اترپردیش کا صوبائی الیکشن اور مسلمان

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ، نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپ گڑھ
تین ، چارعشرے سے بلکہ یہ کہیے کئی مہینے سے صوبہ اترپردیش میں الیکشن کا گرما گرم ماحول چل رہا،ہر جگہ انتخابی گہما گہمی ہے، اور سیاسی دنگل دن بدن تیز اور پیچیدہ ہوتا جارہا ہے، تمام پارٹی اپنے اپنے طور پر جیت کا دعویٰ کر رہی ہے، مذہب، ذات پات اور وکاس کے نام پر لوگوں کو اپنے طرف مائل کر رہی ہے۔ سیکولر ووٹ کی تقسیم کا خطرہ ہے، اس کا اندیشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔
یہ انتخاب مستقبل میں بہت کچھ اندیشے اور نتیجے ظاہر کرنے والا ہے، اس لئے سابقہ تمام انتخابات کے مقابلے میں اس بار ووٹنگ کی اہمیت کچھ زیادہ ہی لوگ محسوس کر رہے ہیں ۔
سابقہ انتخاب کی طرح اس بار بھی یوپی کےمسلمان اور سیکولر ووٹرس عقل و شعور اور دانشمندی سے کام نہیں لے رہے ہیں ، اس لیے خطرہ ہے کہ کہیں ان کے ووٹ کی طاقت بے اثر نہ ہو جائے ۔
اس بار بھی انتخاب میں ہمارے نوجوان جذبات میں آکر وہی غلطیاں دھرا رہے ہیں، جو گزشتہ الیکشن میں وہ کر چکے ہیں ۔ گزشتہ الیکشن کے بعد جو نتائج سامنے آئے اور اس میں سیکولر پارٹیوں کو جو شکست ملی ، ایسا لگتا ہے کہ اس سے ہم نے اور ہمارے مذھبی قائدین نے سبق نہیں لیا ، جب کے اس شکست میں کئی سبق آموز پہلو پنہاں تھے ۔ افسوس کہ مسلمانوں کی سیاسی بے شعوری کی وجہ سے اکثر ان کے ووٹ خزاں رسیدہ درخت کے پتوں کی طرح بکھر جاتے ہیں ۔ مذھبی قائدین بکھرے ہوئے مسلمانوں کو جمع کرنے میں ہمیشہ ناکام ہوجاتے ہیں ۔
یہاں ایک اور وضاحت ضروری ہے، کہ اگر کوئی شخص اپنی صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے مفاد میں بحیثیت ایک غیور مسلمان اچھی بلکہ زبردست نمائندگی کرتا ہے، اور جابر سلطان اور بادشاہ کے سامنے کلمئہ حق ادا کرتا ہے تو یقینا وہ بہت بڑا مجاہد ہے، پوری امت مسلمہ کی طرف سے وہ دعاؤں کا اور تعریف کا مستحق ہے ایسے رہنما اور قائد کو سر پر اٹھا کر رکھنا چاہیے، ہر وقت ان کی صحت اور سلامتی کے لئے دعائیں کرنی چاہیے ، لیکن اس جرآت و بہادری کا صلہ یہ نہیں ہے کہ اگر اس کی پارٹی کا کوئی شخص الیکشن میں کھڑا ہے، تو جیسے تیسے بھی وہ ووٹ کا بھی سب سے زیادہ مستحق ہوجائے گا ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر ایک شخص اچھا منتظم ہے تو وہ اچھا مدرس بھی ہو۔ ایک شخص کہیں مناسب اور معقول گفتگو کرے تو اس کا ہر عمل اور اقدام ہر جگہ لائق تحسین اور قابل قدر ہو ۔
لیکن افسوس کہ مسلمان اور خاص طور پر نوجوان جذبات میں آکر زمینی اور علاقائی حقائق کو نظر انداز کردیتے ہیں، اور اپنی طاقت کو کمزور اور منتشر کرکے دشمن طاقتوں اور پارٹیوں کو نادانی اور جذبات میں آکر فائدہ پہنچا دیتے ہیں ۔
ایک شخص، مسلمانوں کی اپنی پارٹی ہو ، مسلمانوں کی اپنی سیاست ہو ، کا نعرہ لگاتا ہے کیا سیکولر طاقتوں اور پارٹیوں سے اتحاد کئے بغیر یہ ممکن ہے ۔ جموں کشیمر کیرلہ اور ہندوستان کے چند حلقوں اور سیٹوں پر تو اگر مسلمان متحد ہو کر ایسا کریں تو یہ ممکن اور آسان ہے، اور بہت حد تک وہاں مسلمان جیتتے بھی ہیں۔لیکن پورے ملک میں یہ کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے ۔ اس لئے ہم مجبور ہیں کہ سیکولر پارٹیوں سے مل کر محاذ بنائیں اور اپنی طاقت کو محفوظ و مضبوط کریں ۔
یاد رکھئے صرف کسی کا مخلص، قابلیت والا اور غیور ہونا ہی کافی نہیں ہے، اس کاعمل اور اقدام کا صحیح ہونا بھی ضروری ہے ۔
میں آپ لوگوں سے ایک سوال کرتا ہوں ایک آدمی پورے ملک میں مسلمان پارٹی کی حیثیت سے،الیکشن میں شرکت کی بات کرتا ہے وہ خود اپنے صوبے میں صرف چھ سات سیٹوں پر ہی الیکشن کیوں لڑاتا ہے؟۔
مہاراشٹر اور بہار کے الیکشن میں بھی مسلمان یہ غلطی کرچکے ہیں، اس لئے خبر دار رہیے اور بیوقوفی مت کیجئے ہوش سے کام لیجئے ، جذبات میں مت آئیے ۔ ایک مخلصانہ مشورہ ہے ، نوشتئہ دیوار پڑھئے اور قوم و ملت کا بھلا کیجئے بڑے دشمن کو قابو اور اوقات میں لانے کے لیے چھوٹے دشمن سے سمجھوتہ کر لیجئے اور وقتی طور پر اسے ہی مسیحا مان لیجئے کیونکہ یہ ہم سب کی ابھی مجبوری ہے۔
ایک اور جانب اشارہ بھی کرنا مناسب ہوگا کہ آج ہماری کمی یہ بھی ہے کہ ہم زیادہ تر اخباری بیانات دے کر سوشل میڈیا پر اپنی بات کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں اور مطمئین ہوجاتے ہیں کہ ہم نے بہت تیر مارلیا بڑا کارنامہ انجام دے دیا ۔ زمینی سطح پر ہماری محنت صفر کے درجہ میں ہوتی ہے ۔ جبکہ فرقہ پرست پارٹیوں کی حلیف اور معاون جماعتیں بیان بازی اور زبانی جمع خرچ کم کرتی ہیں اور وہ اپنے لوگوں کے میں گھر گھر پہنچتی ہیں اور ذھن سازی کرتی ہیں اور ان کو غلط پروپیگنڈہ کرکے متاثر کرتی ہیں ،مسلمانوں کا خوف دلاتی ہیں ۔ لیکن ان کی یہ ساری مہم اور یہ سارا کام انتہائی خفیہ طریقے سے انجام پاتا ہے ۔
لیکن ہماری جماعت کے افراد اور قائدین خفیہ پیغام کو بھی اعلانیہ اور لوگوں میں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں، انہیں معلوم ہی نہیں ہر چیز کو اعلانیہ بیان کرنا اور نوشتئہ دیوار بنا دینا عقل مندی نہیں ہے ۔ اس سے مخالف جگ جاتے ہیں، اور رد عمل کے طور پر منصوبہ بنانے لگتے ہیں ، اور ہم صرف بیان بازی میں رہ جاتے ہیں، ہمارے سارے عزائم فلک شگاف نعروں کی شکل اختیار کرکے فضا میں تحلیل ہو جاتے ہیں ۔
آج کے حالات میں اخبارات کے ذریعہ مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کرنے کے بجائے بہتر ہے ، میسج اور واٹسیپ کے ذریعہ خفیہ انداز میں یہ خدمت انجام دی جائے کہ کہاں کس امیدوار اور پارٹی کو ووٹ دینا زیادہ بہتر ہوگا ،اگر دو مسلمان الگ الگ پارٹیوں سے کھڑے ہیں تو کس کو ووٹ دینا بہتر ہوگا اس کی رہنمائی بھی ہم خفیہ انداز میں کریں ، جھارکھنڈ اور بنگال میں علماء اور دانشوروں نے ایسا کرکے دکھایا ان کو ہم نمونہ بنا سکتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مہم پر روانہ ہوتے تو پہلے سے ساری تیاری ہوتی، لیکن قریبی رفقاء اور ساتھیوں کو بھی خبر نہیں ہوتی کہ آپ کا کہاں کا ارادہ ہے ؟ صرف غزوئہ تبوک کے موقع پر آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پہلے سے اپنے ارادے سے باخبر کر دیا تھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مدینہ میں ایسے لوگ نہیں تھے، جن کا رومیوں سے ربط ہو ۔ اگر آپ سے منزل دریافت بھی کی جاتی تو مبھم طریقہ پر بتاتے کہ فلاں سمت اور علاقہ کی طرف جانا ہے ۔ متعین طور پر اپنی منزل کو ذکر نہیں کرتے ۔ یہاں تک کہ فتح مکہ کے موقع پر بھی آپ نے اپنے سفر کو اس قدر مخفی رکھا اور ایسا نامانوس راستہ اختیار کیا کہ مکہ کی سرحد تک پہنچنے پر بھی لوگوں کو کوئی خبر نہ ہوسکی ۔ اسی طرح تیرہ سالہ مکی دور میں بھی زیادہ تر دنوں میں آپ نے مصلحتا دعوت کے کام کو بہت خفیہ اور راز دارانہ انداز سے انجام دیا ۔ بعض حضرات کو آپ نے مصلحت کے تحت قبول اسلام کو چھپانے کا حکم دیا ۔ لیکن آج ہمارے اندر قبل از وقت ہی تشہیر اور پروپیگنڈہ کا مزاج بن گیا ہے ۔ ہمارے مذھبی قائدین اور سیاسی رہنما کسی پارٹی یا رہنما کے کھلے عام تائید اخبارات کے ذریعہ کرنے لگتے ہیں جس کا منفی اثر سامنے آتا ہے ۔
بہر حال اب بھی جگنے اور سیاسی شعور سے کام لینے کا وقت ہے ، ہم سب پہلے آپس میں متحد ہونے کی کوشش کریں اور آپسی خلیج کو دور کریں ،ووٹ اور الیکشن کی اہمیت کو سمجھیں ۔ ایثار و اخلاص اور قربانی کا اپنے اندر جذبہ پیدا کریں ۔ اجتماعی مفاد کو ترجیح دیں ۔ جس حلقہ سے کئی پارٹیوں نے مسلم امیدوار کھڑے کرائے ہیں وہاں حکمت و دانائی سے کام لیں ۔ ان میں سے کسی کو اجتماعی مفاد کے لئے ہٹ جانے یا نرم پڑ جانے پر تیار کریں تاکہ ہمارا ووٹ منتشر نہ اور فریق مخالف کو جیتے کا موقع نہ مل سکے ۔
الیکشن اور سیاست بھی آج جنگ ہے اور جنگ کے بارے میں یہ نبوی تعبیر بھی ہے کہ الحرب خدعة جنگ مخالف اور مد مقابل کو پٹخنی دینے اور حسن تدبیر کا نام ہے ۔ یہاں صرف سادہ لوحی سے کام نہیں چلے گا بلکہ تدبیر تدبر اور دماغ سے کام لینا ہوگا۔
بعض لوگ انتخاب اور الیکشن کو خالص دنیا کا کام سمجھتے ہیں اور ووٹ دینے کو دین سے الگ کام سمجھتے ہیں وہ اپنا ذھن صاف کریں اور اسلام کے سیاسی نظام کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ الیکشن اور انتخاب میں مسلمانوں کی شمولیت اور ووٹ دینا یہ بھی آج کے حالات میں ظالم حکومت سے بچنے اور بچانے کے لئے ثواب و عبادت ہی سمجھا جائے گا ۔ اس لئے جو لوگ ان ایام میں جان بوجھ کر ادھر ادھر میں وقت لگاتے ہیں اور ووٹ نہیں دیتے وہ ملت کا نقصان کر رہے ہیں ۔ اس لئے وہ لوگ اپنے روئیے میں تبدیلی لائیں ۔
اس وقت ہم مسلمان جس صورت حال گزر رہے ہیں اس وقت امت میں اتحاد انضام سے قائم نہیں ہوسکتا، بلکہ تقسیم اور حصہ داری سے قائم ہوسکتا ہے یعنی اگر ہم چاہیں کہ سب لوگ ہمارے ساتھ آکر مل جائیں تو یہ بات دوسروں کے لئے ممکن ہے قابل قبول نہ ہو لیکن اگر حلقے تقسیم کر لئے جائیں تو ہوسکتا ہے کہ اس سے سبھوں کو کامیابی کا کوئی حصہ مل جائے ۔
Comments are closed.