بے محنت پیہم

مولانا سراج اکرم قاسمی
(مدیر مدرسہ الہدایہ کنشاسا، تعلیمی نگراں دی مسلم فاؤ نڈیشن آف کونگو)
ہمارے ذہن و دماغ میں آج کل یہ بات بیٹھ چکی ہےکہ ہمارے اسلاف نے جو علمی ترقیاں کیں اور علم و فن کے جس بام عروج پر پہنچے، اس کے پیچھے ان کے زبردست حافظے کی قوت کار فرما تھی، انھیں سو سو حدیثیں بیک دفعہ سننے سے یاد ہوجایا کرتی تھیں، ہزار حدیثوں کو ایک دن میں حافظےکا حصہ بنا لینا ان کےلیے چٹکیوں کا کھیل تھا، کسی کتاب کا طائرانہ مطالعہ بھی انھیں پندرہ بیس سال تک بقید صفحات محفوظ رہتا تھا، ان کے کانوں میں پڑی ہوئی کوئی بھی بات ان کی ذہن سے نہیں نکلتی تھی، اس لیے وہ علم و فن کی ان بلندیوں تک پہنچے۔ رہا ہمارا معاملہ، تو ہم کم زور ہیں۔ ہمارا حافظہ کم زور ہے ۔ سیکڑوں دفعہ کتاب کی ورق گردانی بھی ہمارے لیے سودمند نہیں ہوتی۔ ہم علم کے ان مدارج کو کہاں طے کر سکتے ہیں جہاں ہمارے اسلاف کرام تھے ۔
یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے کہ ہمارے پیش رو بزرگوں کی کام یابی اور علمی منزلیں طے کرنے کا ایک اہم سبب ان حضرات کا غیر معمولی حافظہ اور یادداشت کی قوت تھی؛ لیکن راقم سطور کی نظر میں اس رفعت و بلندی کی بنیادی وجہ ان حضرات کی محنت و جاں فشانی، جاں کاہی و دل سوزی، شب بیداری و آہ سحر گاہی اور علم و فن کی سچی محبت و تڑپ تھی ۔ وہ علم کے ان بلند مناروں پراپنی ذہانت و ذکاوت اور سرعت حفظ کی وجہ سے نہیں؛ بلکہ جہد مسلسل، سعی پیہم اور حرکت و روانی کی بدولت پہنچے ۔ وہ علم کے گوہر آب دار کی تحصیل میں راتوں رات جاگے، میلوں میل کا سفر پیدل طے کیا، کام و دہن کی لذت سے نہ صرف دور؛ بلکہ بھوک پیاس کی شدید مشقتیں جھیلیں، تجرد کی زندگی اختیار کی اور رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد بھی اس کی مسرتوں اور پر لطف لمحوں سے کنارہ کش ہوکر محنت و مطالعہ کی خاموش فضا میں مسرور و مگن رہے،آرام و راحت کو یک سرتج دیا اور زندگی کی آخری ساعت تک علم کے شیدائی، اس کے جویا و متلاشی رہے۔ اس راہ میں انھوں نے ایسی ایسی قربانیاں پیش کیں، جنھیں سن کر آج بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ انھوں نے پرتعیش زندگی پر پر مشقت راہوں کو ترجیح دی تب کہیں جاکر تاریخ عالم نے انھیں اپنے زریں صفحات میں جگہ دی۔
مؤرخ یوں جگہ دیتا نہیں تاریخ عالم میں
بڑی قربانیوں کے بعد پیدا نام ہوتا ہے
مولانا حبیب الرحمن خان شروانیؒ نے سچ فرمایا ہے :
بے درد ہیں وہ لوگ جوان بزرگوں کی جاں کاہیوں کو نظر انداز کر کےان کے علمی کمالات کو محض اس زمانے کے آثار کا ثمرہ بتا کر اپنے زعم باطل میں اپنے لیے ایک عذر تراشتے ہیں۔اگر ابو نصر اور شیخ الرئیس کی سی جاں فشانی آج کے مسلمانوں میں پیدا ہوجائے تو ضرور ان کے برابر ہوسکتے ہیں”۔(علمائے سلف: ٣٧)
محنت و مشقت کامیابی کی شاہ کلید (Master Kay) کہلاتی ہے ۔ ایک انسان اپنی تن دہی و جاں فشانی کے ذریعے کام یابی کے ہر بند قفل کو کھول سکتا ہے۔ اس کے بالمقابل سستی و کاہلی اور تن آسانی ہے، یہ آدمی کو گرچہ وہ عظیم بھی ہو، پست سے پست تر کرتی چلی جاتی ہے، اسی لیے معلم انسانیت جناب رسولﷺ سستی و کاہلی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔
(صحیح مسلم: ٢/ ٣٤٧ ، باب الدعوات و التعوذ)
ذیل کی سطروں میں اسلاف کی محنت و جاں فشانی، عزم و ارادے، ان کی خاراشگافی و کوہ کنی اور شمع علم پر پروانہ وار نثار ہونے کے چند واقعات درج کیے جاتے ہیں؛ تاکہ ہم میں بھی علم کی ایک نہ بجھنے والی پیاس اور اس کی خاطر قربانیوں کا جذبۂ تاباں بیدار ہو سکے؛ کیوں کہ:
یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
۱۔میزبان رسول حضرت ابو ایوب انصاریؓ( م٥٢ھ) کو معلوم ہوا کہ حضرت عقبہ بن عامر(م٥٨ھ)کے پاس ایک حدیث ہے جو مجھے معلوم نہیں،چنانچہ سفر کی تیاری شروع کر دی، مصر جاکر حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ حدیث سنی اور ایک لمحہ ٹھہرے بغیر مدینۃ النبی واپس ہوگئے۔(مسند احمد،حدیث نمبر: ١٧٤٥٤)
۲۔مشہور صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہ (م٧٤ھ) کا بھی کچھ ایسا ہی واقعہ ہے کہ انھوں نے صرف ایک حدیث کی خاطر مہینے بھر کا سفر کیا، شام جاکر عبداللہ بن انیس (م٥٤ھ)سے حدیث کی سماعت کی اور مدینہ روانہ ہوگئے۔(أسد الغابة: ٣/ ٧٥)
۳۔امام ابو حنیفہؒ (م١٥٠)کے بارے میں تو اتر سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے چالیس سال تک عشا کے وضو سے فجر کی دوگانہ ادا کی ہے۔ (مجموعة رسائل اللڪنوي:٢/ ١٧٧)
ظاہر ہے کہ یہ شب بیداری علم و عبادت کے سوا کسی اور مقصد کے لیے نہ تھی۔
۴۔گم نام یعقوب (م١٨٢ھ) جسے تاریخ اسلام نے پہلی مرتبہ” قاضی القضاۃ” کا معزز لقب دیا، اور علمی دنیا میں قاضی ابو یوسف کے نام سے جانے پہچانے اور پکارے گئے، بڑے کند ذہن تھے؛ لیکن محنت پیہم پابندی درس کی وجہ سے درس گاہ امام ابو حنیفہ کے سب سے با وقار، نمایاں اور فائق طالب علم شمار کیے گئے ۔(تعلیم المتعلم:٥٨)
۵۔فقہ حنفی کے مدون امام محمدؒ(م١٨٩) جن کی رحلت نے ہارون جیسے بادشاہ کو بھی خون کے اشک رلایا تھا، ذہانت و ذکاوت کے پیکر تھے،صرف ایک ہفتے میں قرآن مجید حفظ کر لیا تھا(فضائل حفاظ القرآن:١٠٥٧)لیکن اس کے باوجود محنت کا یہ عالم تھا رات و رات نہیں سویا کرتے تھے۔کسی نے اس زحمت کشی کی وجہ دریافت کی، تو فرمایا: *كيف أنام وقد نامت عيون المسلمين تو كلاً علينا”.*(آداب المتعلمین: ٥١)
’’کیسے سوجاؤں حالاں کہ مسلمانوں کی نگاہیں اس امید پر سو چکی ہیں کہ اگر کل کوئی مسئلہ پیش آئے گا تو امام محمد سے پوچھ لیں گے، اگر میں بھی سوجاؤں تو اس میں دین کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے”۔
۶۔حدیث کے مدون اول علامہ ابن شہاب زہریؒ(م١٢٣ھ) کو بھی اللہ تعالیٰ نے بلا کا حافظہ عطا فرمایاتھا ۔ محض اسّی دنوں میں حفظ کلام اللہ کی دولت سے سرفراز ہوگئے تھے ۔ آپ اپنے حافظے کے بارے میں فرمایا کرتے تھے : "میں”بقیع” سے گزرتے وقت اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیتا ہوں کہ کوئی فحش بات کانوں میں داخل نہ ہوجائے، واللہ میرے کانوں میں کوئی ایسی بات اب تک داخل نہیں ہوئی جسے میں بھول گیا ہوں”۔ اس ذہانت و ذکاوت کے باوجود کتابوں کی ورق گردانی اور مطالعہ کا ایسا چسکہ لگا تھا کہ گھر بار تک کی خبر نہ رہتی تھی، اپنی ساری علمی مسموعات سونے سے پہلے دہرا لیا کرتے تھے۔ ان کی بیوی کہتی ہیں: *”واللّٰه لهذہ الكتب أشد علي من ثلاث ضرائر”.*
خدا کی قسم! یہ کتابیں میرے لیے تین سو کنوں سے زیادہ گراں ہیں ۔(علمائے سلف :٣٥)
یعنی اگر تین سو کنیں بھی ہوتیں تو شاید مجھے معیت کا اس سے کہیں زیادہ وقت ملجاتا، جتنا یہ مجھے ابھی دیتے ہیں۔
۶۔ممتاز مفسر علامہ ابن جریر طبریؒ(م٣١٠ھ) نے علم کی خاطر تجرد کی زندگی اختیار کی۔(العلماء العزاب :٥٦)اور اپنی زندگی میں تین لاکھ انسٹھ ہزار صفحات لکھے۔(وقت کا صحیح استعمال : ٣٢)آپ سے کسی نے پوچھا: آپ کا علمی خزانہ اتنا مالا مال کیسے ہوا؟ انھوں نے فرمایا: جان عزیز! تیس برس میری کمر نے بوریے کے سوا کسی اور بستر کا لطف نہیں اٹھایا۔(علمائے سلف :٣٧)
۷۔شافعیت کے امام، مدرسہ نظامیہ کے با فیض مدرس، مہذب جیسی مقبول کتاب کے با اخلاص مصنف( جنہیں زبان رسالت مآبﷺ نے”شیخ” کا لقب دیاتھا اور استاد محترم کتابوں میں مشغولی کی وجہ سے”حمامة المسجد” مسجد کا کبوتر کے نام سے پکارا کرتے تھے )شیخ ابو اسحاق شیرازیؒ (م٤٧٦) ذہانت و فطانت میں یکتائے روزگار تھے؛لیکن ان کا معمول کیا تھا، خود ان کی زبانی سنیے :*” کنت أعید کل درس ألف مرۃ”* میں ہر سبق کا ہزار بار اعادہ کیا کرتا تھا۔(العلماء العزاب: ٢٢-٢٣)
۸۔شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ (م٧٢٨) اپنی یادداشت میں ضرب المثل تھے، کسی کتاب کا سرسری مطالعہ بھی انھیں بلفظہ محفوظ رہتا تھا، پر وہ اپنے شوق علم کے بارے میں کہتے ہیں :*”ربما طالعت علي الآية الواحدة نحو مأة تفسير الخ”* بسا اوقات ایک آیت کےلیے سو تفسیروں کا مطالعہ کرتے، پھر بھی گتھیاں نہ سلجھتیں تو شکستہ خاطر ہونے کے بجائے ویران مسجدوں کی خاک پر جبین نیاز خم کرتے ہوئے دعا گو ہوتے : اے آدم و ابراہیم( علیہما السلام) کے معلم! مجھے سمجھ عطا فرما ! ایک مرتبہ شدید بیمار ہوۓ، طبیب نے مطالعے سے منع کر دیا، لیکن باز نہیں آئے اور فرمایا: میری طبیعت علم و مطالعے میں فرحت محسوس کرتی ہے۔(قیمة الزمن عند العلماء: ٧٨، متاع وقت اور کاروان علم:٢٠٠)
۹۔حنبلیت کے رئیس، شیریں دہن خطیب، مقبول ترین واعظ اور عظیم مصنف( جن کے آخری غسل کا پانی گرم کرنے کےلیے وہ برادہ نہ صرف کافی ہوگیا تھا؛ بلکہ بچ بھی گیا تھا جو حدیث لکھنے کے لیے قلم بنانے میں جمع ہوگیا تھا )علامہ ابن الجوزیؒ(م٥٩٧)ایام طالب علمی میں”نہر عیسیٰ” کے پانی میں روٹیاں بھگو کر کھایا کرتے تھے اور اسی عالم میں بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا ۔ (مقدمة غریب الحدیث :٢٤،متاع وقت اور کاروان علم:١٨٩ ، مقدمة صفة الصفوۃ : ١٤)
۱۰۔أصح الکتب بعد کتاب اللہ الباری کے مصنف ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاریؒ ( م٢٥٦ھ)کے حافظے کا ایک عالم میں شہرہ ہے ۔ آپ سے محمد بن حاتم نے جو خود بھی سعی و کاوش میں بے مثال تھے، حافظے کی دوا پوچھی تو امام بخاریؒ نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں۔ پھر فرمایا : *”لا أعلم شیئا أنفع للحفظ من نهمة الرجل و مداومة النظر ” .* حافظے کے لیے سب سے زیادہ سودمند اور نفع بخش چیز آدمی کا شوق و ذوق اور کتب بینی و مطالعہ ہے۔ اسی شوق نے امام بخاری کو بیسیوں سال سالن کھانے کا موقع نہیں دیا،بادامکے صرف چند دانوں پر اکتفا کرتے پر جہد مسلسل اور سعی پیہم کا یہ عالم تھا کہ رات کو بیسیوں دفعہ اٹھتے، چراغ جلاتے، علمی فوائد نوٹ کرتے اور پھر لیٹ جاتے۔(مقدمة فتح الباري:٤٨٧-٤٨٨) یقیناً :
بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا
روشن شرر تیشہ سے ہے خانۂ فرہاد
۱۱۔فن رجال کے متفق امام، حدیث کے بے مثال محدث،جنت البقیع میں آسودۂ خواب یحی بن معینؒ(م٢٣٣ھ)کے اسم گرامی سے فن حدیث کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی واقف ہے ۔ علم کی راہ میں آپ کی جد و جہد کی یہ حالت تھی کہ آپ خود فرماتے ہیں :”میں نے اپنے ہاتھ سے دس لاکھ احادیث لکھیں اور جب تک ایک حدیث پچاس مرتبہ نہیں لکھ لیتا، مجھے اطمینان نہیں ہوتا تھا”۔(سير أعلام النبلاء:٨٨/١١)
آہ !!
گنواں دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
ان محسنین امت نے عام حالات میں جو قربانیاں پیش کیں، وہ تو اپنی مثال آپ ہے ہی ، تادم واپسیں بستر مرگ پر بھی جب کہ انسان اپنی ذات کو بھی فراموش کر جاتا ہے، یہ حضرات علمی افادۂ و استفادہ ہی میں مصروف رہے اور اسی مشغلے میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کیں۔قاضی ابو یوسفؒ رحلت کے وقت”رمی جمار” کے مسائل سمجھا رہے تھے ۔امام محمدؒ”مکاتب”کے مسئلے میں مشغول تھے۔ علامہ ابن جریر طبریؒ ایک دعا لکھنے کے لیےدوات و قلم منگوا رہے تھے اور صاحب الفیہ ابن مالکؒ اشعار یاد کر رہے تھے ۔(قيمة الزمن عند العلماء : ٤٤، ظفر المحصلين:٩٦ )
اسلامی تاریخ کا عظیم سیاح اور ریاضی داں البیرونی (م٤٠٣) بھی جاں کنی کے وقت علی بن عیسیٰ سے ایک فقہی مسئلہ دریافت کر رہا تھا، علی نے تعجب سے پوچھا کہ تکلیف کی اس شدت میں بھی بتاؤں؟البیرونی نے ایک ایسا جواب دیا جو علم کا ایک سچا عاشق ہی دے سکتا ہے ۔فرمایا : *”أودع الدنيا و أنا عالم بهذه المسئلة ألا يكون خيرا من أن أخليها و أنا جاهل بها”.*
بھائی! دنیا سے اس مسئلے کا علم لے کر رخصت ہونا جاہل مرنے سے بہتر ہے ۔(معجم الادباء :١٨٢/١٧)
رحمهم اللّٰه رحمةً واسعةً
أولئك آبائي فجئني بمثلهم
إذا جمعتنا يا جرير المجامع
Comments are closed.