کیا کم تنخواہ میں گزارا ہو سکتا ہے؟

محمد احمد چشتی
پاکستان میں جن ملازمین کا جتنا کم درجہ ہے ان کی تنخواہیں بھی اتنی کم ہیں اور کام بہت زیادہ ہیں۔ فرض کیا اگر کسی کی تنخواہ بیس ہزار ہے تو کیا اس تنخواہ میں گزارہ ممکن ہے؟ کیا اس تنخواہ سے کوئی انسان اپنی بہتر زندگی گزار سکتا ہے؟ کیا اس تنخواہ سے وہ اپنے کنبے کی بہتر کفالت کر سکتا ہے؟ کیا اس تنخواہ سے کوئی انسان سماجی ربط قائم رکھ سکتا ہے؟یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات اور حل تو موجود ہے مگر حل کرنے کے اقدامات کون کرے گا؟انسان پیدا ہوتا ہے تو غریب و امیر والدین کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ یہ اچھی تعلیم حاصل کرے اور بہترین زندگی گزارے۔ یہ تو انسان کی پلاننگ ہوتی ہے مگر تقدیر کی پلاننگ کچھ الگ ہوتی ہے۔ اگر ہر کوئی افسر بن جائے یا مختلف شعبہ جات نہ ہوتے تو کائنات کا نظام چلنا مشکل ہو جاتا۔انسان کو مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے انسان سے کام اور واسطہ پڑتا ھے مگر تنخواہ یا دیہاڑی کی عجیب تقسیم سمجھ سے بالا تر ہے۔دو بچے اکٹھے جوان ہوئے اور وہ ایک ہی سکول میں پڑھے، جب کالج کی تعلیم حاصل کرنے کا وقت آیا تو تقدیر اور حالات کے بے رحم تھپیڑوں، گردش زمانہ یا حادثات کی وجہ سے ایک بچہ مجبوراً تعلیم جاری نہیں رکھ سکا جبکہ وہ ذہین و فطین تھا۔ بس پھر وہ بچہ دھکے کھاتے جوان ہوا اور درجہ چہارم میں بھرتی ہو گیا اور اسکا ساتھی تعلیم حاصل کرتے اچھی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ دونوں کا سفر تو اکٹھے شروع ہوا تھا مگر اب وہ افسر اور یہ نیچ ملازم۔ جبکہ اس نیچ ملازمت میں اس کا کوئی قصور نہیں تو پھر اسکی تنخواہ یا مراعات اتنی کم کیوں کہ وہ زندگی بھی نہ گزار سکے۔
اگر زیادہ گریڈ ذہانت کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے اور اس گریڈ کی تنخواہ بھی اچھی ہوتی ہے تو اس انسان کا کیا قصور جو غربت یا کسی حادثاتی مجبوری کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکا۔
درجہ چہارم کے کئی ایسے ملازمین بھی ہیں جو انتہائی ذہین، ایماندار اور محنتی ہوتے ہیں مگر انکی تنخواہ انکے افسر سے بہت کم ہوتی ہے اور وہ افسر اس درجہ چہارم کے مقابلے میں بھی کم ذہین ہوتا ہے۔
جو شخص سات آٹھ ہزار روپے ماہانہ کماتا ہو، وہ اپنے گھر کا بجٹ کیا بنائے گا اور کیا چلائے گا۔ اسلام غریبوں کے بارے میں اس قدر سنجیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام دعا مانگا کرتے تھے کہ یا اللہ! مجھے غریبوں میں زندہ رکھنا، غریبوں میں مارنا اور غریبوں کے ساتھ بروزِ قیامت اٹھانا۔ اب تو یہ عالم ہے کہ بازاروں میں امیر ہی نظر آتے ہیں۔غریبوں کو وہاں جانے کی استطاعت ہی نہیں۔اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ روٹی دو روپے کی کرنے اور چند غریبوں کو ماہانہ دو ہزار روپے دینے سے غربت کا خاتمہ کر دیں گے تو ہماری بھول ہو گی۔
اسلام تو ایثار و قربانی کا درس دیتا ہے مگر ایسا کیوں ہے کہ ایک مزدور اور کم تنخواہ دار ملازمین جن کی وجہ سے کسی ادارے کی ساکھ اور بنیاد مستحکم ہوتی ہے انکی آمدنی اتنی کم ہے۔
ایک انسان کی ضروریات کتنی ہوتی ہیں۔ ایک گھر،مناسب روزگار، حسب توفیق کوئی گاڑی۔ لیکن طبقاتی تقسیم نے انسان کو جانوروں سے بھی بد تر کر دیا ہے۔
اللہ کے نبی نے اپنے آخری خطبے میں فضیلت کی بنیاد کی جو باتیں بتائیں تھیں اب ان پر کون غور کرتا ہے۔ اب تو فضیلت بڑی گاڑی، بڑے بنگلے،بڑے ھوٹل اور ٹھاٹھ کی زندگی کا نام ہے۔
انسان کی بنیادی ضروریات بہت مختصر ہیں مگر ایک کم تنخواہ دار ان بنیادی ضروریات سے بھی مکمل محروم ہے۔
پاکستان میں مزدور، کم تنخواہ دار طبقے اور مظلوم کا ھمیشہ استحصال ہوتا رھا ہے۔ کسی حکومت نے کوئی بھی واضح پالیسی مرتب نہیں کی۔
اکثر لوگ یہی کہتے رھتے ہیں کہ جس نے گریڈ حاصل کیا اور زیادہ تنخواہ کا حقدار ٹھرا تو اسکے پیچھے اسکی سالہا سال کی محنت ہے اور اب وہ اچھے عہدے پر کام کر رھا ہے تو اتنی تنخواہ کیوں نہ لے۔ پھر اس انسان کا کیا قصور ہے جس کے والدین کی آمدنی کم تھی جس کی وجہ سے وہ اسے تعلیم نہ دلا سکے باوجود اسکے کہ وہ ذھین و فطین تھا۔
پاکستان میں تعلیم،صحت سمیت سب نعمتیں کم تنخواہ لینے والے کے مقدر میں نہیں ھیں۔ جبکہ یہی کم تنخواہ دار طبقہ پورے پاکستان کی ساکھ ہے اور اسی طبقے کی وجہ سے کسی ادارے کا نظام چلتا ھے۔
اسی لئیے تنخواہ کو گریڈ کیساتھ منسلک کرنے کی بجائے کوئی ایسی پالیسی مرتب کرنی چاہئیے جس سے نظام زندگی چلانا ممکن ھو سکے۔

Comments are closed.