ساورکر کی گنگا اور نیتا جی  کاجمنا،بول مودی بول  سنگم ہوگا کہ نہیں  ؟

 

ڈاکٹر سلیم خان

نیتاجی سبھاش چندر بوس کی 125ویں  سالگرہ بھی نزاع کاموضوع بن گئی ہے۔بی جے پی کو   سردار ولبھ بھائی پٹیل تو خوب یاد آتے رہے لیکن سبھاش چندر بوس کی یاد کم ہی آتی تھی حالانکہ یہ دونوں کانگریسی  سنگھ کو ملک و قوم کے لیے نقصان دہ سمجھتے تھے۔ سردار پٹیل کا تعلق چونکہ سنگھ کے گڑھ وسطی   ہندوستان سے تھااورا نہیں  پنڈت  نہرو کا دشمن بناکر پیش کرنا قدرے آسان تھا ۔ سردار  چونکہ گجراتی تھے اس لیے مودی جی  کو اپنی سیاست چمکانے میں ان سے  سہولت ملتی تھی۔ مغربی بنگال میں چونکہ بی جے پی سیاسی حاشیے پر تھی اس لیے نیتاجی کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی تھی لیکن 2019کے قومی انتخابات میں جب ممتا بنرجی نے کمیونسٹ اورکانگریس پارٹیوں کا مکمل صفایا کردیا تو اس خلاء کو بی جے پی نے پورا کرکے زبردست کامیابی درج کرائی۔  اس  طرح  2021کے صوبائی انتخابات میں جب  مغربی بنگال کے اندرکمل کے کھلنے امکان پیدا ہوا توبی جے پی کے  نزدیک  گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور اور نیتا جی سبھاش چندر بوس کی اہمیت بڑھ گئی۔ وزیر اعظم  کے لیے اپنی داڑھی منڈوا کر سبھاش چندر بوس بننا مشکل تھا اس لیے وہ  داڑھی  بڑھا کر رابندر ناتھ ٹیگور بن گئے مگریہ فریب کاری  کام  نہیں آئی ۔    

 سبھاش چندر بوس کے 125ویں یوم پیدائش  کی مناسبت سے  ممتا بنرجی نے آزاد ہند فوج کے مرکزی موضوع پر یوم جمہوریہ کی جھانکی  بنوائی ۔ مرکزی حکومت نے ممتا کی رقابت میں اسے پریڈ میں شامل کرنے سے انکار کردیا ۔   ممتا  نے اس کو نہ صرف مغربی بنگال بلکہ نیتا جی کی توہین قرار دے کر بی جے پی کو گھیرنا شروع کردیا۔  بی جے پی  نے  اپنے احساسِ جرم کو چھپانےاور نقصان کی  بھرپائی کےلیے بڑے زور و شور سے  سبھاش چندر بوس کی سالگرہ منانے کا فیصلہ  کیا  ۔ اس موقع پر  صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے  ٹوئیٹ  کیا کہ  آزاد ہندوستان  کے  پختہ عزم کی تکمیل کے لئے  نیتاجی کےدلیرانہ اقدامات نے انہیں  ایک قومی ہیرو بنادیا۔ ان کے خیالات،نظریات اور قربانی سے ہمیشہ ہر ہندوستانی کو تحریک ملتی رہے گی۔صدر مملکت  نے نیتاجی کے جن خیالات و نظریات کا حوالہ دیا ان کاادراک   ضروری  ہے کیونکہ  انسان  کے ظاہر سے تومجسمہ  بنتا ہے مگر شخصیت  افکارو نظریات  سے بنتی ہے۔  نیتاجی کن  اقدارو نظریات کے حامل تھے اور ان کےساتھ کس نے قربانی دی تھی اور مخالف  کون تھا ؟یہ جاننا بھی ضروری ہے۔

  نیتاجی سبھاش چندربوس کامجسمہ نصب کرکے اپنی سیاست چمکانے والے لوگ جن گن من کے بجائے وندے ماترم پر اصرار  کرتے ہیںمگر نہیں جانتے  کہ  آزاد ہند فوج  نے قومی ترانے کے طور جن گن من کے بھی  آسان ہندوستانی ترجمہ کوا پنایا تھا۔ اس میں  ہندی اور اردو دونوں زبانوں کے الفاظ تھے۔  آزاد ہند فوج کا نصب العین اردو زبان کےتین الفاظ ’اعتماد‘، ’اتفاق ‘اور ’قربانی ‘ میں بیان کیا جاتا تھا۔  نیتاجی نے ٹیپو سلطان کے  نشان چیتے کو اپنی فوج کے سپاہیوں کے لیے علامت کے طورپر اپنایا تھا۔ اس کے برعکس نیتاجی کی تعریف و توصیف کرنے والے بی جے پی رہنما اردو کے ساتھ ٹیپوسلطان کے بھی دشمن بنے ہوے ہیں۔سنگھ پریوار کے لیے گاندھی جی کی مخالفت آسان تھی کیونکہ وہ امن و آشتی اور یہ جنگ و جدال کی بات کرتے تھے۔ گاندھی انگریزوں سے گفت و شنید میں یقین رکھتے تھے مگر سنگھ ہٹلر اور مسولینی کو اپنا نمونہ مانتا تھا لیکن نیتا جی تو ہٹلر کی مدد سے انگریزوں کو بھگانا  چاہتے تھے اس کے باوجود سنگھ یا ہندو مہا سبھا نے ان کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟

  اس سوال کا جواب  سبھاش چندر بوس  کی اس تحریر میں ملتا ہے کہ ،’’ جناب جناح برطانیہ کی مدد سے پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنا چاہتے ہیں۔ کانگریس کے ساتھ مشترکہ جنگ آزادی ان کو متوجہ نہیں کرتی ۔  عالمی صورتحال سے بے خبر جناب ساورکرہندووں کو برطانوی  فوج میں شامل کرکے فوجی تربیت دینا چاہتے ہیں۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسلم لیگ اور ہندومہاسبھا سے کوئی توقع نہیں ہے‘‘۔  معلوم ہوا کہ انگریزوں کے ساتھ ہندوتوا نوازوں  کی قربت نے  انہیں   کشمکش کےدوران نیتا جی   کا ساتھ دینے سے روک دیا تھا مگر اب سیاسی ملائی کھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔    دن رات جناح کو برابھلا کہہ کر ساورکر کی تعریف کرنے والوں کو نہیں معلوم کہ سبھاش چندر بوس کے نزدیک ان دونوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اس سے آگے بڑھ کر نیتاجی نے یہ بھی لکھاکہ :’’فرقہ واریت پوری طرح برہنہ ہوکر اپنا سر ابھار چکی ہے۰۰۰۔  یہاں تک کہ مظلوم ، غریب اور جاہل بھی آزادی چاہتے ہیں۔

نیتاجی آگے لکھتے ہیں،’’ہم ہندوستان میں ہندو اکثریت  کےہندوراج کی صدا سن رہے ہیں۔ یہ سب بے کار خیالات ہیں۔ کیا فرقہ پرست تنظیموں نے محنت کشوں کا کوئی مسئلہ حل کیاہے؟  کیا ان تنظیموں کے پاس بیروزگاری اور غربت  جیسے مسائل کا کوئی حل ہے؟ ۰۰۰ساورکر اور ہندو مہاسبھا کے مسلم مخالف پروپگنڈا کے نظریات عملاً برطانیہ کے ساتھ مکمل  ساز باز کے مترادف ہیں ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ غربت اور بیروزگاری کا  حل نہ ساورکر کے پاس تھا اور نہ مودی کےپاس ہے۔  وزیر   اعظم ملک میں ایک ہزار سال قدیم غلامی کی بات کرکے جو نفرت پھیلارہے ہیں اس بابت بوس نے کہا تھا:’’ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ انگریزوں سے قبل ملک میں رائج سیاسی نظام کو مسلم دور نہیں کہا جاسکتا کیونکہ  دہلی کا مغلیہ دور ہو یا بنگال کے مسلمان بادشاہ ، دونوں  کے تحت   ہندو اور مسلمان مل کرسارا انتظامیہ چلاتے تھے۔   بہت سارے کابینی وزراء اور سپہ سالار اعظم ہندو تھے۔  نواب سراج الدولہ کے جس سپہ سالار نے انگریزوں کو پلاسی کی  جنگ میں شکست دی  وہ ہندو تھا۔

   نیتاجی کے ساتھ بھی   جرمنی سے جاپان تک تین ماہ طویل آبدوز کا سفر کرنے والے واحد ہندوستانی عابد حسن سفرانی مسلمان تھے۔وہ ان کے سیکرٹری اور ترجمان بھی مقررہوئے اورجئے ہند کا مشہور نعرہ دیا۔  کرنل حبیب الرحمان  نے آزاد ہند فوج کی  برما میں  قیادت کی۔وہ  فوج کے نائب سربراہ کے طور پر  آخری پرواز کے دوران نیتا جی کے ساتھ تھے۔میجرمحمد زمان خان قیانی  آزاد ہند فوج کےچیف آف دی جنرل اسٹاف تھے۔ ان کے ڈویژن  میں ، نہرو، آزاد اور گاندھی رجمنٹ توتھیں  لیکن  ساورکریا گولوالکر کے نام سے کوئی رجمنٹ نہیں تھی کیونکہ یہ لوگ انگریزوں کے حاشیہ بردار تھے۔ برما کے محاذ پر فوج کی قیادت قیانی  نے کی تھی۔ اپنی آخری  پرواز سے سنگاپور روانہ ہوتے وقت نیتا جی نےانہیں  کو چیف آف آرمی کا چارج دیا تھا۔  جنرل موہن سنگھ کے ساتھ  آزاد ہند میں بہت سارے مسلمان تھے لیکن کوئی سنگھی نہیں تھا مگر اب  وہی انگریزی باجگذاروں کے پیروکارنیتاجی کے ہولوگرام  کی نقاب کشائی  فرما کراپنی سیاسی روٹیاں سینک رہے ہیں ۔ ان پر فلمیں بناکر  اور بیان بازی کرکے اپنی حب الوطنی ثابت کررہے ہیں ۔

اس موقع پر  بوس خاندان  کے سوگتا بوس نے  انڈیا گیٹ پر نیتا جی کا مجسمہ  کا خیر مقدم کرتے ہوئے  کہا کہ  عظیم اور سچے لوگوں کی میراث کو محفوظ رکھنے کے لیے یادگاروں کی ضرورت ہےنیز  امید ظاہر کی  کہ یہ مجسمہ  بلا تفریق مذہبی یا لسانی یابرادری  تمام ہندوستانیوں کو مساوات کی ترغیب دے گا۔  نیتا جی سبھاش چندربوس  اسی نظریہ کےعلمبردار تھے۔ یوم جمہوریہ کی بابت  سوگتا بوس نے  کہاکہ، ’’نیتا جی اور آزاد ہند فوج پر بنگال کی جھانکی کوپریڈ میں شامل  کرنا چاہیے تھا، یہ نیتا جی کی 125 ویں یوم پیدائش اور آزادی کے 75 سال کا موقع ہے‘‘۔بوس خاندان کے ایک اور رکن چندر کمار بوس نے بھی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اعتراف  کیا کہ ، ’’یہ وہ ہندوستان نہیں ہے جس کا نیتا جی خواب دیکھ رہے تھے، اگر آپ انہیں حقیقی عزت دینا چاہتے ہیں تو آپ کو تقسیم کرنے والی سیاسی چالوں کے خلاف لڑنا ہوگا۔‘‘نیتاجی سبھاش چندر بوس کو اپنا چولہ اڑھانے کی خاطر بی جے پی نے بڑی چالاکی سے  دوسال قبل ان کے پوتے چندر کمار بوس کو ریاستی شاخ  کا نائب صدر نامزد کردیا  لیکن انہوں نے  سی اے اے کے  سوال پر اپنی ہی پارٹی کی بخیہ ادھیڑ دی  تھی۔

 چندر کمار بوس نے ٹویٹ کر کے کہا تھاکہ،’’ اگر سی اے اے کسی مذہب سے منسلک نہیں ہے تو کیوں ہم ہندو، سکھ، بدھ مت، عیسائیوں، پارسیوں اور جین لوگوں پر ہی زور دے رہے ہیں۔کیوں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا جاتا؟ ہمیں سیکولر بننا چاہئے۔اگر مسلمانوں کے ساتھ ان کے ملک میں ظلم و ستم نہیں ہوگا تو وہ نہیں آئیں گے، لہٰذا انہیں ساتھ شامل کرنے میں کوئی نقصان نہیں ہے‘‘۔بوس نے یہ بھی  کہا تھا کہ ہندوستان کا موازنہ  کسی دوسرے ملک سے مت کیجئے کیونکہ یہ ملک تمام مذاہب اورطبقات کے لئے کھلا ہے۔بی جے پی کی میگا ریلی کے بعدبوس کے اس ٹویٹ سے  ان کے بی جے پی چھوڑنے کی قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں تھیں  لیکن  انہوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے  کہاتھاکہ میں بی جے پی نہیں چھوڑ رہا ہوں اگر خاندان میں کچھ غلط ہو رہا ہے تو وہ بتانا میری ذمہ داری ہے لیکن ان کی پارٹی اس اختلاف کو برداشت نہیں کرسکی ۔

صوبائی  نائب صدر  کی حیثیت سے بوس نےوزیر اعظم  مودی اور امیت شاہ سے ملنے کا وقت مانگا توتھا لیکن نہیں   ملا۔اس پر انہوں نے کہاتھامغربی بنگال میں بی جے پی کو جیتنے کاجس قدر موقع  تھا، وہ اس پہل سےمزید کم ہو گیا ہے۔بنگالی لوگ کبھی  سی اےاےکو قبول نہیں کر سکتے۔ ہندوستان کوئی ہندو راشٹر نہیں ہے، اگر آپ اسے ہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں تو آئین کو تبدیل کریں۔ بی جے پی والے اس تنقید کو برداشت نہیں کرسکے اور  انہیں کنارے کردیا گیا۔ اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ بوس نے جس انجام سے خبردار کیا تھا وہ صد فیصد درست ثابت ہوا۔  چندر کماربوس نے سیاسی مفاد پر اپنے دادا کے افکار و نظریات کو ترجیح دے کر   خاندانی وراثت کے ساتھ  انصاف کیا۔ نیتا جی کے   اقدار و نظریات کی اہمیت مجسمہ سازی اور بیان بازی سے بہت زیادہ ہے۔ نیتاجی کا مجسمہ تو ہر کوئی  نصب کرسکتاہے مگر  بوس  اور ساورکر کے نظریاتی دھارے ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔

Comments are closed.