Baseerat Online News Portal

مشرق وسطی کی بدلتی تصویر :حقائق ومضمرات اورلمحہ فکریہ

مفتی احمدنادر القاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
گزشتہ کئی مہینوں سے مشرق وسطیٰ اوربالخصوص سعودی عربیہ سے جوخبریں اورسوشل میڈیا پر تصویریں آرہی ہیں ،یہ سب کچھ اورہی بتاتی ہیں ۔اوریہ بھی کہ یہ سب محض اتفاقات نہیں ہیں اورنہ ہی صرف محمدبن سلمان کی بدقماشیوں کا شاخسانہ ہے،بلکہ اس تہ میں اگر جھانک کر دیکھیں تو محسوس ہوتاہے کہ یہ سب اسرائیلی ایجنڈے کی تکمیل کا تدریجی تسلسل ہے جو اپنے مقاصد کی طرف رواں دواں ہے۔اس کے مقاصد کیاہیں اوراسرائیل کیاچاہتاہے اورپس دیوار امریکہ کے کیامفادات ہیں ؟یہ سب وقت کے ساتھ رفتہ رفتہ دنیاکے سامنے آتے چلے جائیں گےاورامت اس وقت گھٹنوں کے بل گری ہوئی اوراسی طرح بے دست وپا نظر آئے گی جس طرح مصری صدرمرسی علیہ الرحمہ کے اقتدار کے خاتمہ اورسیسی کے قبضہ کے وقت ہواتھااورسعودیہ ایک اسلامی حکومت کے خاتمہ کے لئے اسرائیل کے ہاتھوں کٹھ پتلی کی طرح ناچ اوراس کے ایجنڈے کی تکمیل کررہاتھا۔
اس وقت جوکچھ شرق اوسط میں کھیل کھیلا جارہاہے وہ صرف اس لئے کہ امریکہ ازسرنوچاہتاہے کہ اس کی فوجی طاقت پورے مشرق وسطی میں اپنے پورے آلات حرب وضرب کے ساتھ آ موجود ہو اوراسرائیل اندرونی طورپر مکمل دل ودماغ بن کر عرب معاشرے میں نینو چپ کی طرح پیوست ہوجائے ۔
اس کے لئے عرب حکمرانوں کو ایک طرف صرف اس بات پر اکسایاجائے کہ وہ اس طرح کی اوچھی حرکتیں کریں ۔حرمین شریفین کو دنیاکے مسلمانوں کے لئے مقفل رکھیںتاکہ باہر کی دنیامیں عرب حکمرانوں کے خلاف خوب آواز بلند ہوکہ آپ حرمین کی تولیت کو امت کے حوالے کریں ۔اسکے لئے امریکہ اوراسرائیل نے دوحربے اختیار کئے ہیں۔نمبر ایک کرونا کے نام پر حرمین کو مقفل کرنااورباہر کے لوگوں کو حج وعمرہ کی سعادت سے محروم رکھنا ۔جب لوگ مایوس ہوں گے تو ازخود موجودہ حکومت سعودیہ کے خلاف آواز اٹھائیں گےکہ حرمین کی ذمہ داری بین الاقوامی مسلم کمیونٹی کے حوالہ کیاجائے ۔اورنمبر دوعرب معاشرے میں خوب فحاشی اور عریانی پھیلائی جائے تاکہ اس کی وجہ سے مزید حکومت کے خلاف مخالفت کالوہا گرم ہو اورسعودی حکومت یہ چاہے گی نہیں کہ حرمین کی تولیت اس سے لی جائےتو امریکہ اوراسرائیل اندرون خانہ حکومت سے بات کرے گاکہ معاملہ تمہارے خلاف بہت گرم ہے اورتمہارے پاس اتنی طاقت ہے نہیں کہ ایک طرف ایران کے خلاف لڑپاؤاوردوسروں کی اس مخالفت کو برداشت کرسکو جیسے CIAنے صدام کو اکساکر کویت پرپہلے حملہ کروایا اورپیچھے سے شاہ فہد کو بلیک میل کرکے فورا اپنی کرائے کی فوج اتاردی۔اسی طرح اب سعودی جودنیوی اعتبارسے اتنی سیاسی بصیرت نہیں رکھتے، عرب حکمرانوں کی چھوٹی بادشاہت کوبچائے رکھنے اورسرزمین مقدس کو سیکوریٹی فراہم کرنے کےنام پر پورے خطہ کو اپنی سیکوریٹی میں لے لیگااورعرب کی پانچوں تیل بردار ریاست سے کرایہ اصول کرتارہےگااورساتھ ہی عرب نوجوان نسل جو قومی اوردینی حمیت سے اپنی آزاد خیالی کی وجہ سے بےبہرہ ہےاس کو لہوولعب ،کھیل کود ،نئے نئے گیمس میں خوب مست رکھو تاکہ وہ اس طرف سوچ ہی نہ سکے۔
اورباقی دینی اعتبار سے الجھانے کاکام سعودی عرب اورباہر کی مختلف جالیات میں موجود نام نہاد پیران حرم کاتربیت یافتہ سلفی ٹولہ کرہی لے گا۔اس کے پاس دنیاکے ایکسو اٹھارہ کڑور مسلمانوں کومشرک،بدعتی،قبوری، مرتد اورزندیق قراردینے کی اسرائیلی اوربیت ابیض کی حمایت حاصل ہےہی اورمحمدبن سلمان نے اس پرمہر لگاہی دی ہے۔وہ پوری دنیاتک اپناپیغام پہونچاتے اورمسلمانوں کو کافر اورمشرک بنانےکاکام بحسن وخوبی انجام دیتے رہیں گے۔جس کی طرف مولاناخلیل الرحمن سجاد نعمانی نے اپنے ایک یوٹیوب بیان میں توصیف الرحمن راشد کے حوالہ سے کرہی دیاہےکہ وہ اب تمام جماعت دیوبند کو مرتدین میں شمار کرکے واجب القتل قراردے ہی چکاہے۔گویااب سلفیوں کے نزدیک بریلوی تو پہلے ہی مشرک تھے اوراب دیوبندی بھی مرتد ہیں تواب ایکسواٹھارہ کڑور لوگ واجب القتل ٹھہرے۔
عربوں پر اسرائیلی شکنجہ کسنے کے ایک اورحربہ پر عمل شروع ہوچکاہے۔ابھی تازہ ترین خبر کے مطابق UAE ابوظہبی میں دوسیریل دھماکے ہوئے ہیں اوروہ یمن کے حوثی شیعوں سے کروائے گئے ہیں ۔ظاہر ہے اندرون خانہ دونوں کے یارانہ سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا۔اس دھماکے کامقصد یہ ہے کہ اسرائیل اپنے پورے مفاد کے ساتھ uaeآیاہے ۔وہ چاہے گاکہ ہم بے خوف اپنا کام کرسکیں ۔اس کے لئے تمام سرکاری دفاتر،فیانانشیل سنٹر ،ایئرپورٹ ہر چیز ہمارے لئے محفوظ رہے۔چنانچہ اس نے اپناگیم شروع کردیاہے تاکہ تمام عرب ریاستوں کے اہم مقامات پر اس کی سیکوریٹی رہے۔ پہلے عربوں کو خوف میں مبتلاکیاجائے گااورپھر سیکوریٹی کی شرائط رکھی جائیں گی اوراس پر عمل درآمدہوگا۔ اس طرح یہ سب سعودی سمیت پانچوں سنی ریاست میں اسرائیل اپنے مظبوط پنجے گاڑنے میں کامیاب ہوجائے گااورجیساکہ میں نے عرض کیا کہ نوجوانوں کے لئےتو پہلے سامان تعیش کا انتظام کرہی دیاگیاہے۔ بھلا ان کو امت ،قوم ،دین اسلام اورآہ سحر گاہی سے کیالینادینا۔
مسجدیں رات کو دس بجے بند ہوجاتی ہیں اورقہوہ اور شیشےخانے رات بھر کھلے رہتے ہیں ۔
دوسری طرف اس بات کوبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا کی دوسری اقوام کی طرح عرب بھی سوشل میڈیااورانٹرنیٹ صارفین میں ہے ۔ ایسانہیں ہےکہ سوشل میڈیا اپنازہردنیاکی دوسری اقوام میں پھیلائے گا اورعرب میں نہیں کہ اس کا انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا کے زہر آلود سیلاب میں بہنا ممکن نہ ہو ۔انسان جس ماحول میں پروش پائے گا اسکے اثرات زندگی میں آئیں گے ۔نیز یہ کہ عرب بچے اوربچیوں کی بڑی تعداد امریکہ، برطانیہ ، فرانس اوردیگر یورپی ملکوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے ۔جہاں ان میں اوردیگر مذاھب کے بچوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ان کاشعور ایسے ماحول میں جوان ہوتاہےجہاں آزادی سب کچھ ہے ۔ایسے ماحول میں ان کے اندر اسلامی حمیت کہاں پروان چڑھے گی۔اسلئےکہ وہ تو اپنے ملک لوٹنے سے پہلے ہی اسلامی ثقافت وحضارت کا قلادہ اپنی گردن سے پھینک چکی ہوتی ہے وہ کیا اسلام کا نمونہ بنے گی؟۔
گلا توگھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اللہ
چلتے چلتے میں ایک مثال دیتاچلوں ۔میں۲۰۱۳ میں وایادبئی عمرہ اورحرمین کی زیارت کے سفرپہ جارہاتھا۔ سعودی ایئرلائنس کی جس فلائٹ میں سفرکررہاتھااس میں بہت سے اماراتی عرب بھی عازم عمرہ تھے اوراحرام میں تھے ۔میں نے بھی ایئرپورٹ پرہی احرام باندھ لیاتھا ۔میرے بغل میں ۲۰۔۲۲ سال کی ایک دوشیزہ تھی جوعرب ہی معلوم ہوتی تھی ۔باقی واللہ اعلم۔فلائٹ میں بیٹھتے ہی اس نےسب پہلے اپنا برقعہ اتاکر پھینکا ،بال ٹھیک کیااورپھر دونوں کانوں میں لیڈ لگائی اور بالکل پوریپن انداز میں سیٹ پر بیٹھ کر جدہ تک اسی کیفیت میں گئی اورجیسے ہی جدہ ائیر پورٹ پر فلائٹ لینڈ کرنے کے قریب ہوئی جیسے تیسے، جیسے کسی خوف سےبرقعہ پہنا ۔ایسالگا اسے اسلام کی محبت اورکسی دینی فریضہ نے اس پر آمادہ نہ کیا ہو۔بلکہ معاشرے کے خوف نے اس پر مجبورکیا ہو۔ورنہ تواس نے اپنے رویہ سے برقعہ کے تقدس کو پہلے ہی بالائے طاق رکھ دیاتھا۔خیر یہ تو ایک مثال تھی ۔ورنہ اب حالات بدسے بدتر ہوچکے ہیں ۔بس اتنارہ گیاہے ۔جوان بچیاں پھٹی ینس اورٹی شرٹ میں اور ماں بےچاری بوڑھیا برقعہ میں ساتھ ساتھ سڑکوں پر چل رہی ہوتی ہے۔جوانی میں پردہ ایک شرم کی چیز سمجھی جانے لگی ہے۔اوراس پر ستم بالائے ستم پھٹی جینس کا فیشن۔کیا کہنا۔یہ تو عاریات کاسیات کانظارہ پیش کرتے ہیں ۔کیسی ذلت زدہ ذہنیت ہے یہ کہ مختلف جگہوں سے پھٹی جینس ،معیار ترقی اورفیشن سمجھارہاہے۔ ماتم کرنے کو جی کرتاہے اوراس سے بڑھ کر ان بچیوں کے ماں باپ پر جو اپنی بچیوں کو لباس کے آداب تک نہ سکھاسکے اورنہ شرافت کا عادی بناسکے۔
آج اسلام کے بارے میں عربوں کارجحان بھی بس اتناہی ہے جتنا برصغیر میں ہےکہ مدرسہ میں تو غربا اوریتیم پڑھتے ہیںاوراسلام کے بارے میں نالج توسماج کے پسماندہ لوگ حاصل کرتے ہیں ۔شرفا اورمالدار کے بچے تو کالج اوراسکول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ انگریزی بولتے ہیں۔ سعودی عرب کابھی عمومی رجحان اس سے مختلف نہیں ہے۔کوئی دینی مدرسہ نہیں بس مسجد میں کوئی آکر قران سیکھنا چاہے توسیکھ لے۔ اس کاشمارہی تعلیم میں نہیں ہوتا۔آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ میں جاکر دیکھ لیجئے ۔اسلامیات اوراسلامک اسٹڈیز میں کتنے عرب ملیں گے؟۔
دین سے نا آشنائی
آج عربی زبان جاننے کے باوجود عام عرب بچے بچیاں قران و سنت سے یکسر نابلددیکھائی دیتے ہیں ۔اب اسلام کے نام پر قندورہاورجبہ کے سواکچھ نہیں بچاہے۔ہاں یہ اعتراف ضرور ہے ۔انسانی ہمدردی اورانسان دوستی اب بھی دوسروں سے زیادہ ان میں باقی ہے۔
عربی زبان سے کنارہ کشی
اب عربی زبان بولنے میں ان کو شرم آتی ہے اورانگریزی اورفرنچ بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔جگہ جگہ انگلش میڈیم اسکول اور”علی منھج البرطانی“کے بورڈ دیکھائی دیتے ہیں ۔ہوٹلوں اورریسٹوراں میں بائیں ہاتھ سے کھاتے پیتے اکثر جدیدتعلیم یافتہ اورجدت پسند بچے بچیاں نظرآتے ہیں ۔
اگر انگریزوں کی قدردانی اورزائرین ومہمانان رسول کی ناقدریاں دیکھنی ہوتو جدہ اوردوسرے انٹرنیشنل ایئر پورٹس پرجاکر دیکھ سکتے ہیں ۔ان کو انگریزوں کے پیچھے بھاگتےاور حجاج ومعتمرین کو دوڑاتے اوردھتکارتے دیکھیں گے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو آجائے گا ۔اب نوبت بہ ایں جا رسید۔
ہم لوگ آج بھی اپنے دلوں میں عربوں کا احترام رکھتے اوران کا احسان مانتے ہیں کہ ہمیں ایمان کی ہدایت انھیں کے صدقہ میں ملی ہے۔قران جیسی ابدی نجات کی چیز انھیں سے ملی ہے۔اپنے نبیﷺ کااسوہ انھیں کے توسط سے ملاہے۔مگر دل دکھتاہے کہ کاش جس قوم کو دنیاکے لئے ایمان واخلاق اورکردار کاآئیڈیل ہونا چاہیے ۔وہ آج دنیاکے ناچنے گانے والوں اوربھانڈوں کو اپنا رول ماڈل بنارہی ہے ایسا نہ ہواہوتا۔اے قادرمطلق تجھے اپنے پیارے حبیب کا واسطہ !اس قوم کی حفاظت فرما،حجاز مقدس کی حفاظت فرما۔آمین۔
خندہ زن کفر ہے احساس تجھےہےکہ نہیں
اپنی توحیدکا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں

 

Comments are closed.