مصروفیت

کامران غنی صبا
اسسٹنٹ پروفیسر نتیشور کالج، مظفرپور
آج کے انسان کا سب سے بڑا مسئلہ مصروفیت ہے. ہم میں سے اکثر لوگ مصروف ہیں. ہمارے پاس اپنوں سے ملنے ان کے دکھ درد بانٹنے کا وقت نہیں ہے. اپنوں کی بات تو بہت بڑی ہے، ہمارے پاس اپنے آپ کے لیے وقت نہیں ہے. خود سے ملنے کے لیے ہم اتوار کا انتظار کرتے ہیں.
انسان نے وقت کی بچت کے لیے بہت ساری ایجادات کیں. مشینیں بنائیں، کمپیوٹر اور روبوٹ بنائے لیکن مشینوں کی تیز رفتاری کے ساتھ ساتھ ہماری مصروفیتوں کی رفتار بھی بڑھتی گئی. ایک زمانہ تھا جب ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لیے کئی کئی گھنٹے لگ جاتے تھے. آج ہم چند گھنٹوں میں ملکوں کی سیر کر آتے ہیں. گھریلو خواتین صبح سویرے اٹھ کر لکڑیاں اور کوئلے جٹانے میں لگ جاتی تھیں. تب مصالحہ پیسنے، کپڑے دھونے کی مشینیں نہیں تھیں. اتنے سارے کام کرنے کے بعد بھی ان کے پاس ڈھیر سارا وقت ہوتا تھا. آج یہ سارے کام پلک جھپکتے انجام پاتے ہیں پھر بھی وقت کی کمی ہے.
مَردوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا. گھر سے لے کر دفتر اور بازار ہر جگہ دشواری تھی. پھر بھی وقت کی کمی کا رونا نہیں تھا.
جب موبائل فون نہیں تھا تو ہم ایک دوسرے کو تفصیل سے خط لکھتے تھے. ہمارے پاس ڈاک خانے جا کر ڈاک لگانے کا وقت تھا. رابطے کا ایک ہی ذریعہ تھا خط، لیکن رابطے مستحکم تھے. پھر ٹیلی فون کا زمانہ آیا. فون سے بات کرنا مہنگا تھا لیکن پھر بھی دور دراز کے لوگوں سے مہینے میں ایک دو بار بات چیت ہو جایا کرتی تھی. آج صورتحال یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی شناسا سے رابطہ کیا جا سکتا ہے لیکن پھر بھی دوریاں ہی دوریاں ہیں.
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وسائل کی فراوانی کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس ڈھیر سارے وقت کی بچت بھی ہوتی لیکن معاملہ برعکس ہے. ہم سب انتہائی مصروف ہو چکے ہیں. ہماری مصروفیت کی سب سے اہم وجہ ہماری خواہشات کا کوہ گراں ہے. وسائل کی فراوانی کے ساتھ ساتھ ہماری خواہشات کے کوہ گراں بھی کوہسار میں تبدیل ہو چکے ہیں. قناعت کا زندگی سے نکل جانا انسانی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے. ہم مہنگائی کا رونا روتے ہیں لیکن پھر بھی سب کچھ کھاتے پیتے ہیں. جب مہنگائی نہیں تھی تو ہمیں پھل کھانا نصیب نہیں تھا. بیماروں کو پھل کھلائے جاتے تھے. مہمانوں کی آمد پر گوشت کی چیزیں بنتی تھیں. آج یہ ساری چیزیں سب کو دستیاب ہیں پھر بھی ہم مہنگائی کا رونا روتے نہیں تھکتے.
نئے کپڑے خاص خاص مواقع پر بنائے جاتے تھے. آج ہم شوقیہ کپڑے خریدتے ہیں.
آج ہر گھر میں بے شمار اشیاء ایسی ضرور مل جائیں گی جن کے بغیر بھی زندگی گزاری جا سکتی ہے لیکن بے شمار غیر ضروری اشیاء بھی ہماری ضرورت بن چکی ہیں.
پہلے تعلق کم لوگوں سے ہوتا تھا لیکن اس میں پائیداری تھی. آج ہم دنیا بھر سے دوست بنا لیتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسی کی ہی خبر نہیں ہو پاتی کہ وہ کس حال میں ہے.
مصروفیت اگر تعمیری نہ ہو تو ایک عذاب ہے، جس میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے. اس عذاب کے نتیجیے میں انسان پہلے اپنوں سے دور ہوتا ہے پھر اپنے آپ سے. اس عذاب سے بچنے کی یہی صورت ہے کہ اسپِ خواہشات پر لگام لگائی جائے اور اپنے اضافی وقت تعمیری کاموں میں خرچ کیے جائیں. رشتے ناطوں کی پائیداری کے لیے وقت کا صدقہ نہ نکالا جائے تو وقت سے برکت اٹھا لی جاتی ہے.

Comments are closed.