یوپی اسمبلی انتخابات اور ہم

ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
پانچ ریاستوں میں انتخابات کا بگل بج چکا ہے ، تیاریاں بھی زور و شور سے شروع ہو چکی ہیں ۔ ان ریاستوں میں یوپی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ ایک بڑی ریاست ہے اوراس کے انتخابی نتائج برسر اقتدار بی جے پی کی قومی سیاست کو متاثر کرسکتے ہیں۔ یوں تو ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ یوپی میں مسلمانوں کی آبادی اٹھارہ فیصد ہے اسمبلی کی کل سیٹوں میں سے قریب ڈیڑھ سو سیٹوں پر مسلم ووٹرس کافی اہمیت کے حامل ہیں اور ۸۰ سیٹوں پر تو فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیںلیکن تاریخ اس کی بھی شاہد ہے کہ یو پی اسمبلی میں مسلم ممبران کی تعداد کبھی ۸۰ (جہاں مسلمان فیصلہ کن حالت میں ہیں) نہیں رہی،بلکہ فیصلہ کن مسلم آبادی والے حلقوں سے بھی مسلم مخالف امیدوار کامیاب ہوتے آئے ہیں وجہ صاف ہے کہ ہمارے فیصلہ کن ووٹ اپنے جعلی ہمدردوں میں بٹ جاتے ہیں اور ہمارے مخالف ووٹوں کی اکثریت انتہائی متحد انداز سے ہماری مخالفت کرنے والوں کی جھولی میں جاتی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کوئی مسلم امیدوار یا کوئی سیکولر یا جعلی سیکولر نہیں ہارتا بلکہ ہم مسلمان ہار جاتے ہیں ۔ ہماری سیاسی سماجی اور مذہبی قیادت اپنے اپنے مفادات کی خاطر ہماری ہمدردی کا ڈھونگ کرنے والی سیاسی پارٹیوں میں بٹ کر ہماری اجتماعیت کو بھی اپنی اپنی پارٹی میں بانٹ لیتی ہے اور نتیجہ وہ ہوتا ہے جو آزادی کے بعد سے مسلسل بد سے بدتر ہوتے ہوئے اب بدترین ہو چکا ہے ۔ ہمارے ووٹ ہمیشہ مذہبی مسلکی اور جذباتی اشوز کے نام تقسیم ہوئے ہیں کہ مسلم قوم بڑی بھولی بھالی ہے سیاسی پارٹیوں سے منسلک اپنے سیاسی آقاؤں اور مذہبی قیادت کے سیاسی ٹھیکیداروں کے ہنکائے اندھوں اور بہروں کی طرح ہنکائی جاتی ہے ہر سیاسی لیڈر اپنے اور اپنی پارٹی کے مفاد کے لئے قوم کی اجتماعی قربانی دینے سے بھی اجتناب نہیں کرتا اور ہر مذہبی امیر اپنے مفادات کے لئے الٹی سیدھی تاویلوں کے ذریعہ اپنے مطلب کی بات کو قوم کے حق میں ثابت کر نے کی کوشش کرتا ہے۔ مسلمانوں کے یہ قائد مسلمانوں کی نہیں بلکہ اپنی اپنی پارٹیوں کی ہی نمائندگی کرتے ہیں ،اگر وہ اپنی پارٹی کو چھوڑ کر مسلمانوں کی نمائندگی کرنے لگ جائیں تو پھر پارٹی ان کو الیکشن کے وقت قیمتی ٹکٹ سے کیوں نوازے گی؟یا کسی منصب پر کیوں مقرر کرے گی ۔اسی لئے ہماری قیادت لال بتی کی گاڑی کے لالچ میں نازک مواقع پر بھی مسلم نمائندگی کو کچرے کے ڈبے میں ڈال کرپارٹی لائن کو ہی ترجیح دیتی ہے ۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میںشایدایسا کبھی نہیں ہوا کہ مسلم نمائدوں نے اپنی سیاسی وابستگیوں سے اوپر اٹھ کرمسلمانوں سے وابستگی کا کوئی مظاہرہ کیا ہو،ہاں اگر کسی مائی کے لال نے ایسا کیا بھی تو اس کی پارٹی نے اگر اس کو برخاست نہیں کیا تو اس کے سیاسی کرئر کو ٹھکانے لگانے کا کام ضرور کیا ۔رہی ہماری مذہبی قیادت تو یہ سیاسی لوگوں سے کہیں زیادہ غیر لچکدار ہے،جب وہ ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں تو پھر ان کے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی نہیں آتا کبھی کبھی ان کا یہی غیر لچکدار رویہ سیاسی میدان میں بھی مسلمانوں کو بانٹ کر رکھ دیتا ہے۔
سیاست میں ہم مسلمانوں کی اوقات شطرنج کے پیادے سے زیادہ کبھی نہیں رہی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جس طرح پیادوں کے بغیر شطرنج کی بساط مکمل نہیں ہو سکتی اسی طرح ہمارے بغیر سیاست بھی مکمل نہیں ۔ اگر ہم سیاسی منظر نامے سے معدوم ہو جائیں تو بہت ساری کیا سبھی سیاسی پارٹیوں کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا ایسے ماحول میں سیاست کرنا ان کے لئے ناکوں چنے چبانے کے مترادف ہو گا یہی وجہ ہے کہ ملک کی تقریباً سبھی سیاسی پارٹیاں ہمارے نام کی مالا جپتی ہیں کوئی ہماری مخالفت میں تو کوئی ہماری جعلی ہمدردی میںیعنی سیاست میں ہماری اہمیت ضرور ہے لیکن یہ اہمیت منفی ہے ۔ ہمیشہ سے ہمارے نام جو سیاست ہوئی وہ ہمارے تئیں منفی ہی رہی ہے جو ہمارے حق میں کبھی فائدہ مندہو سکتی تھی نہ ہوئی کہ سیاسی چالوں میں شطرنج کے پیادوں کی طرح ہمارے پٹ جانے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا مسلم قیادت کو بھی نہیں،بلکہ کوئی بھی سیاسی پارٹی اگر ہمارے نام پر کوئی سیاسی چال چلتی ہے تو اس سے اسکا مطلب ہمیں پٹوا کر کسی بڑی کامیابی پر نشانہ سادھنا ہی ہوتا ہے ، اگر ہم نہیں سمجھتے تو اس میں اس پارٹی کیا قصور ! آزادی کے بعد سے یہی ہوتا آرہا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران اور خاص طور سے ۲۰۱۴ کے بعد سے مسلم ووٹ اور مسلم ووٹ بنک کی سیاست کا اتنا شور مچایا گیاکہ ملکی سیاست میں ہم اکثریت سے بالکل الگ کر دئے گئے ، ایک طرف ہم کو ملکی سیاست کا ویلن کردیا گیااور دوسری طرف مسلمانوں کے تئیں کسی بھی پارٹی کی کسی مثبت بات یہاں تک کہ ہمارے خلاف ہورہے جرائم کے خلاف محض آواز اٹھانے کو بھی’ مسلمانوں کی منھ بھرائی ‘ قرار دے کر ہمیں ملکی سیاست کے حاشیہ سے بھی بے دخل کر دیاہے ۔ اب ہمارا حال یہ ہے کہ ہم جس طرف جائیں گے اکثریت کی اکثریت اس کے خلاف ووٹنگ کرے گی ، ہم جس کی حمایت کا اعلان کریں گے اور جس کی جیت کے لئے شور مچائیں گے دیش کی اکثریت بلا شرط اس کے مخالفین کی طرف جانا اپنا فرض سمجھے گی ، نہ اس کا کام دیکھے گی ، نہ اسکے وعدوں کا حساب پو چھے گی اور نہ ہی اپنی حالت زار کی کوئی فکر کرے گی ۔ہم منفی سیاست کا طاقت ور ترین مہرہ ہو گئے ہیں کہ اب وہی بازی مارے گا جو منفی طور پر ہمارا نام لے گا جو ہماری مخالفت کرے گا ہمیں مارنے کاٹنے کا اعلان کرے گا۔ سیاست میں ہم اس منفی مقام پر کہاں پہنچ گئے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ہم اپنے اوپر ہونے والے مظالم اور اپنے خلاف ہونے والے جرائم کے خلاف آواز بھی اٹھاتے ہیں تو اس سے بھی ہمارے مخالفین کی طرف ووٹوں کا پولرائزیشن بڑھتا ہے اور انہی کا سیاسی فائدہ ہوتا ہے۔
ملک کا یہ سیاسی اور سماجی ماحول ہمارے لئے انتہائی فکر انگیز ہے،انتہائی سنجیدگی سے سوچنے کا مقام ہے کہ ہم کیا کریں ، کدھر جائیں ،اس وقت ہم سیاسی بے چارگی کے اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں ایک طرف ملکی سیاست ہے کہ جس میں کوئی ہمارے ساتھ آنے کو تو کیا ہمارا نام بھی لینے کو تیار نہیں ، دوسری طرف ہمارے مخالفین ہیں جو مسلسل اکثریت کے سامنے ہمیں ملک دشمن بنا کر پیش کر رہے ہیں اور اس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی بھی مل رہی ہے، تیسری طرف کچھ ہمارے اپنے ہیںکہ جن کی اشتعال انگیز سیاست خود ہمارے مخالفین کا یہ کام آسان کر رہی ہے اور چوتھی طرف خلوص اور قوم کے درد کا لبادہ اوڑھے کچھ لوگ ہیں جو ہمیں بے وقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کر نے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے ہیں۔یعنی ہم چاروں طرف سے گھرے ہوئے ہیں اور ہمیں کوئی بیچ کی راہ نکالنی ہے تاکہ ہماری سیاسی اور سماجی پوزیشن مضبوط ہو ۔ سمجھئے کہ یوپی کا یہ اسمبلی الیکشن اس امتحان کا پہلا پرچہ ہے ۔
Comments are closed.