کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو ( اقبال)

بی جےپی کا موجودہ انتشار؛ اس زاویےسے بھی غور کیجئے!
ازقلم: معاذ مدثر قاسمی
یوپی کا الیکشن بالکل قریب آچکاہے، الیکشن کمیشن کی طرف سے الیکشن اور نتائج کی تاریخ کا اعلان بھی آچکا ہے۔ اعلان کے آنے سے قبل ہی تمام سیاسی پارٹیاں اپنی بساط کے مطابق لوگوں کو اپنے حق میں مائل کرنے کی کوشش شروع کردی تھی۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی زیرقیادت موجودہ حکومت اپنی تمام ترناکامیوں کے باوجود لوگوں کواپنا ہم نوا بنانے کےلیے جتنے بھی سیاسی حربے استعمال کرنے تھے سب کچھ کرچکی، چاہے وہ ہندو مسلم کا مذہبی کارڈ ہو ، یا جھوٹ پر مبنی اشتہارات کے ذریعہ ترقی کے بلند وبانگ دعوے یا گودی میڈیا کے ذریعے حکومت کی مدح سرائی میں مشغول کرنا ہو۔ اسی طرح خود ساختہ مختلف اوپینین پول کے ذریعہ شروع سے یہی باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کے مقابلے میں دوردور تک کوئی دوسری پارٹی کھڑی نظر نہی آرہی ہے۔ ان سب چیزوں کو دیکھتے ہوئے لوگوں کےذہن میں یہ رجحان پیدا ہونےلگاتھا کہ وزیر اعلیٰ یوگی آددتیہ ناتھ کے مقابلے میں فی الحال کوئی نہیں ہے۔ لیکن جوں جوں وقت قریب آتاگیا اکھلیش یادو کی قیادت والی سماجوادی پارٹی مقابلے میں نظر آنے لگی اور دیکھتے دیکھتے عوامی حمایت میں زبردست اضافہ دیکھنے کو ملتا گیا، یہاں تک کہ الیکشن کی تاریخ کے اعلان سے قبل ہی اندرونِ بی جے پی میں عدمِ اعتماد کی ہوائیں انگڑائی لینے لگیں اور یکے بعد دیگرے وہ تمام حلیف جن کو بی جے پی انتہائی چالبازی سے اپنےساتھ ملاکرحکومت میں آئی وہ سب ساتھ چھوڑتے چلے گئے اورسماج وادی پارٹی میں شامل ہوکراسکا قد بلند کرتے گئے۔ معاملہ یہیں نہیں رکا بلکہ یکے بعد دیگرے اس کے کئ ایم ایل ایز کے استعفے نے گویا بی جے پی میں ایک بھونچال پیدا کر دیا، جس کا سامنا کرنے کےلئے بی جے پی بلکل ہی تیار نہیں تھی۔ اور اخیر میں سوامی پرساد موریا جیسے قد آور لیڈر نے تو اس کی جڑوں کو گویاجھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
اوروہ تمام بساطیں، وہ تمام حربے جس کی بدولت بی جے پی نے ناقابل تسخیر تصوراتی قلعہ تیار کرلیا تھا، زمین بوس ہوتانظر آرہاہے۔ تمام تر کوششوں کے باجود بھی اسکی چوطرفہ فضیحت میں اضافہ ہی ہورہاہے۔ زعفرانی وزیراعلی یوگی نے حکومت پر اپنی رسی مضبوط کرنے کےلیے ہندومسلم پولرائزیشن کا زبردست کھیل کھیلا ، اسی ضمن میں اس نے مسلم اقلیت کے ان کئی سرکردہ مذہبی شخصیات کو مختلف الزامات کے تحت پس دیوارزنداں ڈال دیا۔ یہ سراسر ناانصافی اور ظلم پر مبنی اقدام تھا، شاید مسلمانوں کو مشتعل کرنے اور اکثریت کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش رہی ہو گی۔ مگر شاید لگتاہے یہ ان مظلوموں اور اللہ والوں کی دعائے نیم شبی اور آہ سحرگاہی کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے ان کی تمام تر چالیں الٹی پڑتی نظر آرہی ہیں۔ اس موقع پر مجھے علامہ اقبا ل کی وہ مشہور نظم یاد آرہی ہے جسے انہوں نے ابلیس کی مجلس شوریٰ کے نام سے تحریر فرمائی ہے اس نظم میں ابلیس اپنے وزیرسے اپنی قدرت اور طاقت کی باتیں کرتاہے، زمین وآسماں اور مہرو مہ پر دست تصرف کاذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے کلیسا اور کمیونزم کو تو اپنے پنجہ استبداد میں جکڑ لیا ہے لیکن امت مسلمہ کے برگزیدہ بندوں کی آہ سحر گاہی میری تمام تدابیراور پلاننگ کوناکام بنا کر رکھ دیتی ہے۔ نظم کے چند اشعارکچھ اسطرح ہیں:
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اُس اُمّت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضُو
بی جے پی میں اچانک موجودہ انتشار اور بغاوت کی خبریں پڑھ کرایساہی محسوس ہوتاہے کہ یہ کہیں اللہ والوں کی دعائے نیم شبی اورآہ سحرگاہی کا نتیجہ تو نہیں ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اس حکومت میں بےشمار بے گناہوں اور اللہ کے نیک بندوں پر بےجا ظلم وزیادتی کاسامنا ہے۔ اللہ کے نیک بندوں نے ضروراپنی آہ اوراپنی فریاد خداسے کی ہوگی۔ اور مظلوموں کی فریاد کو خدا ضرور سنتاہے۔ اربابِ اقتدار کو شاید یہ بات سمجھ میں نہ آئے کہ ان کی دعاؤ ں میں اورانکے گرم آنسوں میں کتنی طاقت ہوتی ہے۔ ظلم وستم؛ سماج میں تفرقہ بازی اور جذبات سے کھیلواڑ کے ساتھ قائم کی گئی حکومت کبھی بھی دیر پا نہیں ہوتی، یہی ایک حقیقت ہے، اہل سیاست کواس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے اگر اس ملک کی خدمت میں ہر فرد کو شریک بنانے کی کوشش کریں اور کسی قوم یاسماج کو اپنا دشمن سمجھے بغیر مثبت انداز میں حکومت کریں تو ایسی ہی حکومت ملک وملت کی صحیح فلاح و بہبود کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون نگار مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹرجوگیشوری ممبئی میں انگلش کے استاذ ہیں۔
[email protected]
Comments are closed.