہ موسم اور مظاہرے کی وجہ سے  دورہ ملتوی کروادیتا نیز آن لائن خطاب پر اکتفاء کیا جاتا لیکن  ان لوگوں کا کیا کیا جائے جو سوچتے ہیں  ’مودی ہے توکچھ بھی  ممکن ہے‘ ۔  بی جے پی نے کسانوں کے ساتھ وزیر اعلیٰ    چرنجیت چنی کو بھی بدنام کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں   نے یہ کہہ کرکہ   وہ وزیر اعظم کا راستہ صاف کرنے کی خاطر اپنے کسان بھائیوں پر گولی نہیں چلا سکتے  بازی الٹ دی۔ اس سے پہلے کہ بی جے پی  وزیر اعظم کی توہین کا ڈھنڈورا پیٹ کر عوام کو اپنی جانب  راغب کرتی وزیر اعلیٰ نے انہیں اپنا بنا لیا ۔

پنجاب میں وزیر اعظم کے دورے سے برپا ہونے والا ہنگامہ  کافی  پیچیدہ ہے ۔ اس میں     سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ احتجاج کسان سینیوکت مورچہ کی جانب سے نہیں ہوا۔ اس لیے کسانوں کی تحریک کو اس کے لیے بدنام نہیں کیا جاسکتا۔  مظاہرے  کا اہتمام بھارتیہ کسان یونین (کرانتی کاری ) نے کیا تھا۔  وہ لوگ پہلے سے  مختلف مطالبات کی خاطر مظاہرے کررہے تھے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ  وزیر اعظم کا قافلہ ان کے سبب رکا اور وہ لوٹ  گئے اس کا علم انہیں واپسی کے بعد ہوا۔  بھارتیہ کسان یونین اگراہان ، بی کے یو داکونڈا اور کیرتی کسان یونین تین دنوں سے مظاہرے   کرکے وزیر اعظم کے پتلے جلارہے تھے لیکن اگراہان تو ریاست کی کانگریسی حکومت کے خلاف پچھلے دس دنوں سے احتجاج کررہے ہیں ۔اس لیے اس احتجاج کو کانگریس کی سازش نہیں قرار دیا جاسکتا۔

پچھلے ایک سال میں کسانوں کی تحریک کو بدنام کرنے کی خاطر بی جے پی نے لکھا سدھانا، دیپ سدھو، ستنام پنو اورسربجیت  پنڈیر کو خوب استعمال کیا۔ ان کے ذریعہ لال قلعہ پر  نشان صاحب  پرچم لہروایا۔ وہ سب آزاد گھوم رہے ہیں ۔ اس بات کا قوی امکان ہے   کہ بی جے پی نے ہمدردی حاصل کرنے کے لیے اپنے حامیوں کے ذریعہ یہ مخالفت کروائی  ہو۔ یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ ہے کہ جب جلسہ گاہ سے تیس کلومیٹر قبل ایک پلُ پر یہ قافلہ رکا تو کسان کافی فاصلے پر تھے ۔ اس لیے کوئی حقیقی  خطرہ تو موجود ہی  نہیں تھا۔  ذرائع ابلاغ میں یہ خبر بھی آئی کہ وزیر اعظم  کے محافظین نے راستہ بدلنے کا فیصلہ کیا لیکن اچانک وزیر اعظم نے واپس ہوائی اڈہ  لوٹنے کا حکم دے دیا۔  اس کی وجہ یہ تھی کہ بی جے پی کے مونگیری لال نے فیروزپور میں پانچ لاکھ لوگوں کے شرکت کا دعویٰ کیا اور وہاں پانچ ہزار لوگ بھی نہیں پہنچے۔

اس بابت خود  بی جے پی بھی سنجیدہ نہیں تھی۔  بارش کاامکان ہونے کے باوجود اس سے بچاو کا کوئی انتظام نہیں  تھا ۔ پنجاب سے چونکہ کسانوں کی آمد ممکن نہیں تھی اس لیے بھیڑ بڑھانے کی خاطر پڑوس کے صوبوں سے کسانوں کو لانے کا منصوبہ    بنایا گیالیکن کسانوں نے انہیں روک دیا  تین ہزار دو سو بسو ں کا ہدف طے کیا گیا مگر محض پانچ سو بسوں کی پارکنگ بنائی ۔ ان وجوہات کی بناء پر اجتماع گاہ میں بیشتر کرسیاں خالی تھیں۔  ایسے  میدان میں تقریر کرنے کی رسوائی سے بچنے کی خاطر وزیر اعظم درمیان سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔  کسان قوانین کی واپسی کے بعد یہ ان کی دوسری بڑی ہزیمت ہے کہ وزیر اعظم  بیرنگ لوٹ کر دہلی میں اپنی مظلومیت کے ٹسوے بہا رہے ہیں ۔

عامر خان  نے جب  کہا تھا کہ میری بیوی   اپنے آپ کو اس ملک میں غیر محفوظ محسوس کرتی ہے تو عالمی  بدنامی  کا ہنگامہ کھڑا کر کے   بی جے پی والوں نے انہیں  پاکستان جانے کا مشورہ دیا تھا ۔اب ووزیر اعظم نے اپنی جان  کے بچ جانے پر شکریہ ادا کرکے قوم کا نام روشن کیا تو  مخالفین  انہیں بھی پاکستان جانے کی صلاح  دے رہے ہیں ۔  وزیر اعظم کی حفاظت پر تعینات ایس پی جی جوانوں کو امریکہ کے خفیہ ادارے کی ہدایت کے مطابق تربیت دی جاتی ہے۔ ان کے پاس ایم این ایف :2000 اسالٹ رائفل  کے علاوہ آٹومیٹک گن اور 17ایم ریوالور جیساجدید اسلحہ ہوتا ہے۔ ایس پی جی میں تین ہزار لوگ ہیں جن میں سے ایک ہزار ہمیشہ پی ایم  کے ساتھ  رہتے ہیں ۔وزیر اعظم جب خطاب کرتے ہیں تو  جلسہ گاہ کے اندر دس ہزار پولس اور نیم فوجی دستے تعینات ہوتے ہیں۔  وزیر اعظم کے راستے پر حفاظتی عملہ پہلے ریہرسل کرتا ہے۔ اس میں ایس پی جی کے ساتھ ، مقامی پولس، خفیہ  بیورواور اے ایس ایل کے اہلکار شامل ہوتے ہیں۔ ان کےقافلے میں  ایک جیمر والی گاڑی شامل ہوتی ہے جو سڑک کے دونوں جانب سو میٹر دوری تک کسی بھی ریموٹ کنٹرول آلہ کو جام کردیتی ہے۔   اس کے باوجود اگر کوئی ڈرتا ہے تو اسے کم از کم اپنے 56انچی سینے پر فخر نہیں کرنا چاہیے۔

وزیر اعظم کو اگر اپنی ایس پی جی پر اعتماد نہ ہوتو ان  کی حفاظت  کا ذمہ ہری دوار کے دھرم سنسد میں موجود سادھو سنتوں کو دیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ بیس لاکھ مسلمانوں کے قتل عام کی طاقت رکھتے ہیں ان کے لیے اپنے چہیتے وزیر اعظم کا تحفظ کون سی بڑی بات  ہے۔ پنجاب میں اگر وزیر اعظم کے آگے ان راستہ صاف کرنے کے لیے  سادھو سنتوں کوبھیجا جاتا تو وہ منٹوں  مظاہرہ کرنے والے کسانوں کو بھنڈان والے کا واسطہ دے کر  ہٹا دیتے۔ وزیر اعظم بڑی شان کے ساتھ جلسہ گاہ پہنچ جاتے جہاں پانچ لاکھ کرسیوں پر پانچ ہزار لوگ ان کا انتظار کررہے تھے ۔ یعنی ہر ایک فرد کے سو کرسیوں کا اہتمام تھا ۔ اسے دیکھ کر مگامبو  خوش ہوجاتا ۔ سردار شاباشی دیتا۔ وہاں سے پاکستان اور چین  کو  صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کی دھمکی دیتے۔  اس لیے آئندہ ایسی رسوائی سے بچنے کی خاطر نرسنگھانند جیسے لوگوں کی خدمات حاصل کی جانی چاہئیں ۔  آر ایس ایس کے لوگ  پنجاب میں راشٹریہ  سکھ  سنگت بنا کر جو کام کرنے میں ناکام ہوگئے وہ دھرم سنسد کرسکتا ہے۔  افسوس کہ یہ لوگ اتراکھنڈ کے بغل میں پنجاب جانے کے بجائے اترپردیش میں اپنی دھرم سنسد کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں حالانکہ وہاں تو یوگی کے رام  راج  میں ہر کوئی محفوظ ہے  پنجاب میں وزیر اعظم  کے  عدم تحفظ کا مسئلہ درپیش  ہے۔      

Comments are closed.