مقصد زندگی اسوۂ نبوی کی اتباع سے حاصل ہوگا

محمدقاسم ٹانڈؔوی
اللہ رب العزت نے اپنے آخری کلام قرآن حکیم میں جگہ جگہ اس مادی دنیا کی عارضی زندگی کو لہو و لعب اور کھیل تماشے کی جگہ بتایا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں آخرت کی زندگی کو دائمی اور عیش و عشرت کی زندگی سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ ارشاد ربانی ہے: "دنیا کی زندگی تو کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں اور آخرت کا گھر ہی پرہیزگاروں کےلئے بہتر ہے، سو کیا تم سمجھ سے کام نہیں لیتے” [سورۃالأنعام:32]
انسانوں بالخصوص صفت ایمانی سے متصف افراد و طبقات کےلئے سمجھداری اور عقلمندی کی بات یہی ہوگی کہ وہ اپنے اس دنیا میں آنے کے مقصد حقیقی سے واقف و باخبر ہوں، اور اس دنیا میں رہ کر اوامر کی قبیل سے جو احکامات ہم پر عائد و مقرر کئے گئے ہیں اور جن بھلے کاموں کو انجام دینے کا انسان کو مکلف بنایا گیا ہے؛ ان پر صدق دل سے عمل پیرا ہوا جائے، انہیں بخوبی انجام دیا جائے اور نواہی کے تعلق سے جتنے بھی فرامین ہم تک پہنچے ہیں، شریعت کے نزدیک وہ سب برے اور ناپسندیدہ امور و افعال میں شمار کئے جاتے ہیں، اور قرآن و حدیث میں ان سے دور رہنے کا تاکیدی حکم بھی وارد ہوا ہے؛ ان سب سے حتی المقدور دوری اختیار کی جائے اور ان کے قریب جانے سے بچا جائے۔ تاکہ شریف اور نیک طینت انفاس کو اسی دنیا میں رب قدیر کا قرب حاصل کرانے میں یہ اعمال و اشغال معاون ثابت ہوں اور آخرت میں بھی یہ اعمال ان کے حق میں باری تعالی کی رضا و خوشنودی کا باعث بنیں۔
انسان کی پیدائش اور تخلیق کا مقصد قرآن مجید میں ان الفاظ کے ساتھ بتایا گیا ہے: "اے رسول! (ﷺ) آپ یاد دلاتے رہئیے، اس لئے کہ یقیناً یاددہانی ماننے والوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ اور میں نے انسانوں اور جناتوں کو تو صرف اسی لئے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی کریں۔ میں ان سے روزی نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ بےشک اللہ ہی ہے جو سب کو روزی دیتا ہے، وہ قوت والا ہے، مضبوط ہے” [سورۃالذّٰرِیٰت:55 تا 58]
قرآن مجید کی ان آیات مذکورہ میں بزبان رسالت انسان و جنات کو نہ صرف یاددہانی کرائی گئی ہے؛ بلکہ لوگوں کے درمیان ایک ہی بات کو بار بار دہرانے اور اس کا تذکرہ کرنے کے فائدہ سے بھی مطلع کیا گیا ہے، کہ آپ نصیحت کیجئے، لوگوں کو سمجھائیے اور ان کو ان کے مقصد حقیقی سے روشناس و باخبر کیجئے؛ آپ کا اس طرح نصیحت کرنا، لوگوں کو سمجھانا اور ان کو فوز و فلاح پر آمادہ کرنا یقینا ان کے حق میں سودمند ہوگا۔ آپ لوگوں کو بتائیں کہ انسان و جِن کی پیدائش کا مقصد اللہ کی بندگی اور اس کی عبادت کرنا ہے، آپ بتائیں کہ اللہ اپنے بندوں سے رزق و مال کا طالب نہیں، بلکہ کھانے کے واسطے وہی تم کو رزق دےگا اور لوگوں کو یہ بھی بتائیں کہ وہی تو ایک تنہا ذات ہے جو سب کو رزق دینے میں کافی و قادر ہے۔
سورۃ الذریات کی ان آیات میں انتہائی وضاحت کے ساتھ انسان کی پیدائش اور اس کے مقصد تخلیق کو بتا دیا گیا ہے کہ خداوند تعالی کو انسان سے اپنی عبادت و بندگی کے سوا کچھ بھی مطلوب نہیں ہے، اس نے ہمیں اس دنیا میں اپنا نائب و خلیفہ بنا کر بھیجا ہے، تاکہ اس زمین پر رہ کر ہم اس کے حکموں کو نافذ و جاری کریں "إِنِّی جَاعِلٌ فِی الأَرْضِ خَلِیْفَۃً” (فرشتوں سے فرمایا: میں زمین میں اپنا خلیفہ اور ایک نائب بنانے والا ہوں) مطلب پیدائش انسان کے واسطے تو "خلافت فی الارض” کا اعزاز ہی انتہائی شرف و تکریم کی بات ہے۔ پھر اس شرف و اعزاز میں بھی وہ لوگ اللہ کے نزدیک زیادہ محترم اور عزت و وجاہت میں بڑھے ہوئے ہوں گے جو اپنی اس زندگی کو تقوی و طہارت کے ساتھ گزارتے ہوں گے اور احکامات الہی میں پابند حدود و شرع ہوتے ہوں گے، جن کے متعلق ایک دوسرے موقع پر یہ ارشاد ہے: "إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَﷲِ أَتْقَاکُمْ” (بلاشبہ اللہ کے یہاں تم میں بڑا عزت دار وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہو) یعنی اخوت و مساوات میں تو سب یکساں ہیں، لیکن اخروی زندگی کے اعتبار سے انسانی مساوات کا اسلامی و عادلانہ معیار یہ قائم کیا گیا ہے کہ بندہ نے اپنی عظمت و رفعت کی بنیاد کو اللہ کے ڈر و خوف پر رکھ کر اپنی زندگی کو نبی (ﷺ) کے پاکیزہ اسوہ اور طریقہ کے مطابق گزاری ہو۔
چنانچہ آخرت کی اس کامیابی اور عظمت و رفعت کے ان بلند مراتب کے حصول کےلئے ضروری ہے کہ لوگوں نے ایک تو نبیؐ کے اسوۂ حسنہ کو مکمل طور پر اختیار کیا ہو کیوں کہ ہمارے لئے ساری خوشیاں اور زندگی کو منور کر دینے والی تمام تر روشنیاں آپ (ﷺ) کے اسی اسوہ میں پنہاں ہیں اور یہی ایک اسوہ ہمارے لئے ہر اعتبار سے قابل اتباع ہے۔ دوسرے نواہی و منہیات سے دوری اور ان سے کلی طور پر اجتناب کیا ہو، جس سے ایک بڑا فائدہ یہ حاصل ہوگا کہ جو ابتلاء و آزمائش اور مختلف فتنے ہر وقت انسان کے تعاقب میں سرگرداں رہتے ہیں، ان سے انسان مامون ہو جاتا ہے، ساتھ ہی فاسد عقائد اور باطل افکار کی وجہ سے جو آدمی عنقریب گمراہی کی دلدل میں پہنچنے والا ہوتا ہے، ان سے بھی محفوظ و مامون کر دیا جاتا ہے۔ گویا سنت و شریعت کی پابندی ہی آدمی کو صراط مستقیم پر گامزن و برقرار رکھنے میں اصل محرک ہے۔ برخلاف اس آدمی کے جو سنت و شریعت سے ہٹ کر کوئی دوسری راہ اختیار کرتا ہے، وہ خود کو ضلالت و گمراہی والے سفر پر گامزن کرنے والا مجرم شمار ہوتا ہے، جس کا نتیجہ سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ نہ ہوگا، ایسا گمراہ آدمی اس دنیا میں بھی حقارت و ذلالت کی زندگی گزر بسر کرےگا اور آخرت میں بھی نیکوکاروں کی صحبت و معیت سے اسے دور رکھا جائےگا۔ اور ایسا وہ لوگ کرتے ہیں جن کا شیوا اور منشاء ہی اللہ کے رسول (ﷺ) کی نافرمانی اور حکم عدولی کرنا ٹھہرا ہے، جن کے متعلق قرآن مجید میں یہ وعید فرمائی گئی ہےکہ: "جو لوگ بھی رسول کی حکم عدولی کرتے ہیں وہ خبردار رہیں کہ وہ کسی فتنہ میں نہ پڑ جائیں یا کوئی دردناک عذاب ان کو نہ آدبوچے” (سورۃالنور:63)
اس آیت کریمہ میں اللہ پاک اپنے ایمان والے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی موقع اور معاملہ میں معروف و منکر کے اعتبار سے حکم کریں تو اس وقت تم پر اس حکم کی بجاآوری لازم و ضروری ہو جاتی ہے اور آپؐ کے حکم کی یہ بجاآوری اور شریعت کی پابندی معاملات میں، اخلاق و کردار میں حتی کہ عبادت و ریاضت سب میں تم کو اختیار کرنا ہے، اس لئے کہ شریعت کی یہی پابندی تم کو محبوب خدا و عاشق رسول بناتی ہے۔ ورنہ اگر کوئی بندہ عبادت و بندگی اپنی مرضی سے انجام دینے کا خواہش مند ہو اور شریعت کی عائد کردہ پابندی اسے منظور و قبول نہ ہوں، وہ یہ چاہتا ہو کہ جیسا اس کا دل کرے؛ ویسے اعمال و افعال انجام دے، تو ایسا شخص راندۂ درگاہ ہے، اس کا اختیار کردہ طریقہ ناقابل اعتبار قرار دیا جائےگا۔
مثلاً ایک شخص ہے اور وہ نماز فجر کے دو فرضوں کی جگہ چار فرض ادا کرنا چاہتا ہے، یہ سوچ کر کہ چار کا عدد دو سے بڑا ہوتا ہے، یا اسی طرح کوئی بندہ جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کے دو فرض جماعت سے ادا کرنے کے بعد ظہر کی چار رکعت فرض الگ سے اور ادا کرتا ہے یہ کہہ کر کہ جیسے ہم روزانہ اسی وقت چار رکعت فرض ظہر ادا کرتے ہیں، سو انہیں آج بھی ادا کیا جانا چاہیے یا اسی طرح کوئی شخص تین کی بجائے چار رکعت کی ادائیگی یہ جان کر کرتا ہے کہ اس اضافہ شدہ ایک رکعت کے رکوع و سجود اس کے اجر و ثواب میں اضافہ کا باعث بنیں گے؛ تو یاد رکھئے! شریعت کو ایسی من مانی عبادت ہرگز مطلوب نہیں ہے، ایسا بندہ شریعت کا پابند نہیں بلکہ اپنی مرضی کا مالک و مختار ہے اور حقیقت میں یہ بندہ اپنی عقل کے گھوڑے دوڑا کر شریعت کو اس کے متعینہ منہج و موقف سے اتار کر اپنے مزاج و مذاق کے ماتحت کرنا چاہتا ہے، ایسے فاتر العقل اور بدشعور آدمی کی نہ تو ہاں میں ہاں ملانے کی گنجائش ہے اور نہ ہی اس کو اس کی مرضی پر آزاد چھوڑا جاسکتا ہے، بلکہ جہاں تک ہوگا اس کی اس غلط فہمی کو دور کیا جائےگا اور اس کو روکا جائےگا۔ اگر یہ بندہ اپنی اس حرکت سے باز آتا ہے تو ٹھیک ورنہ اس سے یہ کہہ کر کہ: "بوقت حساب و کتاب تیری اس عبادت کو تیرے منھ پر مار کر تجھے ہر قسم کے اجر و ثواب سے محروم کر دیا جائےگا” چھوڑ دیا جائےگا۔ اس لئے کہ طریقہ وہی محمود و مقبول ہوگا جسے حضرت نبی پاک (ﷺ) نے یا شریعت نے متعین و مقرر کرکے دیا ہوگا، اور جو طریقہ منہج شریعت اور اسوہ محمدی کے متصادم و متضاد ہوگا وہ باطل و مردود ہوگا، اسی کو قرآن مجید میں یوں فرمایا گیا ہے: اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تمہیں فلاح و کامرانی حاصل ہو "وَاتَّقُوااللہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ”۔
Comments are closed.