ٹہنی کے کاٹنے سے پیڑ نہیں کٹتا

امام علی مقصود فلاحی
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
اس بار ہمارے نئے سال کی شروعات ایک ایسے ایپ سے ہوئی جسکا نام ’’بلی بائی ایپ‘‘ جس نے پورے ملک میں ہنگامہ کھڑا کر دیا، جس ایپ نے سوشل میڈیا کا جنازہ نکال دیا، جس کے ذریعے ملک میں افراتفری کا ماحول بنا، بے گناہ اور باعزت لڑکیوں کو رسوا کیا گیا، ہمیں لگا تھا کہ شاید یہ سال ہمارا اچھا گذرے گا، لیکن اس کی شروعات ہی نفرت کے آگ سے ہوئی۔
لیکن کچھ لوگ شاید میرے اس موضوع پر اعتراض کریں گے کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے، اتنا تو ہر آئے دن ہوتا رہتا ہے، ایسے واقعات تو چلتے رہتے ہیں، سو میں سے ایک خراب تو نکل ہی جاتا ہے۔
لیکن میرا سوال یہ ہے کہ ہر سو لوگوں میں سے ایک خراب بھی کیوں نکلتا ہے، کیوں ہر آئے دن ایسا واقعہ کیوں پیش آتا ہے۔ اگر یہ ایک عام بات ہے تو اس مجرم کو جو ہر آئے دن کوئی نہ کوئی جرم کرتا رہتا ہے اسے سزا بھی نہ دی جائے، اگر یہ ایک معمولی مسئلہ ہے تو خرافات کو قانون کا ایک جائز حصہ بنا دیا جائے، قانون کا حصہ نہیں کم از کم مجرم کو سزا ہی نہ دی جائے. لیکن نہیں ہر جرم کی سزا متعین ہے، ہر جگہ اور ہر ملک میں جرم کی سزا موجود ہے۔
قارئین! اگر یوں ہی مجرموں کا چھوڑ دیا جائے اور ہر ہونے جرم کو نظر انداز کر دیا جائے تو ملک کا صحتمند ماحول کمزور ہوجاتا ہے، پھر اسی کے ذریعے طرح طرح کے خرافات پیدا ہوتے ہیں، بچوں کی نافرمانی، والدین اور اساتذہ کی بے ادبی، چھوٹوں پر ظلم اور بڑوں کی ناقدری جیسے افعال وجود میں آنے لگتے ہیں۔
اگر ہم اپنے ملک کا جائزہ لیں تو بہت ساری ایسی مثالیں مل جائیں گی، جس میں والدین اور اساتذہ کی نافرمانی، بڑوں سے بدتمیزی اور دوسروں کے مذہب کی بے عزتی اور ملک میں افراتفری کا ماحول شامل حال ہے۔
کیا آپ نے جامعہ کی سرزمین دہلی میں اس نوجوان کا حال نہیں دیکھا؟ جس نے کھلے عام بندوق سے پولیس کی موجودگی میں ایک طالبعلم پر وار کیا؟ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ پال گھر میں کیسے سادھوؤں کو مارا گیا؟ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اخلاق اور پہلو خان کے ساتھ کیا کیا گیا؟ کیا آپ نے نہیں سنا کہ جنید انصاری کے ساتھ کیا ہوا؟ کیا آپ نے نہیں پڑھا کہ نربھیا کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا؟ کیا آپ نے پرینکا ریڈی جو کہ حیدرآباد کی ستائیس سالہ ایک ڈاکٹر خاتون تھی جسکے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ کیا آپ کو صابیہ سیفی یاد نہیں رہی جو کہ ایک پولیس افسر تھی، دہلی میں رہتی تھی اسکی بھی عزت کو تار تار کیا گیا۔
یہ سب کیوں ہوا؟ اسی لئے ہوا کہ آج ہم نے ہر ناجائز معاملہ کو نظر انداز کیا، ہماری عادت بن گئی کہ جب بھی کوئی بھیانک واقعہ پیش آتا ہے تب ہم اسے یہ کہہ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ ایسا ہوتا رہتا ہے، ہمارا مزاج ایسا بن گیا ہے کہ ہم ہر چیز کو ہلکے میں لیتے ہیں، والدین و اساتذہ کی نافرمانی ہو رہی ہے تو ہونے دو بچے اور طلباء بڑے ہو چکے ہیں۔ بڑوں کی ناقدری ہورہی ہے تو ہونے دو ان پر تنقیدیں ہو رہی ہیں تو ہونے دو بچے زیادہ پڑھ لیے ہیں۔ زناکاری ہو رہی ہے تو ہونے دو معاشرہ بہت خراب ہو چکا ہے، چوری ہو رہی تو ہونے دو لوگ غریب ہوچکے ہیں، لڑکیاں نیلام ہو رہی ہیں تو ہونے دو انکی اپنی لائف ہے۔
آج ہماری یہ سوچ بن چکی ہے جسکی وجہ سے آج ہمارا ملک بدنام ہوتے جارہا ہے، جسکی وجہ سے آج نئے نئے خرافات پیدا ہو رہے ہیں، جسکی وجہ سے آج زناکاری عام ہو رہی، چوری ڈکیتی عام ہورہی ہے، جسکی وجہ سے آج ایک خاص معاشرے کو ٹارگیٹ کیا جارہا ہے، جسکی وجہ سے آج مسلم لڑکیوں کو کھلے عام نیلام کیا جارہا ہے۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ صرف اور صرف اسی لئے کہ آج ہم نے کسی بھی معاملے کو دل سے نہیں سنا۔
بدمعاش بدمعاشی کر رہے ہیں، چور چوری کر رہے ہیں لیکن ہمیں پتہ ہی نہیں چل رہا ہے،چوری کوئی اور کر رہا ہے، بدمعاشی کوئی اور کر رہا ہے، پکڑ ہم کسی اور کو رہے ہیں، سزا کسی اور کو دے رہے ہیں، اگر ایسا ہی چلتا رہا اور چڑ کو چھوڑ کر ٹہنی کو کاٹتے رہے تو پیڑ کبھی بھی کٹنے والا نہیں ہے، اسی لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پہلے اصل (جڑ) کو کاٹنے، ٹہنی خودبخود کٹ جائے گی۔
کیونکہ یہ ایک فطری چیز ہے کہ اگر کسی چیز کو ختم کرنا ہے تو پہلے اسکی جڑ کو ختم کیا جاتا ہے، جیسے اگر کسی گھنے درخت کو نیست و نابود کرنا ہو تو اسے جڑ سے اکھاڑا جاتا ہے، اگر اسکی ٹہنیوں کو ہی کاٹ کر اکتفاء کیا جائے گا تو وہ درخت دوبارہ ویسے ہی ہوجائے گا جیسے پہلے تھا اسی لئے اسے جڑ سے ختم کرنا پڑے گا۔
آج ملک میں ایک خاص گروپ بنایا گیا ہے جسکا مقصد ہی صرف اور صرف یہی ہے کہ وہ مسلم لڑکیوں کو بھگا کر انہیں غیر مسلم بنایا جائے، اور یہ گروپ کو ڈھکا چھپا گروپ نہیں ہے بلکہ سب کی نظروں میں ہے سرکار ہو یا عوام ہر شخص اس سے واقف ہے، اسکو کیوں نہیں ختم کیا جاتا ہے؟ آج ملک میں ایک ایسا طبقہ بھی موجود جسکا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو مارنے اور انکو بھگانے کی کہ شش کرتا ہے اور ہر آئے دن بہکی بہکی باتیں کرتا ہے، کھلے عام مسلمانوں کو دھمکی دیتا ہے، پھر وہی سن کر دوسروں میں جوش و ولولہ پیدا ہوتا ہے جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر کسی کا اجتماعی قتل ہو جاتا ہے، پھر اس قاتل کو ڈھونڈھا جاتا ہے، ارے بھائی جو اصل ہے جس نے اسے بھڑکایا ہے اسے پکڑا جائے نا! جو جڑ ہے اسکو کاٹا جائے نا! ٹہنی کے پیچھے کیوں بھاگا جا رہا ؟ یہ کہاں کا تماشہ دکھایا جا رہا ہے؟ کیا ٹہنی کاٹنے سے پیڑ کٹ جائے گا، یہ کہاں کی بیوقوفی ہے؟ آج بچہ بگڑ جاتا ہے تو کہتے ہیں والدین میں کمی ہوگی، انہوں نے تربیت صحیح نہیں کی ہوگی، آج بچہ جب کسی چیز کو بھول جاتا ہے تو کہتے ہیں اسکا حافظہ کمزو ہوگا، آج جب کوئی فیملی بری نکل جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ اسکی نسل صحیح نہی ہوگی، غرض یہ کہ جب بھی کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو فوراً ہمارا دماغ اسکے اصل یعنی جڑ کی طرف جاتا ہے، لیکن آج ملک میں جب کوئی کرپشن ہوتا ہے یا کوئی بدفعلی اور خرابی ہوتی ہے تو ہم اسکے اصل اور جڑ کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتے، اسکا جو ماسٹر مائنڈ ہے اسے کیوں نہی گرفتار کرتے، آج جب ملک میں ایک خاص طبقے کی خواتین کو کھلے عام نیلام کرنے کی کوشش کی جاری ہے تو ہم اس اصل دنگائی کو کیوں نہیں گرفتار کرتے ہیں جو کھلے عام بیس لاکھ مسلمانوں کو مارنے کی دھمکی دیتا ہے، ہم اس مجرم کو کیوں نہیں پکڑتے جو بر منظر عام یہ کہتا ہے کہ دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو، ہم اس مجرم کو کیوں نہیں پکڑتے جو یہ کہتا ہے کہ یہ ملک ہمارا ملک ہے اس میں صرف ہندو رہیں گے، اس مجرم کو کیوں نہیں پکڑتے جو کھلے عام کہتا ہے کہ مسلمانوں کو یہاں سے بھگایا جائے۔
اصل تو یہ ہیں، ان ہی کی وجہ سے دنگے فساد ہوتے ہیں، انہیں کی سپورٹ کی وجہ سے آج مسلمان معاشرے کو نشانہ بنایا جارہا ہے اس لیے لازم ہے کہ پہلے اصل یعنی جڑ کا ختم کیا جائے انکی گرفتاری کی جائے جڑ سے ہونے والی غلطی بھی ختم ہوجائے گی۔

Comments are closed.