ہے بزدلی کی علامت یہ خامشی لیکن ………!

نثاراحمد حصیر القاسمی
شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ۔ حیدرآباد۔
[email protected]
0091-9393128156
انسان آزاد پیدا ہوا اور اپنی آزادی لے کر اس دنیا میںآیا ہے، مگر یہ آزادی اسی وقت حقیقت کا روپ اختیار کرسکتی ہے جبکہ انسان کے اندر جرأت وہمت ،حوصلہ وبہادری اور آگے بڑھنے کا امنگ وجذبہ ہو جبکہ بزدلی وپست ہمتی غلامی وذلت ہے، اسی لئے شجاعت وبہادری ہمیشہ سے ایمان والوںکا وصف خاص رہا ہے اور مسلم قائدین ہمیشہ اس وصف سے متصف رہے ہیں۔
شجاعت وبہادری کی بنیاد ایسے اصولوںپر ہوتی ہے جسے انسان اپنا کر اسے روبعمل لانے اور نافذ کرنے کے اقدام پر مجبور ہوتا اور اس سے سودے بازی کے لئے کسی قیمت پر آمادہ وتیار نہیںہوتاہے، بہادروںکا اعتماد وبھروسہ اللہ پر ہوتاہے اور وہ اس کے بتائے ہوئے اصولوں پر کاربند رہنے اور لوگوں میں اسے نافذ کرنے کی کوشش کرتاہے جبکہ بزدلوںکا اعتماد اللہ پر کمزور ہوتا اور وہ دنیوی مفادات کو خدائی احکام پر ترجیح دینا پسند کرتاہے، یہ بات یقینی ہے کہ جن کامکمل اعتماد اللہ پر ہوگا وہ کبھی بزدل نہیںہوگا، بلکہ وہ بہادر وجیالا ہوگا، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا رزق کوئی چھین نہیںسکتا، اور موت کا جو وقت مقررہے وہ نہ ایک سکنڈ آگے ہوسکتا، اور نہ پیچھے ہوسکتا ہے ،اللہ کے نبی صلعم نے ارشاد فرمایا کہ :
لایمنعن احدکم مخافۃ الناس أن یقول بحق اذا راہ او سمعہ فانہ لا یقرب من اجل ولا یمنع من رزق(ترمذی)
لوگوں کاخوف تم میں سے کسی کو جبکہ وہ حق کو دیکھے اور سنے اس حق بات کوکہنے اور کرنے سے باز نہ رکھے کیونکہ وہ نہ تو موت سے قریب کرسکتا اور نہ ہی رزق کو روک سکتاہے۔
جو لوگ حق پر رہتے ہوئے بھی بزدلی کاشکار ہوتے، اور خوف ودہشت میں مبتلا ہو کر اہل کفرسے مرعوبیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور حق سے روگردانی کرکے باطل کی تابعداری اختیار کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی شدت سے مذمت کی ہے، اور اسے منافقوں کی خاص صفت قرار دیاہے، جو ایمان سے خالی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے۔
پھر جب خوف اوردہشت کاموقع آجائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف اپنی نگاہیں جمادیتے ہیں اور ان کی آنکھیںاس طرح گھومتی ہیںجیسے اس شخص کی گھومتی جس پر موت کی غشی طاری ہو،پھر جب خوف جاتا رہتاہے تو تم پر اپنی تیز زبانوں سے بڑی باتیںبناتے ہیں، مال کے بڑے ہی حریص ہیں،یہ ایمان لاتے ہی نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام اعمال نابود کردیئے ہیں، اور اللہ تعالیٰ پر یہ بہت ہی آسان ہے۔ سمجھتے ہیں کہ لشکر اب تک چلے نہیں گئے اور اگر فوجین آجائیںتو تمنائیں کرتے ہیںکہ کاش وہ صحرا میںبادیہ نشینوںکے ساتھ ہوتے کہ تمہاری خبریں دریافت کرتے۔ اگر وہ تم میں موجود ہوتے تو بھی کیا وہ برائے نام ہی لڑتے۔(الاحزاب: 19-20)
بے شک یہ منافقین اور ایمان سے تہی دست لوگ اپنی جان ومال کے حریص ودلدادہ ہوتے ہیں، اور اپنی جان بچانے اور مال کو دوام بخشنے کے لئے کچھ بھی کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں، جب خوف کا وقت آتا ‘انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا، انہیں قتل کرنے کی دھمکی دی جاتی اور انہیں دہشت زدہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو بزدلی وپست ہمتی کی وجہ سے ان کی نگاہیں اس طرح گھومنے لگتی اور سر اس طرح چکر انے لگتاہے جس طرح موت کی غشی کے وقت کی کیفیت ہوتی ہے۔ بزدلی کی وجہ سے ان کا کلیجہ منہ کو آجاتاہے، دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں، اور جان ومال کو بچانے کی فکر انہیںپریشان کردیتی ہے، جبر واکراہ کے سامنے سپر ڈال کر ذلت ورسوائی کو وہ گلے لگا لینا پسند کرتے ہیں، پھر بھی وہ مارے جاتے ہیں مگر جو ایمان والے ہوتے ہیں جن کا بھروسہ اللہ پر ہوتاہے ‘وہ ان حالات سے گھبراتے نہیں اور جبر واکراہ خواہ کتنا ہی شدید کیوں نہ وہ ہمت نہیں ہارتے اور بزدلی کی موت کی بجائے بہادروں کی موت مرنا پسند کرتے اور جبر واکراہ کے سامنے سپر ڈالنے کے بجائے اپنے دین وایمان پر قائم رہتے ہوئے جوانمردی وبہادری کا ثبوت دیتے اور حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔
بزدلی ایسی بیماری ہے جس کے ساتھ نہ تہذیب پروان چڑھ سکتی ،نہ حقوق ادا کئے جاسکتے، نہ ذمہ داریاں نبھائی جاسکتیں اور نہ قوم وملت زندہ باقی رہ سکتی ہے۔بلکہ اس کے نتیجہ میںایسا معاشرہ وجود میںآتا ہے جہاں طاقتور کمزوروں کو دبانے کا خوگر ہوجاتا، جنگل راج کا دور دورہ ہوتا، قانون کی بالا دستی ختم ہوجاتی، عدل وانصاف اپنی موت مرجاتی اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام جاری ہوجاتا اور انسانی سماج کی زندگی جنگلوں والی زندگی میںتبدیل ہوجاتی ہے۔
اللہ کے نبی صلعم نے بطور خاص اس مذموم صفت یعنی بزدلی سے اپنی دعائوں میں پناہ مانگ کر امت کو تعلیم دی ہے کہ وہ اپنے اندر کبھی بھی اسے در آنے کی اجازت نہ دیں،اللہ کے نبی صلعم کہا کرتے تھے۔’’ واعوذبک من الجبن والفجل ‘‘اے اللہ میںتیری پناہ کا طالب ہوں، بزدلی اور کنجوسی سے ۔ (بخاری)
حافظ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ بزدلی اور بخل کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے کیونکہ یہ نام ہے اپنے جسم وجان اور مال ودولت سے فائدہ نہ پہنچانے کا، اوریہی ہر درد والم ،حزن وملال ، تکلیف وپریشانی کے بنیادی وجوہات میں سے ہے۔ بزدل اپنی پسندیدہ ومحبوب چیز،خوشی ومسرت دینے والی اشیاء اور لذتوں بھری چیزوںسے اسلئے محروم رہ جاتا ہے کہ یہ تو صرف جدوجہد ، دلیری وبہادری اور شجاعت واقدامات سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور یہی حال بخل کا ہے، اس لئے یہ دونوں باتیں زندگی کے درد والم کے بنیادی اسباب میں سے ہیں۔ اس دعا کے بارے میں حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ میں اکثر رسول اللہ صلعم کو اپنی دعائوںمیںیہ کہتے ہوئے سنا کرتا تھا۔ (بخاری)
بزدلی انسان کو نہ صرف یہ کہ اپنے حقوق کی بازیابی سے روکتی ہے بلکہ ضعیفوں کمزوروں اور مظلوموں کا دفاع کرنے سے بھی روکتی ہے حتی کہ حقوق کا محض مطالبہ کرنے سے بھی باز رکھتی ہے اور وہ اپنے جائز حق کا مطالبہ کرنے سے بھی ہچکچاتا اور خوف ودہشت سے ہمیشہ حواس باختہ رہتا، اور مرعوبیت کے سائے میں زندگی بسر کرتا ہے۔
بزدلی کچھ بھی انوکھا نہیںکرنے دیتی
خوف ناکامی کرشمہ نہیںہونے دیتی
اللہ کے نبی صلعم نے اہل ایمان کو بزدلی سے دور رہنے اور شجاعت وبہادری کو اپنا شیوہ بنانے کے مقصد سے ہی فرمایا کہ ’’لاتجدونی بخیلا ولا کذوبا ولا جبانا‘‘ تم ہمیںنہ بخیل پائوگے نہ جھوٹا اورنہ بزدل (بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلعم نے ارشاد فرمایا:
شرما فی رجل شح ھالع وجبن خالع
کسی انسان کے اندر سب سے بدترین بات زبردست قسم کی لالچ اورشرمناک بزدلی ہے۔ (مسند احمد، سنن ابی دائود)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے ارشاد فرمایا کہ انسان کی برائی کے لئے کافی ہے کہ وہ بدگو، بدکردار، بخیل اور بزدل ہو۔(مسند احمد)
البتہ یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ حکمت ودانائی نام ہے، ہر چیز کو اپنے مناسب مقام پر رکھنے کا، اس لئے شجاعت وبہادری یہ نہیں کہ انسان اپنے آپ کو ہلاکت میںڈالے، یا قوانین کو توڑے اور اسے اپنے ہاتھ میں لے۔بہادری یہ بھی نہیں ہے کہ انسان ایسے اقدامات کرے جس سے بلا وجہ خود اسے یاپورے مسلم سماج کو نقصان پہنچے، بلکہ بہادری حق کے لئے لڑنا، اور قانونی راستے سے اس کی بازیابی کی جدوجہد کرناہے۔ اسلامی اصولوں اور تعلیمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے دین ومذہب اورایمان وعقیدے کادفاع کرنا، عزت وآبرو اورجان ومال کی حفاظت کی تدبیریں اختیار کرنا اور ایمان پر ثابت قدم رہتے ہوئے باطل کا مقابلہ کرتے رہناہے ، خواہ حالات کچھ بھی ہوں۔
اٹھ کے ظالم کو دے جواب دنیش
ظلم سہنا تو بزدلی ہوگی۔
اس ملک کے حالات بڑے ناگفتہ بہ ہیں، مسلمان اس ملک میںبڑے پرآشوب اور آزمائش کے دور سے گذر رہاہے ، ہرروز کہیں نہ کہیں موب لنچنگ کے نام پر، یا کسی اور نام سے مسلمانوںاور دلتوں کوقتل کیا جارہا ہے، ان کے قتل عام کی کھلی دھمکیاں دی جارہی ہیں، پتھروں سے تراشے اورہاتھوں سے بنائے ہوئے مٹی کے پتلوں اوربتوں کے پرستاروں کے مذہبی پیشوا اور دھرم سنسد کے ہتھیارے اور دنگائی اور ملک کے امن وامان کودرہم برہم کرنے والی طاقتوں اوراس ملک کو غلام بنانے والے انگریزوں کی تنخواہوں پر پلنے والوں کی بنائی ہوئی تنظیموں کے دہشت گردوں کی جانب سے نہتے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، ان کا معاشی بائیکاٹ کیا جارہا ہے، ان پر طرح طرح کی پابندیاںلگائی جارہی ہیں۔ ان کی مذہبی آزادی سلب کی جارہی ہے یہاں تک کہ ان کی اذان اور نماز کیخلاف بھی آوازیں بلند کی جارہی ہیں۔ ان کے اداروں، اور مدرسوں کو بندکرنے کی سازشیں رچی جارہی ہیں، اورمسلمانوںکو مسلمان رہتے ہوئے جینے کے حق سے محروم کرنے کی تدبیریں کی جارہی ہیں۔ اور مسلمان خود کو لاچار ومجبور وبے بس محسوس کررہا ہے، بے ملا ح کی کشتی کا سوار اپنے آپ کو باور کررہا ہے کہ جس کا نہ کوئی قائد ہے نہ رہنما، آج مسلمان قائد ورہنما ہوں یا عوام الناس بزدلی کا شکار ہیں، انہیں ہر روز ماراجارہا ، ان کے املاک لوٹے جارہے ہیں، ان کے گھر مسمار کئے جارہے اور انہیں تباہ وبربادکرنے کی سعی کی جارہی ہے۔ مگر اس پر سب مہر بلب ہیں، کہیں سے کوئی نہ موثر آواز اٹھ رہی ہے نہ کوئی عملی اقدامات ہورہا ہے۔
ہے بزدلی کی علامت یہ خاموشی لیکن
میںاپنے عہد کی اس بزدلی میں شامل ہوں
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنی اس بزدلی سے باہر آئیں، جرأت وہمت کا مظاہرہ کریں، قانونی لڑائی کے ساتھ جب مرنے کی بات آئے تو بزدلوں کی طرح مرنے کی بجائے بہادروں کی موت مریں، اوریاد رکھیں کہ کفرتاریکی ہے ان کے سامنے اگر آپ نے بہادری کا مظاہرہ کیا،ایمانی غیرت وجرأت سے کام لیا تو وہ آپ کے سامنے ٹک نہیں سکتے، ان کی ہمت اس وقت بڑھتی ہے جبکہ وہ سینکڑوں میں ہوںاور اس وقت بھی اگر آپ نے جرأت سے کام لیا تو وہ مقابلہ نہیں کرسکتے،بزدلی اہل کفر کی خاصیت ہے، یا ایسے لوگوں کا جن کا دل ایمان سے خالی ہو،اگر آپ ایمان والے ہیں تو بزدل نہیں ہوسکتے، اور اگر بزدل ہیں تو پکے مومن نہیںہوسکتے، اہل کفر کی ہمت نہیں کہ وہ ایک بھی کامل مومن کا سامنا کرسکے، اگر آپ ان کے نرغے میںبھی ہوں،اور دل کی گہرائی سے نصرت خداوندی کا طالب بن کر تکبیرکی صدا بلند کریں تو ان پر رعب طاری ہوسکتا ہے، اور انکی اصلی مرعونیت وبزدلی سامنے آسکتی ہے کیونکہ وہ ایسے ہی ہیںجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
یہ سب مل کر بھی تم سے لڑ نہیںسکتے، ہاں یہ اور بات ہے کہ قلعہ بند (یا پولیس فوج کے تحفظ کے) مقامات میں ہوں یا دیواروں کی آڑ میں ہوں۔ (اقتدار اور سیکوریٹی ادارے ان کی پشت پناہی کرنے والی ہوں) ان کی لڑائی تو ان میں آپس میںہی بہت سخت ہے، (ذات پات کی لڑائی اور طبقاتی اونچ نیچ ) گو آپ انہیں متحد سمجھ رہے ہیں لیکن ان کے دل دراصل ایک دوسرے سے جدا ہیں، اس لئے کہ یہ بے عقل لوگ ہیں،(تب ہی تو سانپ بچھو ،مٹی،پتھر ،کیڑے مکوڑوں اور جانوروں کو پوجتے ہیں)۔ (الحشر:14)
ہندوستان کے موجودہ حالات میں مسلمانوںکو چاہیے کہ وہ اپنے دلوں سے خوف ودہشت کونکالیں،بزدلی سے چھٹکارا پائیں، اپنے دلوں میں ایمان کا دیا روشن کریں۔ اللہ پر اعتماد وبھروسہ کریں، اور باطل کے مقابلہ کے لئے ہر طرح کی مادی ومعنوی تیاری کریں، اپنے نوجوانوںکو علم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایمان کی دولت سے بہرہ ورکریں اور شجاعت وبہادری کادرس اسی طرح دیں جس طرح صحابہ کرام اپنے بچوںکو دیاکرتے تھے۔ انہیںرسول اللہ صلعم اورصحابہ کرام کی بہادری کے واقعات سنائیں، اور بتائیںکہ اوہام پرست بزدل قوموں کا مقابلہ ہمارے اسلاف نے کس طرح کیا، اور کس طرح دشمن طاقتوں کے درمیان بھی رسول اللہ صلعم نے 13 سال تک دعوت کاکام انجام م دیا اور اس کا نتیجہ کیا نکلا، امام مالکؒ سے موقوفا مروی ہے کہ اس امت کا آخربھی اسی سے سدھرے گا جس سے اس کے پہلے والے سدھر ے تھے، یعنی کتاب وسنت کو اپنا کر اور رسول اللہ صلعم اور ان کے اصحاب کی سیرت کو اپنا کر ۔
اپنی حالت سنور نہیں سکتی
بزدلی کا شکار ہیں ہم لوگ

 

Comments are closed.