والدین ۔۔۔۔۔۔زندگی کا بیش قیمتی سرمایہ ہیں

مسرت جہاں
جامعہ نگر بٹلہ ہاؤس نئی دہلی
ماں باپ اس جہاں میں سب سے بڑی ہے دولت
سچ پو چھئے تو یہ ہے دونوں خدا کی رحمت
والدین سے محبت کرو کیونکہ ماں باپ دوبارہ نہیں ملتے
والدین کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔والدین کی عظمت کا ثبوت اس سے بڑااور کیا ہو سکتا ہے کہ رب نے والدین کی خدمت کا حکم دیا ہے۔ماں باپ کی نا فرمانی تو کیا ،ناراضگی و ناپسندیدگی کے اظہار اور جھڑکنے سے بھی روکا گیا ہے اور ادب کے ساتھ بزم گفتگو کا حکم دیا گیا ہے۔احادیث مبارکہ میں بھی والدین کی فرما برداری کی خاص اہمیت و تاکید کی گئ ہے۔
زندگی سے اگر رشتے نکل جائیں تو ہم کس قدر نا مکمل اور ادھورےہو جائیں،اسی طرح ان رشتوں سے جڑے لفظ زندگی سے نکل جائیں تو زندگی کتنی بد مزہ ، کھوکھلی اور سنسان سی ہو جائے۔کیونکہ لفظوں کا ذائقہ بھی ہوتآ ہےاور احساس بھی۔کچھ لفظ میٹھے ہوتے ہیں۔کچھ کڑوے اور کچھ پر تاثیر ۔۔۔۔۔۔کچھ الفاظ ایسے بھی ہوتے ہیں جو آپ کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں ۔ایسے پر تاثیر لفظوں میں ایک لفظ ہے "ماں” جسے سنتے ہی ہم محبت کے حصار میں بندھ جاتے ہیں۔اور ایک لفظ ہے” باپ ” اعتبار،اعتماد اور تحفظ کے حصار میں لے لینے والا جاندار لفظ۔
ہمت شفقت چاہت قربانی
یکجا لکھوں تو بابا جانی
اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس دنیا میں ماں باپ ہی ہیں جس کے ہم پر سب سے زیادہ احسانات ہیں۔جس کی مہربانیاں بے شمار ہیں،جس کی شفقت بے مثال ہے ،جسکی توجہ قابل قدر ہے، وہ ہستی والدین کی ہے۔والدین کے ہم پر اتنے احسانات ہیں کہ دل و نگاہ ان کی مہربانیوں اور ان کی محبتوں کے سامنے جھکے جاتے ہیں اور انسان کے لیےنا ممکن ہے کہ وہ ان کی بے مثال محبت اور پر خلوص شفقت کا صلہ دے سکے
مجھ کو لگ سکتی نہیں اس زمانے کی نظر
میں ہوں خوش قسمت میرے سر پر ابھی ماں باپ ہیں
ماں باپ کا رشتہ سب سے قریبی اور بے حد قابل احترام ہوتا ہے
والدین اولاد کی پیدائش ، پرورش اور دیکھ بھال کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔والدین کے بغیر بچے کی صحیح پرورش نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ تمام جانداروں میں انسان کے بچے کی پرورش اور دیکھ بھال سب سے زیادہ مشکل کام ہے۔جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو محض گوشت کا ایک لوتھڑا ہوتا ہے۔پروان چڑھنے کے لیے کئ برس تک والدین کی دیکھ بھال اور پرورش کا محتاج ہوتا ے۔جب بچہ بیمار ہو جائے تو اس کے علاج کے لیے ہر جتن کرتے ہیں۔بچہ جب تک صحت یاب نہ ہو جائے وہ اس کے لیے فکر مند رہتے ہیں ۔خود کھائیں نہ کھائیں لیکن اس کو ضرور کھلاتے ہیں۔خود جیسا بھی پہن لیں لیکن اولاد کو اچھا پہناتے ہیں ۔اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں کسر نہیں اٹھا رکھتے تاکہ بڑا ہو کر وہ عزت اور سکون کی زندگی بسر کرے ۔ماں باپ اسی کوشش میں ایک دن بوڑھے اور اتنے کمزور ہو جاتے ہیں کہ کسی قابل نہیں رہتے۔اس لیے والدین
کا مقام بڑا ہے اور ان کا درجہ خدا کے بعد دوسرا ہے۔
’’ماں کے بنا پورا گھر بکھر جاتا ہے،پر باپ کے بنا پوری دنیا ہی بکھر جاتی ہے۔‘‘
انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو بہت سے رشتے اس کے آس پاس ہوتے ہیں۔وہ سب رشتے وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو جاتے ہیں۔مگر ایک رشتہ جو مرتے دم تک انسان کے ساتھ رہتا ہے،وہ رشتہ ماں اور باپ کا ہی ہوتا ہے۔”ماں” تو وہ عظیم ہستی ہے جسکے جزبوں اور محبت میں کوئ ملاوٹ نہیں ہوتی ۔ماں کے بغیر یہ دنیا ادھوری ہے۔بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو جس رشتے سے وہ سب سے پہلے ملتا ہے وہ رشتہ "ماں "کا ہوتا ہے۔ﷲ نے یونہی تو ماں کے قدموں تلے جنت نہیں رکھی۔
’’جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔’’باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے۔‘‘
ماں ہماری پہلی استاد ہے ۔وہ ہمیں اچھی تعلیم دیتی ہے اور معاشرے میں ایک اچھا انسان بنا دیتی ہے۔وہ ناکامی اور کامیابی دونوں میں ہمارے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔جب ہم مایوس ہوتے ہیں تو وہ امید کی روشنی کی طرح ہمارے ساتھ چلتی ہےاور ہماری رہنمائ کرتی ہے۔پیدائش کے وقت ناقابل تکلیفون کو برداشت کرتی ہے۔پھر ہماری خدمت میں مشغول رہتی ہے۔ ماں صبح سویرے اٹھتی ہےہمیں وقت پر کھانا دیتی ہے۔ہمارے تمام کام کرتی ہے۔مگر کبھی یہ نہیں کہتی کہ میں تھک گئ ہوں ۔ مزید کام نہیں کر سکتی۔یہاں تک کہ ہماری غلطیوں کو بھی نظر انداز کرتی ہے۔
لبوں پر اس کے کبھی بد دعا نہیں ہوتی
اک ماں جو کبھی خفا نہیں ہوتی
شیخ سعدیؒ نے فرمایا ’’محبت کی ترجمانی کرنے والی اگر کوئ چیز ہے تو وہ صرف ماں ہے‘‘
اگر ماں زندگی بھر ہمارے لیے بہت کچھ کرتی ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی ماں کے لیے کچھ کریں۔ان کا ہر وقت خیال رکھیں۔اسے وہ تمام خوشی دینے کی کوشش کرنی چاہئے جوآج تک وہ ہمیں دے رہی تھی
صدقہ بھی دے دیا نظر بھی اتار دی
دولت سکون ،چین کی سب مجھ پہ وار دی
کل شام میں نے کیا کہا طبیعت خراب ہے
ماں نے تمام رات دعا میں گزار دی
ماں درد مندی کا سکون اور نا امیدی کے اندھیروں میں روشن چراغ ہے۔ماں کی ممتا جہاں میں احساسات کا لطیف ترین جزبہ ہے۔ماں کسی بھی رنگ و نسل سے ہو اس کی چھاو۶ں اولاد کے لیے گھنا سایہ اور سرمایہ ہے۔ماں اس کائنات کے سب سے اچھے سچے اور خوبصورت ترین رشتے کا نام ہے۔ اللہ تعالی نے اس کائنات میں سب سے خوبصورت چیز تخلیق کی وہ ماں باپ ہیں۔جن کا نعم ا لبدل نہیں ہو سکتا۔با لخصوص ماں جیسی ہستی کو سب سے زیادہ فوقیت حاصل ہے۔
تاریخ ایسے بہت سارے واقعات کی تفصیل کے ساتھ پر ہے جس میں ماو۶ں نے اپنے بچوں کے لیے طرح طرح کے غم برداشت کرتے ہوئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔یہی وجہ ہے کہ ماں کا یہ رشتہ ابھی بھی پوری دنیا میں ایک قابل احترام اور اہم رشتہ سمجھا جاتا ہے۔
پھولوں میں جس طرح خوشبو اچھی لگتی ہے
مجھے اس طرح میری ماں
اچھی لگتی ہے
خدا سلامت اور خوش رکھے سب کی ماں کو
ساری دعاؤں میں یہ دعا
اچھی لگتی ہے
باپ کی رہنمائ ،شفقت اور محبت کے بغیر ہماری ذات تو ذرہ کے نشان کی مانند ہوتی ہے۔بابا جانی، ابا جان ،والد صاحب، ابو جان ،پدر جان ، کیسے خوبصورت لفظ ہیں کہ خود بخود ہماری آنکھوں کے سامنے ایک تصویر سی بن جاتی ہے
عزیز تر وہ رکھتا ہے مجھے رگ جاں سے
یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہیں ماں سے
پرانا سوٹ پہنتا ہے کم وہ کھاتا ہے
مگر کھلونے میرے سب خرید لاتا ہے
باپ کا رشتہ عظیم نعمت خدا وندی ہے۔زندگی کے تپتے صحرا اور نفسا نفسی کے دور میں ماں کے بعد باپ ہی وہ ہستی ہے جو اولاد کی معمولی سی تکلیف پر پریشان اور بے چین ہو جاتی ہے۔بظاہر دعب اور دبدبے والی اس ہستی کے پیچھے ایک شفیق اور مہربان چہرہ ہوتا ہے۔جسے ماں کی طرح اپنے جزبات کا اظہار کرنا نہیں آتا۔جو زمانے کےسرد و گرم برداشت کرتے ہوئے مسلسل ایک مشین کی طرح کام کئے جاتا ہے تاکہ اس کے جگر گوشوں کو کوئ تکلیف نہ پہنچے ۔انھیں کسی چیز کی کمی یا حسرت نہ رہے۔
مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود بھی وہ جلتا رہا
میں نے دیکھا اک فرشتہ باپ کی پرچھائیں میں
وہ عظیم باپ جو اولاد کے سکھ ،دکھ ،خوش حالی ،تعلیم ،صحت اور روشن مستقبل کی خاطر ہزار صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود بچوں کو دیکھتے ہی اپنی تھکن بھول کر ان کی ناز برداریاں کرنا والد ہی کا خاصہ ہے۔دنیا کا ہر باپ اپنی اولاد کے لئے ایسے ہی خود اپنی ذات سے غافل ہو کر اپنی ہر ضرورت بھول کر اولاد کی ہر خواہش اور فرمائش پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔تاکہ انہیں کوئ تکلیف نہ ہو۔با پ کی اسی خدمت کے عوض اللہ نے اولاد کو باپ کی خدمت و اطاعت کا حکم دیا اور یہاں تک فرما دیا کہ ’’رب کی رضا ،باپ کی رضا میں اور رب کی ناراضگی ،باپ کی ناراضگی میں ہے۔‘‘
باپ کی موجودگی تو سورج کی مانند ہوتی ہے سورج گرم تو ضرور ہوتا ہے مگر سورج نہ ہو تو اندھیرا چھا جاتا ہے۔
’’ماں کی آنکھوں سے ہمیشہ محبت ٹپکتی ہے۔جبکہ باپ آنکھوں سےاظہار کئے بغیر محبت کرتا ہے۔‘‘
’’ماں باپ ایک درخت کی طرح ہوتے ہیں جن کی چھاو۶ں میں بیٹھ کر سکون نصیب ہوتا ہے‘‘۔
بڑھاپے میں ماں باپ کا مزاج بڑا نازک ہو جاتا ہے۔مرضی کے خلاف کوئ بات ہو جائے تو انہیں بڑا دکھ ہوتا ہے۔یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ماں باپ کو اولاد کے سہارے کی اسی طرح ضرورت ہوتی ہے جیسے انہوں نے بچپن میں اولاد کی خدمت کی تھی ۔ ماں باپ کی خدمت کو بڑی اہمیت دی گئ ہے قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد ہوا ہے ۔۔۔۔’’والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘
آج کے نوجوان والدین کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ ان کے کاموں میں مداخلت کریں یا اس پر اپنے فیصلے صادر کریں کیونکہ آج وہ اپنی نظر میں اس قابل ہو چکے ہیں کہ والدین جس کی انگلی تھام کر اس نے پہلا قدم پورے اعتماد سے زمین پر رکھنا سیکھا تھا اب ان سے بہتر فیصلے کر سکتے ہیں۔ ہر والدین اولاد سے محبت اور انسیت دکھتے ہیں مگر کس قدر تکلیف دہ بات ہے کہ نازوں پلی اولاد جواں ہو کر والدین کو اس جیسی محبت دینے سے عاجز رہتی ہے۔۔اور انھیں بے رخی ،طعنے اور پھر اولڈ ہاؤس(old house) کا تحفہ ملتاہے ۔اسی لئے کسی دانا نے کہا تھا کہ۔۔۔والدین دس بچے پال سکتے ہیں مگر دس بچے ملکر بھی ماں باپ کو نہیں پال سکتے” واقعی یہ نوجوان پیڑھی کے لیے بہت شرم اور افسوس کی بات ہے۔۔۔۔
وہ وقت اور تھے کہ بزرگوں کی قدر تھی
اب ایک بوڑھا باپ بھرے گھر پہ بار ہے
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم اپنے والدین کی محبتوں کاعشر عشیر بھی نہیں لوٹا سکتے بلکہ بڑھاپے میں انھیں بوجھ تصور کرتے ہیں۔
’’ماں باپ کی دوائی کی پرچی اکثر کھو جاتی ہے،پر لوگ وصیت کے کاغذات سنبھال کر رکھتے ہیں۔‘‘
والدین اولاد پر ظلم و زیادتی بھی کرے تو اولاد کو ان کے ظلم و زیادتی کا جواب دینے کی اجازت نہیں ہے۔جھڑکنا تو دور کی بات ان کے سامنے اف تک کرنے کی اجازت نہیں۔
والدین کے ہر حکم کی تکمیل کریں اور ان سے ہمیشہ محبت اور نرمی کا سلوک کریں ان کی رائے کو ترجیح دیں اور اسکی بجا آوری کریں۔اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت ان کے لئے مخصوص کر دیں
اپنے والد سے ہمکلام رہیں
یوں وہ بوڑھا جوان رہتا ہے
والدین کی بھرپور خدمت کریں اور ان کی وفات کے بعد ان کے ایصال ثواب کے لئے ’’وقتا فوقتا‘‘دعائے مغفرت ورحمت کا اہتمام کرتے رہیں۔والدین کی دعائیں اولاد کے حق میں ضرور قبول ہوتی ہیں۔
باپ زینہ ہے جو لے جاتا ہے اونچائی تک
ماں دعا ہے جو صدا سایہ فگن رہتی ہے
پس جو شخص اپنے والدین کو خوش اور راضی رکھتا ہے اللہ پاک بھی اس سے خوش اور راضی ہوتا ہے اور جو ناراض رکھتا ہے اللہ پاک بھی اس سے ناراض ہوتا ہے۔
’’لوگ کہتے ہیں کہ پہلی محبت کو نہیں بھلایا جاتا ،تو پھر لوگ اپنے ماں باپ کی محبت کو کیوں بھلا دیتے ہیں‘‘۔
بھول کر ماں باپ کو کیوں پھر رہے ہو دربدر
زندگانی کا خزانہ واقعی ماں باپ ہیں
Comments are closed.