اترپردیش انتخابات : مسلمان جوش سے نہیں ہوش سے کام لیں !

 

از : رحمت اللہ رحمتی شیموگہ
9980255172

اتر پردیش اسمبلی انتخابات پر بھارت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی نظریں گڑھی ہیں, اس کی اہم وجہ ملک کی سیاست پر اسکے اثرات رونما ہونگیں اسی لۓ ان انخابات کو 2024 کے پارلیمانی کا سمی فائنل مانا جارہا ہے اور یہ انتخابات ایک طرف مسلمانوں کے لۓ آزمائش ہے تو دوسری جانب مسلمانوں کی سیاسی سوچ بوجھ کو ثابت کرنے کا بہترین موقعہ ہے …….
اس لئے اس صوبے کے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے دل ؤ دماغ میں پورے ملک کے مسلمانوں کے مستقبل کی فکر رکھتے ہوئے اپنی راۓ حق دہی کا صحیح استعمال کریں ……
ویسے بھی گذشتہ دنوں ہم نے بہار اور ویسٹ بنگال کے اسمبلی انتخابات سے کافی تجربہ حاصل کیا کہ کیسے بہار میں اویسی کی تقاریر سے فرقہ پرستوں کو فرقہ پرستی کا بیج ہونے میں آسانی ہوئی, جس کی وجہ سے RJD کو حکومت سازی سے محروم ہونا پڑا اور انہیں نتائج کے مدنظر
ویسٹ بنگال کے مسلمان اس سے سبق سیکھتے ہوۓ بنگال کے مسلمانوں نے MIM کو قدم جمانے کا موقع نہیں دیا ….
کیا ایک بار پھر یہی عقلمندی و دور اندیشی پہ اترپردیش کے مسلمان عمل پیرا ہونگیں ؟
ویسے تو اویسی صاحب اپنی پارٹی AIMIM کو ملک میں وسیع کرنا چاہتے ہیں اور یہ ضروری بھی ہے. اسی مقصد سے وہ الیکشن کے دنوں جذباتی تقاریر سے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہیں ……
لیکن اترپردیش کے مسلمانوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ محض جذباتی باتوں سے نہ اویسی صاحب کامیاب ہوسکتے ہیں نہ ہی قوم …… برعکس فرقہ پرستوں کو مسلمانوں کے خلاف ایک نئے پروپگینڈا کا موقعہ مل جائے گا, اور اویسی صاحب کی تقاریر کی قیمت غریب مسلمانوں کو چکانی پڑے گی…….
وقت کا تقاضہ ہے کہ اترپردیش کے مسلمان جذباتی باتوں پر دھیان نہ دیں بلکہ ہوش اور دور اندیشی سے اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں اور ووٹ ڈالتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں کے یہ ووٹینگ مشین کی پانچ سکینڈ کی سیٹی آپکے پانچ سال کے مستقبل کی گواہی دے رہی ہے ۔
ووٹ دیتے وقت اپنا اور ملک و ملّت کے مستقبل کا خیال رکھیں ۔
بیشک اویسی صاحب کے تقاریر وقتی طور پر کان کے مزے کے لۓ ٹھیک ہیں ۔ لیکن مسلمانوں کے مستقبل کے لئے یہ مزید خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں ……
ایسے میں اویسی صاحب کو بھی چاہئیے کہ وہ جوش کے ساتھ ساتھ ہوش کا مظاہرہ کریں اور ایسی کوئی بات نہ کہیں جو مسلمانوں کی مشکلوں میں مزید اضافہ کردے …..
یہاں پہ اس بات کو بھی نظرانداز نہیں جاسکتا کہ اویسی مسلمانوں کی مظبوط آواز و قدآور لیڈر ہیں اور ہم بھی ذاتی طور پر اس بات کو تسلیم کرتے ہیںَ اسلۓ کے وہ پارلیمنٹ میں بیباکانہ انداز میں قوم کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ مگر وہیں عوامی اسٹیج پر اویسی صاحب کا رویہ تبدیل ہوجاتا ہے آور کہیں نہ کہیں وہ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں, جیسے نام نہاد سکیولر پارٹیوں کے لیڈران کھیلتے آرہے ہیں …..
دوسری اہم بات اترپردیش کے مسلمان اُن اسمبلی حلقوں میں MIM کو ووٹ دیں جہاں صرف مسلمانوں کے ووٹ سے مسلمان جیتں ۔ دو سے تین مسلم امیدوار ہوجائیں تو جیتنے والے امیدوار کو اجتماعی طور پر ووٹ دیں اور کسی بھی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینے سے پہلے اُسکی ذہنیت کو دیکھنا ضروری ہے ۔ کیونکہ یہاں پہ اکثر ہم نے یہ دیکھا ہے کہ جو بھی سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹوں سے حکومت سازی کرتی ہے وہ آگے چل کر صرف اپنی برادری کا الّو سیدھا کرتے ہیں , اور مسلمانوں کو محض ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے , چاہے وہ SP ہو BSP یا cong یہ ساری پارٹیاں ہمیشہ سے مسلمانوں کا استحصال کرتی آئی ہیں ……
ایسے میں مسلمانوں کے آگے سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم کریں تو کیا کریں ؟
ان حالات میں بہتر یہی ہوگا کہ ہم اُن کا ساتھ دیں جو فرقہ پرستوں کے فرقہ وارانہ ایجنڈوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے
بھلے نام نہاد سکیولر ہی سہی کیونکہ مگرمچھ کا مقابلہ چھوٹی مچھلیوں کے بس کی بات نہیں……
بہرحال اویسی صاحب سے ہم ایک بار پھر یہی کہنا چاہیں گے کہ جذباتی تقاریر سے کچھ حاصل نہیں کیونکہ
بہار کےکسی بھی تعلق میں آپ کی تقریر ہوتی ہے تو اس تقریر سے اُس ضلع کے ساتھ ساتھ پڑوس کی چار پانچ ضلعوں پر ان تقاریر کو بھاجپا اور فرقہ پرست گودی میڈیا ایسے پیش کرتی ہے جس سے ماحول فرقہ وارانہ ہو جاتا ہے جو ووٹ ذات برادری پر پڑنے والے ہوتے ہیں وہ مذہب کی بنیاد پر پڑتے ہیں یہی سب کچھ بہار میں دیکھا گیا آور بنگال کے مسلمانوں نے محسوس کیا ۔ بیشک اویسی صاحب نے چھ سیٹ جیتے ہونگے مگر آنکی تقاریر کا اثر پچاس ساٹھ سیٹوں کے نقصان کے ساتھ دیکھائی دیتا ہے ……..

Comments are closed.