موبائل ایپلی کیشن کے ذریعہ مسلم خواتین کی ہتک عزت: خواتین کو ’دیوی ‘ تسلیم کئے جانے والے ملک کی ہوش رُبا تصویر

از :احمد فاخرؔ ، نئی دہلی
لاریب جب سے آر ایس ایس کے آشیروادسے بی جے پی پارٹی برسراقتدار ہوئی ہے، نفرت اور تشدد کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑا ہے،کس کس زخم کو کریدیئے اور کس کس واقعہ کو ’’فکر غلط ‘‘کہہ کر پردہ پوشی کیجئے، دادری کے محمد اخلاق سے لے کر ،راجستھان کے پہلو خان ، راجسمندمیں مغربی بنگال کے مرحوم افرازُالاسلام کے بہیمانہ قتل اور ملزم کے تئیں اکثریتی طبقہ کی ہمدردی،جھارکھنڈ کے محمد تبریز انصاری ہوتے ہوئے ہریانہ کے راہل خان نامی تک کے نوجوان کا ہجومی تشدد میں قتل کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے،بلکہ آر ایس ایس کی پھیلائی ہوئی نفرت کی تخم ریزی،اورنفرت کی چنگاری کو ہوا دینے کا شاخسانہ ہے ،لیکن ہم ہیں کہ جمہوریت کی دُہائی دیئے پھرتے ہیں ،اور پھر باہمی’ بھائی چارہ ‘کہہ کر سب کچھ بھول جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔یاد رکھیں! یہ عمل آزاد ہندوستان میں رہتے ہوئے ھماری سب سے بڑی سیاسی چوک ہے ، جس کا خمیازہ آنے والے دنوں کو ہمیں اور آنی والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ ہری دوار میں منعقدہ دھرم سنسد میں جس طرح سے کئی فائر برانڈ مذہبی رہنماؤں نے مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے کی کھلی اور واضح دھمکی دی ، وہ ایک طوفانِ بدتمیز کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتاہے، شکرہے کہ ملزمین کیخلاف ایف آئی آر درج ہوگیا ہے،لیکن تاحال گرفتاری عمل میں نہ آنا ، ملی بھگت کا واضح اشارہ ہے،خیر!پہلے تو یہ تھا کہ مسلمانوں کو مارنے،کاٹنے اور دریا بُرد کردیئے جانے کی دھمکیاں ملتی تھیں،یہ دھمکیاں ہمیں روزِ محشر تک ملیں گی ، کیوں کہ ہمارا وجود ہی ان نام نہاد ’دیش پریمیوں ‘ کو کھٹکتا ہے،یہی ان کا مشغلۂ حیات ہے اور یہی نفرت انہیں آب و دانہ بھی فراہم کر تی ہے۔
مرکزکی بی جے پی سرکار نے ملکی عوام کو ’’ سب کاساتھ ، سب کا وکاس ، سب کا وشواس ‘‘نامی منتر دیا ، اس منتر میں کتنی صداقت ہے ، اس کا اظہار بار بار ہوتار ہا،زمینی سطح پر کس قدر کامیاب ہے ، البتہ اس کا افشا باقی ہے ؛ لیکن اقلیتوں کے لئے ان سات آٹھ سالوں میں کچھ نہیں بدلا۔ وہی دھمکیاں ، وہی تمسخر ، وہی ٹھٹھول ، وہی گروہ بندیاں ، وہی سیاسی بے وزنی اور بے وقعتی جبر مسلسل کی طرح ہمارے ساتھ چسپاں ہے ۔محض صرف قتل و خون پر اکتفا نہیں کرتے ؛بلکہ ان کی وحشت ناکی اور سفاکی کا ایک بدترین اور شرمناک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ مسلم خواتین کی عزت کو مجروح کرنے کے سوسو کے جتن کرر ہے ہیں ۔ذرایا د کیجئے ،ریاست کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد بی جے پی لیڈران کی بیہودہ بیان بازی، مرحومہ آصفہ عصمت دری معاملہ پر چارج شیٹ میں درج واقعہ کے تمام مشمولات و نکات،لو َ جہاد کے نام پر مسلم لڑکیوں کے ساتھ جبری شادی اور گھر واپسی کی تحریک پرانی بھی نہیں ہوئی تھا کہ انٹر نیٹ کے ذریعہ موبائل اپلی کیشنز کے تحت آن لائن باوقار مسلم خواتین اور لڑکیوں کے عزت کو پامال کرنے کیلئے ’سلی بائی‘ اور ’بلی بائی‘ نامی ایپ لانچ کردیا گیا ۔اس ایپ میں ان تمام مسلم خواتین کو نشانہ بنایاگیا ، جو سماجی کارکن کی حیثیت سے اپنی قومی و ملی خدمات انجام دی رہی ہیں، اور سماج میں اپنا وسیع حلقہ ر کھتی ہیں، جن میں کئی معزز خواتین ، خاتو ن مسلم صحافی اور مسلم لڑکیاں ہیں ۔ سی اے اے تحریک کی ’آئی کن‘ (ICON) بن چکی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی سابق طالبہ عائشہ رینا اور لدیدہ فرزانہ کو بھی اپنی اِس اوچھی حرکت اور خسیس ذہنیت کا نشانہ بنایا گیا، اس فہرست میں تقریباً سو سے زائد مسلم خواتین ہیں ،حتیٰ کہ جے این یو کے مظلوم گمشدہ طالب علم نجیب کی والدہ معظمہ کو بھی اس فہرست میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ خیال رہے کہ گمشدہ نجیب کی تلاش میں سی بی آئی اپنی ناکامی کا اظہا رکرچکی ہے ۔یہ تمام وہ معزز مسلم خواتین ہیں ، جو سوشل میڈیا کے تحت متعصب حکومت کی مسلم مخالف پالیسیوں کیخلاف صدائے احتجاج بلندکرتی رہتی ہیں ۔ اس سے قبل بھی سلی بائی نامی ایپ کے ذریعہ معروف مسلم خواتین کی عزت و وقار سے کھلواڑ کی کوشش کی گئی تھی ،شکایت درج ہونے کے بعد اس موبائل ایپلی کیشن کو گیٹ ہب (Github)پلیٹ فارم سے ڈیلیٹ کردیا گیا،نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آردرج کرکے محض خانہ پری کرلی گئی۔خیال رہے کہ (Github) ایک ایسا پلیٹ فارم ہے ، جو ہر طرح کے موبائل ایپلی کیشنز کی ہوسٹنگ کرتا ہے ، اسی پلیٹ فارم کے توسط اس مکروہ ایپ کو لانچ کیا گیا۔
ابھی گزشتہ دنوں پھردوبارہ محض چھ ماہ کے بعدہی بلی بائی (Bulli bai) لانچ کردیا گیا ، جس کا مقصدمعزز مسلم خواتین کواپنی خسیس ذہنیت کا نشانہ بنانا تھا ۔اس واقعہ کے تحت جن چار لوگوں کی گرفتاری عمل میں آ ئی ہے ،وہ تمام ملزمین طالب علم ہیں ۔ان ملزمان کے نام یوں ہیں۔(۱)مینک روال(۲)شویتا سنگھ (۳)وشال کمار جھا اورکلیدی ملزم (۴) نیرج بشنوئی ۔نیرج بشنوئی اس واقعہ کا کلیدی ملزم قرار دیا جاتا ہے،گٹ ہب نامی پلیٹ فارم پر اسی ملزم نے ایپ ڈیزائن کیا تھا۔ نیرج بشنوئی کو دہلی پولیس نے آسام سے گرفتار کرلیا ہے ، اسی ملزم نیرج بشنوئی نے اس ایپ کا لنک ٹوئٹر پر پوسٹ کیا تھا ۔ یہ چاروںاس سماج کے نوجوان ہیں ، جس کے دل و دماغ میں مسلمانوں اور مسلم خواتین کے تئیں شدید ترین نفرت اور زہر گھُلا ہوا ہے۔اترا کھنڈ سے دو ملزمان مینک روال اور شویتا سنگھ تعلق رکھتے ہیں ۔واضح ہو کہ شویتا سنگھ نامی طالبہ کے والدین فوت کرچکے ہیں ، والد کرونا کی دوسری لہرمیں سالِ گزشتہ آنجہانی ہوئے ، جبکہ والدہ کینسر کے باعث دس سا ل قبل فوت کرگئیں ، گھر پر دو چھوٹے بھائی بہن ہیں، گزر اوقات والد کی کمپنی کی طرف سے ملنے والے وظیفہ سے ہوتا ہے ۔ شویتا سنگھ نامی لڑکی کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ شویتا سنگھ کا تعلق نیپال میں مقیم ایک نیپالی دوست سے تھاجس سے وہ سوشل میڈیا کے ذریعہ رابطہ میں تھی، جس کے اشارے پر شویتا سنگھ یہ کام کررہی تھی۔ ممبئی پولیس ترجمان کے مطابق مذکورہ ایپ میں جس زبان اور نام کا استعمال کیا گیا ، اس سے مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان منافرت اور افراتفری بھی مترشح ہوتی ہے ، کیوں کہ اس ایپ میں پنجابی زبان کا استعمال کیا گیا ہے ۔جرم کے ارتکاب کے بعد بھی ان ملزمین کا حوصلہ دیکھئے کہ وہ بغیر کسی ہچک ، شرمندگی یا عار کے کہتا ہے کہ ہمیں اپنے اس عمل پر کوئی افسوس نہیں ہے ، جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ اسی طرح ابھی حالیہ دنوں وارانسی سے متصل چندولی سے ایک ایسے نوجوان کو گرفتار کیا گیا ، جس کا نام اجے راؤ تھا، جو سوشل میڈیا پر مسلم مخالف پوسٹ کیا کرتاتھا ،وہ تمام اسلامی شعائر کیخلاف اشتعال انگیز مضحکہ خیز اور اہانت آمیز تبصرہ کا مرتکب تھا ۔ گرفتاری کے بعد معلوم ہو اکہ اجے راؤ بی ٹیک کرنے کے بعد بھی بیروزگار تھا، جس سے نالاں ہوکروہ سماج میں آگ لگانے کا کام کرنے لگا ۔ ان نوجوانوں کو اس طرح کی تخریبی کاروائی میں ملوث ہونا تباہ کن انجام کی طرف اشارہ ہے ، درحقیقت انہیں ’ ہندوراشٹر‘ کاایسا جام پلادیا گیا ہے کہ جس کے نشہ میں وہ تمام نتائج سے یکسر غافل ہیں، لیکن ان کا نشہ کافور ہونے کو ہے ، محض کچھ ایام کی مہلت ہے ، فاقض ماأنت قاض(الا ٰیہ)۔
اَب اِس پہلو کی طرف غور کریں کہ کیا وہ وَہی ہندوستان ہے ، جہاں عورت کو ’دیوی‘ کی روپ میں دیکھا جاتا ہے ؟ کیا یہ وہی ہندوستان ہے،جس کا مول منتر (شعار)’و َسودھیو کوٹمبکم ہے ،جسے ہم ’الخلقُ عَیالُ اللہ ‘ کے ہم معنی سمجھ سکتے ہیں،لیکن موجودہ صورتحال مختلف ہی نہیں؛بلکہ بدترین خدشات کو جنم دیتے ہیں ۔ایک خاص طبقہ مسلمان خواتین کے تئیں ہتک آمیز رویہ ، عزتِ نفس پر حملہ اورواضح بے حرمتی ہے ،تو’ وَسودھیوکوٹمبکم ‘ کے منافی عمل کا اِرتکاب ہے ۔ آخر کون ہے اس کے پیچھے ، جس کے اشارے پر یہ تمام تخریبی کاروائی انجام دی جاتی ہیں، کس کی پشت پناہی، سرپرستی؛بلکہ ’آشیرواد ‘ میں ایسے امور انجام دیئے جاتے ہیں؟نیز ستم تو یہ ہے کہ ان ملزمین کو اپنے جرم پر کوئی افسوس بھی نہیں ہے۔ اس راز کا فاش ہونا ملکی سا لمیت کے لئے لازم ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ منصفی کی توقع کس کی جائے ؟حقیقت تو یہ ہے کہ ’قاتلوں کی بھیڑ ہے ایوان میں ‘ ۔درحقیقت حکمراں طبقہ اور ان کے حواریوں کے پاس اب کو ئی ایشو باقی نہیں ہے ، جس کے تحت وہ عوام کے پاس جائیں ۔ کرونا لاک ڈاؤن میں حکومت کی ناکامی ہندوستان کے ہر خاص و عام نے دیکھا ، مزدوروں کی بے بسی ،کسمپرسی اور بیچارگی کا نظارہ اسی ملک کے آسمان و زمیں نے کیا ۔اس زخم کو لوگ بھلا بھی نہیں پائے تھے کہ کرونا کی دوسری لہر آگئی، جس میں پھر حکومت کے تمام دعوے ریت کا ٹیلہ ثابت ہوکر رہ گئے ،شمشان گھاٹ میں چتاؤں کے ’داہ سنسکار‘ (نذرِ آتش) کیلئے جگہ اور لکڑیاں کم پڑگئیں ، اور دریائے گنگا و جمنا کے کنارے بے گور و کفن انسانی لاشوں کا انبار دیکھاگیا ۔ان تمام ناکامی کے بعد آخری حربہ مسلم نفرت ہے،جسے بخوبی آزمایا جار ہا ہے ، یہ سب سے آزمودہ اور مجرب نسخہ ہے ، جسے ہر بار آزمایا گیا ہے ، اورہر بار کامیابی حاصل کی گئی ہے ۔ سات آٹھ سالوں سے فقید المثال مرکز میں بی جے پی کی حکومت سازی بھی اسی مسلم نفرت کا شاخسانہ ہے۔آئندہ کچھ دنوں کے بعد یوپی میں اسمبلی الیکشن ہیں،جن کے لئے تمام تیاریاں شباب پر ہیں۔ برسراقتدار طبقہ کے لیڈران اور حواریوں کی نشست و برخاست اور اندازِ تکلم سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار پھر مسلم نفرت کی بنیاد پر ’یوپی فتح ‘کا مشن مکمل کیا جار ہاہے ۔ مجھے خدشہ ہی نہیں،بلکہ قوی امید ہے کہ اس مسلم نفرت کی بنیاد پرایک بار پھر یوپی فتح کرلیا جائے گا۔ملک کے معتدبہ عوام جن کی تعداد 80فیصد ی ہے ، وہ جوشِ جنون اور ہندوراشٹر کے قیام کے نشہ میں صرف تالیاں اور تھالیاںہی بجاتے رہ جائیں گے، اُن کے حصہ میں صرف مایوسی ، نامرادی ،تباہی اور بے روزگاری ہی ہو گی ۔ یہ صداقت تو ان لوگوں کے متعلق ہے ، جومذہبی جنون میں مبتلا ہیں ، لیکن تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک میں الاماشاء اللہ ہر اکثریتی طبقہ کے ہر بنِ موُ سے مسلم نفرت ٹپکتی رہتی ہے،جس کا اندازہ سوشل میڈیاپر کسی مسلمانوں کے متعلق پوسٹ پر کئے گئے اکثریتی طبقہ کے افراد کے تبصرے سے بخوبی کیا جاسکتا ہے ۔ یہ مسلم نفرت بہت گہری جڑپکڑچکی ہے، جس کا اظہار سوشل میڈیا سے لے کر مین اسٹر یم میڈیا پر ہوتا رہتا ہے ، اور اس ’طوفانِ بدتمیز ‘ کی زد میں 25کروڑ کمزور مسلمان ہیں ، یہی ایک وہ چراغ ہے ، جو طوفان کے مقابل اپنی تمامتر طمطراق کے ساتھ برسرِ پیکار ہے۔اس نفرت کے خاتمے میں قرنوں لگیں گے، البتہ ان 25کروڑ کو ان نفرت آمیز سلسلے کا صبروتحمل اور پامردی کے ساتھ جرأت مندانہ مقابلہ کرتے رہنے چاہئیں۔
قاتلوں کے خنجروں سے خوف کیوں
زہر قاتل تو نہیں پیکان میں؟
الغرض !اس موقعہ پر ممبئی اور دہلی پولیس مستحق شکریہ ہے ، جنہوں نے مذکورہ واقعہ کے تحت اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی؛بلکہ دوسری ریاست آسام اور اتراکھنڈ پہنچ کر چھپے ملزمان کو گرفتارکیا،اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ ملزمان کو قرار واقعی سزا ملی یا نہیں ۔
٭٭٭

Comments are closed.