Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ۔بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد

قیمت بڑھانے کے لئے دواؤں کی ذخیرہ اندوزی
سوال: کورونا کی دوسری لہر میں سخت لاک ڈاؤن لگا، کافی اموات ہوئیں، اور ایک اہم دشواری یہ پیش آئی کہ میڈیکل اسٹور والوں نے دوائیں مہنگی کر دیں، اور دواؤں کا ذخیرہ روک لیا، اس کی وجہ سے لوگوں کو اصل قیمت سے دس گنا بیس گنا زیادہ قیمت میں دوائیں خرید کرنی پڑیں، ایک آدمی مشکل حالات میں دوائیں روک لے اور اس کی وجہ سے دواؤں کی قیمتیں بڑھ جائیں، کیا اس میں کوئی حرج ہے، جب کہ وہ اپنی چیز کے بیچنے کو روک رہا ہے؛ تاکہ اسے گراں قیمت حاصل ہو سکے۔ (صبیح الدین، فلک نما)
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذخیرہ اندوزی کرنے والے کو خطا کار قرار دیا ہے: من احتکر فھو خاطئی (مسلم: ۲؍۳۱) اس لئے کسی بھی ایسی چیز کو روک لینا اور اس کا ذخیرہ کرنا، جس سے عام لوگوں کو دشواری اور ضرر ہو، جائز نہیں ہے: کل ما یضر بالعمامۃ فھو إحتکار بالأقوات کان أو ثیابا أو دراھم أو دنانیر إعتبار الحقیقۃ الضرر؛ لأنہ ھو المؤثر فی الکراھہ (البحر الرائق: ۸؍ ۲۲۹) وباء کے دوران دوا کو روک لینا اور اس کو نفع خوری کا ذریعہ بنانا، نہ صرف غیر اسلامی بلکہ غیر انسانی فعل بھی ہے، حق تو یہ ہے کہ ایسے مواقع پر اپنے نفع کو بھی کم کر دینا چاہئے؛ تاکہ غریوں کو فائدہ پہنچے، نہ یہ کہ ضرورت مندوں کا استحصال کیا جائے۔

حکومت کی مقرر کردہ قیمت سے زیادہ میں بیچنا
سوال: حکومت بعض چیزوں کی قیمت متعین کر دیتی ہے، بعض دفعہ عوام کی سہولت کے لئے قیمت مقرر کی جاتی ہے، جس میں تاجر کو نقصان نہ ہو؛ لیکن وہ بہت زیادہ نفع بھی وصول نہ کرے، جو لوگوں کے لئے نقصان کا باعث ہو، اور بعض دفعہ حکومت اس کے لئے نقصان بھی برداشت کرتی ہے اور اصل قیمت سے بھی کم قیمت میں لوگوں کو چیزیں فراہم کرتی ہے، جیسے راشن کا سامان، کیا ایسی چیزوں کو مقررہ قیمت سے زیادہ میں بیچنا جائز ہوگا، اور اگر بیچ دے تو تاجر ان پیسوں کا مالک ہو جائے گا؟ (مصباح الدین، ملک پیٹ)
جواب: حکومت جب عوامی مصلحت کے تحت ایک قیمت متعین کر دے، اور اس کا مقصد لوگوں کو دشواری سے بچانا ہو تو حکومت کا یہ عمل جائز ہے، فقہاء نے بھی صراحت کی ہے کہ حکومت گراں فروشی کو روکنے کے لئے اپنی طرف سے قیمت متعین کر سکتی ہے: إذا کان أرباب الطعام یتحملون ویتعدون عن القیمۃ، وعجز القاضی عن صیانۃ حقوق المسلمین إلا بالتسعیر فلا بأس بہ بمشورۃ أھل الراي والبصر، ھو المختار وبہ یفتی (ہندیہ: ۳؍۲۲۰) اور ہم نے اس ملک کی شہریت قبول کر کے اس بات کا عہد کیا ہے کہ ہم حکومت کے منصفانہ قوانین پر عمل کریں گے؛ اس لئے اگر کوئی قانون شریعت کے خلاف نہ ہو تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے؛ ورنہ وعدہ خلافی اور دھوکہ کا گناہ ہوگا، فقہاء نے صراحت کی ہے کہ حکومت کا جو حکم شریعت کے خلاف نہ ہو، اس پر عمل کرنا ضروری ہے: إذا کان فعل الامام مبینا علی المصلحۃ فیما یتعلق بالأمور العامۃ، لم ینفذ أمرہ شرعا إلا إذا وافقہ، فإن خالفہ لم ینفذ (الاشباہ والنظائر لابن نجیم: ۴۱۲) اس لئے مقررہ قیمت سے زیادہ پر بیچنا درست نہیں ہے، اور یہ ایک طرح کا ظلم ہے؛ تاہم اگر بیچ ہی دے اور اس کی قیمت حاصل کر لے تو وہ پیسے اس کے لئے حلال ہیں، اور اس کی ملکیت ہے: فان سعر فباع الخباز بأکثر مما سعر، جاز بیعہ کذا فی فتاویٰ قاضي خان (فتاویٰ ہندیہ: ۳؍ ۲۱۴)

گاڑی میں ایمبولینس ہارن کا استعمال
سوال: ایمبولینس کے ہارن کی خاص قسم کی آواز ہوتی ہے، یہ آواز تیز بھی ہوتی ہے اور کسی قدر ڈراؤنی بھی ہوتی ہے، لوگ بعض اوقات اپنی عام گاڑیوں میں بھی اس قسم کا ہارن لگا لیتے ہیں؛ تاکہ دوسری گاڑیاں کنارہ ہو جائیں، اور اپنی گاڑی نکالنے میں آسانی ہو، بعض گاڑیوں میں کتے کی آواز کا ہارن ہوتا ہے، آگے والے شخص کو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کتا بھونک رہا ہے، اس قسم کے ہارن لگانے کا شرعی حکم کیا ہے؟ (عبدالرقیب، بنجارہ ہلز)
جواب: اپنی گاڑی میں ایمبولینس کا ہارن لگانا دھوکہ دینا ہے، اور دھوکہ دینا گناہ کبیرہ ہے، کتا بھونکنے کی آواز یا کسی اور خوفناک آواز کا ہارن لگانے سے آگے چلنے والا شخص خوفزدہ ہو جاتا ہے، اور اگر دو پہیوں کی گاڑی ہے تو اس کا توازن بھی کھو سکتا ہے، نیز تیز آواز سے انسان کی سماعت کو نقصان پہنچتا ہے؛ اس لئے اس قسم کے ہارن لگانا اور ایمبولینس کا ہارن دوسری گاڑیوں میں لگانا مکروہ ہے؛ کیوں کہ یہ دوسروں کے لئے ضرور نقصان کا باعث ہے، ہر انسان کوبے شک اپنی ملکیت میں تصرف کرنے کا حق حاصل ہے؛ لیکن وہ ایسا تصرف نہیں کر سکتا جو دوسروں کے لئے نقصان کا باعث ہو: إن للانسان أن یتصرّف فی ملکہ ما شاء من التصرفات مالم یضر بغیرہ ضرراََ ظاھراََ (تبیین الحقائق للزیلعی: ۴؍ ۱۹۶)

شادی میں DJ
سوال: آج کل شادیوں میں DJ کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، پورے محلہ میں اس کی آواز گونجتی رہتی ہے، نکاح کے اعلان اور تشہیر کے لئے اس کو بجایا جا سکتا ہے؟
(شمیم احمد، سکندرآباد)
جواب: نکاح میں اعلان وتشہیر مطلوب ہے؛ لیکن اس طرح کہ وہ شریعت کے حکم کے مطابق ہو، DJ لگانے میں دوہرا گناہ ہے، ایک تو یہ موسیقی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو آوازوں پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہے، جب اللہ تعالیٰ کی کوئی نعمت حاصل ہو اس وقت باجا بجانا، اور جب کوئی مصیبت پیش آئے، اس وقت ماتم کرنا: صوتان ملعونان فی الدنیا والاخرۃ مزمار عند النعمۃ ورنۃ عند مصیبۃ (مجمع الزوائد للہیثمی: ۳؍۱۰۰) اور اس میںدوسرا گناہ ایذاء رسانی کا ہے؛ کیوں کہ اس کی آواز سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے، نیند میں خلل پیدا ہوتا ہے اور جو لوگ دل کے مریض ہیں، ان کو سخت نقصان کا اندیشہ رہتا ہے؛ اس لئے یہ جائز نہیں ہے۔

کیا برادران وطن اہل کتاب میں شامل ہیں؟
سوال: برادران وطن کے یہاں بھی توحید کا تصور ملتا ہے، بعض حضرات جنھوں نے ہندو مذہب پر تحقیق کی ہے، ان کا خیال ہے کہ یہ جن دیوتاؤں کا نام لیتے ہیں، وہ اپنے زمانہ کے پیغمبر تھے؛ اس لئے ہندوؤں کو اہل کتاب میں شمار کیا جانا چاہئے، اگر اس کو تسلیم کر لیا جائے تو ہندوستان میں ہندو مسلم تعلقات میں ایک خوشگوار تبدیلی آسکتی ہے، اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ (رحمت اللہ، ناندیڑ)
جواب: کسی چیز کے ممکن ہونے اور اس کے واقع ہونے میں فرق ہے، صرف اس بنیاد پر کہ ہو سکتا ہے کہ برادران وطن جن کو دیوتا کہتے ہیں، وہ نبی رہے ہوں، ان کو نبی کا درجہ دینا اور اس کی وجہ سے ان کے ماننے والوں کو اہل کتاب کہنا درست نہیں ہے؛ اسی لئے اہل علم نے صراحت کی ہے کہ جن انبیاء ورسل کا ذکر آسمانی کتابوں میں آیا ہے، ان ہی پر ایمان لانا ضروری ہے: وأما الأنبیاء والمرسلون فعلینا الایمان بمن سمی اللہ فی کتابہ من رسلہ (شرح العقیدۃ الطحاوی: ۲۲۷) جن ہستیوں کا بحثیت پیغمبر قرآن مجید میں ذکر نہیں آیا ہے، اور متعین طور پر ان کا نبی ہونا معلوم نہیں ہو تو ان پر اجمالی ایمان لایا جائے گا: ومن ثبت شرعاََ تعینہ منھم وجب الایمان بعینہ ، ومن لم یثبت تعینہ کفی الایمان بہ إجمالاََ (المسامرہ شرح المسایرۃ: ۲۲۵) اس لئے ان پر ایمان رکھنے والوں کو اہل کتاب کا درجہ نہیں دیا جا سکتا؛ اس لئے جو حضرات ہندوؤں یا بدھوںکو اہل کتاب قرار دینے کی بات کرتے ہیں، ان کا موقف صحیح نہیں ہے، ان کے معبودان باطل کو نبی ماننے کا لازمی اثر یہ ہوگا کہ جو لوگ ان پر ایمان نہیں رکھتے ہوں، ان کو کافر قرار دیا جائے۔

عیسائی بیوی کی کرسمس میں شرکت
سوال: گوا میں چوں کہ اکثریت عیسائی حضرات کی ہے اور وہ لوگ کرسمس بہت دھوم دھام سے مناتے ہیں، بعض مسلمانوں کی بیویاں عیسائی ہیں، وہ بھی اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ کرسمس میں شریک ہونا چاہتی ہیں، کیا مسلمان شوہر اُن کو کرسمس کے تقریب میںشریک ہونے اور چرچ جانے کی اجازت دے سکتا ہے؟ (محمد سلیم قاسمی، گوا)
جواب: مسلمان مردوں کے لئے عیسائی ویہودی عورت سے مسلم ملکوں میں نکاح کرنے کی گنجائش ہے؛ اگرچہ بہتر وہ بھی نہیں ہے، غیر مسلم ملک میں یہودی یا عیسائی عورت سے نکاح نہیں کرنا چاہئے، اس میں بڑے مفاسد ہیں؛ تاہم اگر نکاح کر ہی لے اور وہ سچ مچ عیسائی عقائد پر ایمان رکھتی ہو تو نکاح درست ہو جائے گا؛ اگرچہ بعض فقہاء نے ایسی خواتین کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے؛ اس لئے اگر وہ کرسمس مناتی ہیں تو اُن کو زبردستی روکا نہیں جائے گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نجران کو اپنے طریقہ کے مطابق نماز پڑھنے کی اجازت دی تھی؛ اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر وہ اپنے مذہب کے مطابق روزہ رکھیں، نماز پڑھیں تو ان کو اس کا حق حاصل ہے: وقد مکن النبی صلی اللہ علیہ وسلم وفد نصاریٰ نجران…………… ولیس لہ حملھا علی أکل الشحوم واللحرم المحرمۃ علیھم (احکام اہل الذمہ لابن قیم: ۲؍ ۸۲۲)

Comments are closed.