Baseerat Online News Portal

اتر پردیش کے بعد اگلا نمبر بہارکا ہے

 

ڈاکٹر سلیم خان

بی جے پی اور نتیش کمار کے تعلقات  پچھلے انتخاب کے بعد سے  کشیدہ چل رہے  ہیں اس لیے  جنتا دل یو کا تیر   کسی بھی وقت کمل کے آر پار ہوسکتا ہے۔ ابھی حال میں بی جے پی بہار کے صدر سنجے جیسوال نے پرکاش سنہا کی  سمراٹ اشوک پر بیان کو لے پرکاش کی سنہا کی آڑ میں نتیش  کمارکو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔اس کے برعکس  بہار کی  بڑی حزب اختلاف جماعت  آر جے ڈی کی طرف سے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو ریاستی مفادات کے معاملات میں  حمایت  کی پیشکش کی جارہی  ہے ۔   پچھلے دنوں  آر جے ڈی ترجمان مرتیونجے تیواری  کی  جے ڈی یو کے سینئر لیڈر اور نتیش کے مقرب اوپیندر کشواہا سے ملاقات کی  جانب بھی ذرائع ابلاغ نےتوجہ نہیں کی۔ یہ خبریں چونکہ  بی جے پی کے خلاف ہیں اس لیے ان سے صرفِ نظر کرنا  گودی میڈیا کی مجبوری ہے  لیکن دیگر لوگوں کا بھی اس کی جانب دھیان نہ دینا حیرت انگیز ہے۔  فی الحال میڈیا کا المیہ یہ ہے کہ  وہ انہیں موضوعات کو زیر بحث لاتا ہے جو بی جے پی آئی ٹی سیل کی جانب سے اچھالے جاتے ہیں۔ اپنے طور سے کوئی بیانیہ مرتب کرکے دوسروں کو اس پر گفتگو کے لیے مجبور کرنے کا کام  ہی کم ہوتا ہے۔

  آر جے ڈی رہنما  مرتیونجے تیواری پچھلے ہفتہ اچانک اوپیندر کشواہا کے پٹنہ واقع رہائش گاہ  پہنچے  اور وہاں دونوں لیڈروں کے درمیان طویل گفتگو ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد جے ڈی یو لیڈر اوپیندر کشواہا کا  توکوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے، لیکن تیواری اسے ذاتی ملاقات بتا دیا ۔ مرتیونجے تیواری  کا بیان شکوک و شبہات کو جنم دینے والا ہے کیونکہ ایک طرف تو   وہ  نئے سال کے موقع پر کشواہا  کو مبارکباد دینے کی بات کرتے ہیں مگر ساتھ ہی سیاسی گفتگو کو فطر ی قرار د یتے ہیں ۔ آگے چل کر تیواری جی نے جوکہا اس سے بلی تھیلے سے باہر آگئی۔  انھوں نے ذات پر مبنی مردم شماری کرائے جانے کےموقف کا شکریہ  ادا کرکے اس دراڑ کا ذکر کردیا جو بی جے پی اور جنتا دل یو  کے درمیان پڑی ہوئی ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے کہ جس کے سہارےوہ پھر سے جے ڈی یو کی حمایت کا بہانہ  نکال  سکتے ہیں۔  تیواری کے مطابق  تیجسوی یادو کا واضح پیغام ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری کی خاطر ہرکسی  کا استقبال کیا جائے گا۔

اس معاملے میں آر جے ڈی نہ صرف ساتھ لینے بلکہ تعاون کرنے کی خاطر بھی تیار ہے۔ ابھی حال میں  آر جے ڈی کے ریاستی صدر جگدانند سنگھ نے کہا تھا کہ ذات پر مبنی مردم شماری پر نتیش کمار کے ساتھ آر جے ڈی کھڑی رہے گی۔ انہوں نے ایسا کرنے کا جواز  یوں پیش کیا تھا  کہ  نتیش کی معاون پارٹی یعنی بی جے پی  مردم شماری پر الگ رائے رکھتی ہے۔ جگدانند سنگھ نے  وزیر  اعلیٰ نتیش کمار کو اس  پالیسی کی مخالفت  کرنے والوں کو  ہٹا دینے کا مشورہ دیا کیونکہ  وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے یہ ان کے اختیار میں  ہے۔ نتیش کمار اگر مردم شماری کے   معاملے میں بی جے پی سے پنگا لیں گے تو وظاہر ہے وہ حمایت واپس لے کر صدر راج نافذ کردے گی اور اس  صورت میں  وزیر اعلیٰ  کو اپنا اقتدار بچائے رکھنے کی خاطرآر جے ڈی کی حمایت لازمی ہوجائے گی۔ اس تناظر میں جگدانند کی یہ یقین دہانی بہت بامعنی ہوجاتی ہے کہ   بہا ر کے مفاد کی بات جہاں بھی ہوگی وہاں ان کی پارٹی نتیش کے ساتھ کھڑی رہے گی۔ بہر حال، آر جے ڈی ترجمان اور جنتا دل یو کے درمیان ہونے والی ان ملاقاتوں اور بیانات کو  محض اتفاق کہہ کر نظر انداز کردینا  سیاسی بصیرت کے خلاف ہے  کیونکہ   مرتیونجے تیواری تو کھرماس  یعنی 14 جنوری کے بعد بہار کی سیاست میں ’کھیلا ہونا‘  طے ہے کا اعلان  کرچکے ہیں۔

آر جے ڈی کے قومی نائب صدر شیوانند تیواری نے  آئی اے این ایس سے  کھل کر  اس بات کا اعتراف کرلیا   کہ جو پہلے پسِ  پردہ ہوا کرتی تھیں۔ انہوں نے کہا ’’نتیش کمار اگر  بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر چلے آئیں تونجی طور پر انھیں خوشی ہوگی ‘‘۔ شیوانند کے مطابق  اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ تیجسوی یادو نے انھیں ایوان کے باہر اور  کے اندرحمایت کرنے کی  یقین دہانی کرائی ہے۔ ذات پر مبنی مردم شماری کی بابت تیواری کاخیال ہے کہ  یہ کوئی نیا مطالبہ   نہیں ہے۔ ماضی میں لالو پرساد، شرد یادو اور ملائم سنگھ یادو بھی اسے اٹھاتے رہے ہیں۔اسی زمانے سے نتیش کمار اس مردم شماری  کے  حامی ہواکرتے تھے  ۔  وہ آج بھی مختلف مو اقع پر ذات پر مبنی مردم شماری  کا ملک کے مفاد میں ہوناتسلیم کر چکے ہیں ۔ اسی لیے بہار کے کل جماعتی نمائندہ وفد کے ساتھ  انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔ اب اگر وہ بی جے پی کی ناراضی کے سبب ایسا نہیں کر پاتے ہیں تو یہ افسوسناک ہے۔

ان سیاسی قیاس آرائیوں کے درمیان  آر جے ڈی رکن اسمبلی بھائی ویریندر نے تو یہاں  کہہ دیا کہ بہار این ڈی اے میں کھیلا ہوچکا  ہے اور تیجسوی ہی 15 اگست کو گاندھی میدان میں پرچم لہرائیں گےحالانکہ پچھلے سال بھی اس طرح کی پیشنگوئی کی گئی تھی جو غلط ثابت ہوئی  ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ماہِ مارچ میں جب   اوپیندر کشواہا آر ایل ایس پی کو جنتا دل یو میں ضم کرنے کی تیاری کر رہے تھے تو  اس سے قبل پارٹی کے ریاستی صدر ویریندر کشواہا اور جنرل سکریٹری نرمل کشواہا سمیت بیشتر پارٹی لیڈران آر جے ڈی میں شامل ہو گئے۔  اس طرح گویا اوپیندر کشواہا کو چھوڑ کر تمام عہدیداران نے پوری پارٹی کو آر جے ڈی میں ضم کر دیا اور   تیجسوی یادو نے بذاتِ خود پٹنہ میں ان کاا ستقبال کیا۔ اس موقع پر تیجسوی یادو نے  طنز کرتے ہوئےکہا تھا  کہ آر ایل ایس پی میں اب صرف سابق مرکزی وزیر اوپیندر کشواہا بچ گئے ہیں کیونکہ  بہار  کے علاوہ  جھارکھنڈ آر ایل ایس پی کے ریاستی صدر نے بھی آر جے ڈی کی رکنیت اختیار کرلی ہے۔   تیجسوی کا خیال تھا  ان   کے آنے سے  آر جے ڈی مضبوط ہوگی لیکن  بعد میں  ہونے والی ضمنی انتخاب میں اس کا فائدہ نہیں نظر آیا۔

بہار کی سیاست میں بی جے پی کے سشیل مودی  سمیت  سارے بڑے رہنما  جئے پرکاش نارائن کی تحریک سے نکلے ہیں ۔ یہ سب جنتا پارٹی میں ایک ساتھ تھے لیکن سشیل  مودی   بی جے پی میں شامل ہوگئے ۔ ان کے علاوہ باقی سب جنتا دل  میں بھی تھے ۔ لالو نے اس سے الگ ہوکر آر جے ڈی اور نتیش نے  جارج فرنانڈیس کے ساتھ   سمتا پارٹی بنائی ۔ رام ولاس پاسوان نے  لوک جن شکتی پارٹی بنالی۔ اس طرح  شرد یادو کے پاس  جنتا دل بچ گئی جس کو انہوں نے سمتا میں ضم کرکے جنتادل (یو) کا نام دے دیا۔    پاسوان کے علاوہ یہ سارے پسماندہ ذاتوں سے آتے ہیں کوئی یادو ہے تو کوئی کرمی اور کیوری ہے۔ لالو کی بی جے پی دشمنی کے سبب زیادہ تر مسلمان ان کے ساتھ رہے۔  اس تقسیم  در تقسیم کا فائدہ اٹھا کر  بی جے پی نے بہار میں اپنے قدم جمالیے اور ایل جے پی کی مدد سے جے ڈی یو کو کمزور کردیا۔   آر جے ڈی کے علاوہ یہ سب حسبِ سہولت اقتدار کی خاطر این ڈی اے اور یو پی اے میں گردش کرتے رہے۔ 

اوپیندرکشواہا  نے  نتیش کمار کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے آر ایل ایس پی  تشکیل  دی تھی۔  گاؤں گاؤں جا کر پارٹی کارکنان کو اس کا  حلف دلوایا تھا، لیکن پھر  ان عزائم کوپس پشت ڈال  کرانہوں نے نتیش کمار کے ساتھ جانے کا فیصلہ کرلیا ۔ اس کے خلاف  ویریندر کشواہا جیسے لوگوں  نے تیجسوی یادو کی قیادت میں نتیش کمار کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے کمر کس لی۔  ایک زمانے میں اوپیندرکشواہا کہا کرتے تھے کہ اگر نتیش کمار جیسا دوست ہو تو دشمن کی ضرورت نہیں پڑتی ہے اب  وہ دونوں دوست بن کر تیجسوی کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ ابن الوقتی سیاست کا یہ بہت بڑا نمونہ ہے۔ ان سب  میں تو خیر کوئی نظریاتی اختلاف نہیں ہے لیکن    مہاراشٹر  میں تو شیوسینا جیسی کٹر ہندوتواوادی نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر کانگریس کا ہاتھ تھام لیا اور اس میں این سی پی گھڑی باندھ لی ۔ جمہوری سیاست میں اقتدار کی خاطر اگر یہ سب ہوسکتا ہے تو بہار میں کمل خزاں رسیدہ کیوں نہیں ہوسکتا؟

بہار کی سیاست میں  یہ الٹ پھیر نیا نہیں ہے۔ نتیش کمار کا این ڈی اے سے نکل کر آر جے ڈی کے ساتھ انتخاب میں کامیابی درج کرانا اور پھر  بی جے پی کا کمل تھام لینا کسے یاد نہیں؟   2014انتخاب سے ایک سال قبل جو کچھ نتیش کمار نے کیا وہی کام   2019میں قومی انتخاب سے ایک سال پہلے اوپیندر کشواہا نے دوہرایا۔ انہوں  نے مرکزی وزارت سمیت  این ڈی اے  کو چھوڑ کر  آرجے ڈی سے اتحاد کرلیا ۔ اس وقت پٹنہ میں  ایک تقریب کے دوران اوپیندر کشواہا نے کہا تھا کہ اگر، ’’یدوونشی (یادو) کا دودھ اور کش ونشی (کوری) کا چاول مل جائے تو کھیر اچھی ہوگی اور اس ذائقہ دارپکوان  کو بننے سے کوئی روک نہیں سکتا۔‘‘ اس کے جواب میں  تیجسوی یادو نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ٹویٹ کیاتھا کہ ، ’’بلا شبہ ذائقہ دار اور غذائیت کے پُر کھیر محنت کش لوگوں کی ضرورت ہے۔‘‘ بعید نہیں کہ اس مرتبہ دودھ اور کھیر میں جے ڈی یو کے شکر کی مٹھاس بھی شامل ہوجائے۔

جنتا دل یو کےبعد  بہارکے اندر برسراقتدار این ڈی اے میں شامل وکاس شیل انسان پارٹی بھی یوپی انتخاب میں  بی جے پی کےخلاف لڑ رہی  ہے۔وی آئی پی سربراہ مکیش سہنی نے حال میں  کہا تھا کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کامیابی کے ساتھ بہار حکومت چلا رہے ہیں اور ہم لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے تیجسوی یادو کو چھوٹا بھائی بتاتے ہوئے کہا تھا کہ عام اتفاق بن جائے گا تو ہم ساتھ میں سیاست کریں گے۔ اس کے بعد آر جے ڈی ترجمان مرتیونجے تیواری  نے اچانک وی آئی پی چیف اور بہار کے وزیر برائے ماہی و مویشی پروری مکیش سہنی کی سرکاری رہائش پر ملاقات کی جو تقریباً ایک گھنٹے تک چلی ۔ ایسے میں  طرح طرح کی قیاس آرائیوں کا ہونا فطری امر ہے۔ اس صورتحال میں بی جے پی کی رعونت کا یہ عالم ہے کہ اس کے رکن پارلیمان اجے نشاد نے کہہ دیا کہ انھیں روکا کس نے ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ  بی جے پی اگر اترپردیش انتخاب ہار جائے تو آئندہ پارلیمانی انتخاب میں اس کی شکست تقریباً یقینی ہوجائے گی مگر اس سے قبل  وہ بہار جیسی کئی ریاستوں   میں وہ   اقتدار سے بے دخل ہوسکتی ہے۔بی جےپی سے بھاگنے والے رہنماوں اور  حلیف جماعتوں نے اس کی جو حالت بنادی ہے اس  کو دیکھ کر غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے؎

ہر قدم دورئ منزل ہے نمایاں مجھ سے                                          میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے

Comments are closed.