معاشرہ کی اصلاح میں دارالقضاء کا کردار

از: قاضی محمدریاض ارمان قاسمی
نائب قاضی شریعت دارالقضاء ناگپاڑہ ممبئی
8529155535
دو افرادیا دو گروہ آپس میں جھگڑ پڑیں توان کے درمیان صلح کرادینا تیسر ے شخص کی ذمہ داری ہے، قرآن کریم میں صلح کرانے کی تاکید آئی ہے ،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نےصلح کو خیر سے تعبیر فرمایاہے۔وَالصُّلْحُ خَيْرٌ(سورہ نساء:١٢۸)میاں بیوی کے درمیان نزاع پیدا ہو جائے ،تو قرآن کریم نے انھیں حکم دیاہے کہ وہ اولاًاز خودباہمی گفت وشنید کے ذریعہ صلح کرنے کی شش کریں ، اگرخدانخواستہ صلح نہ ہو سکے تو دونوں کے خاندانوں سے دو حَکم متعین کیے جائیں اور وہ دونوں میاں بیوی باتوں کو سن کر صلح کی کوشش کریں ؛تاکہ نکاح کے ذریعہ جو مقدس رشتہ وجود میں آیا ہے ،اس کو بچایا جاسکے۔
ہمارے ملک کے اکثر صوبوں میں مسلمانوں کے آپسی نزاع کو حل کرنے کے لیے دارالقضاء ،اور محاکم شرعیہ کا نظام قائم ہے ، قوم وملت کے دانشوران اور خاندان و معاشرہ کے بااثر افراد اصلاحِ حال کی کوشش کرتے ہیں ، بڑے شہروں میں بہت سارے کاؤنسلنگ سینٹرزبھی قائم ہیں ،حکومتی سطح پرہر چھوٹے بڑے شہروں اورقصبات میں مہیلا منڈل بھی ہوتے ہیں،سرکاری عدالت کے وکلاء بھی اس سلسلہ میں اپنی دلچسپی کا مظاہر ہ کرتے ہیں ،بسا اوقات ائمہ مساجد بھی خانگی معاملات میں صلح کی کوشش کرتے ہیں ،حتی کہ ہماری ملکی عدالتیں بھی آپسی صلح و آشتی کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں ۔
اس وقت ہمارے پیش نظر دارالقضاؤں اور محاکم شرعیہ کے ذریعہ ہونےوالی صلح اور ان کی کارکردگی پیش نظر ہے ، خاندان میں اختلاف ہو جائے ،چاہے وہ میاں بیوی کا اختلاف ہو، یا بھائی بہنوں کے درمیان حصول ترکہ یا تقسیم وراثت کا اختلاف ہو، یا دو فرد کے درمیان مالیات یعنی قرض ،پراپرٹی، تجارت یا آپسی لین دین کا اختلاف ہو ،غرض کہ کسی بھی طرح کااختلاف ہو ،اس کو دارالقضاء سے حل کرنے کی مثبت کوشش کی جاتی ہے ،اس کا طریقہ یہ ہوتاہے کہ سب سے فریق اول اپنا معاملہ قاضی شریعت کے پاس یا محکمہ شرعیہ کے متعینہ افراد کے پاس درخواست کی شکل میں پیش کرتا ہے ،پھر فریق دوم کو اس درخواست کی نقل بھیجی جاتی ہے،اوراس پر لگائے گیے الزامات کی وضاحت طلب کی جاتی ہے ،فریق دوم کی طرف سے وضاحت آجانے کے بعد دونوں فریق کو ایک ساتھ بٹھا کر قاضی محترم اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی روشنی میں معاملہ سے متعلق اصلاحی گفتگو کرتے ہیں ،اور فریقین کا موقف پورے صبر وضبط سےسنتے ہیں ، اور فریقین کو نقطہ ٔاتحاد پر لانے کی کوشش کرتے ہیں ،اگر فریقین کسی ایک بات پر متفق ہو جائیں تو ایک تحریر بنا دی جاتی ہے جس میں فریقین کےگواہان اور قاضی شریعت کے دستخط اور مہر ثبت ہوتے ہیں ۔چنانچہ درج ذیل چندصلح کی چندشکلیں ملاحظہ ہوں:
(الف)صلح مابین زوجین :
معاملہ میاں بیوی کا ہو اور فریقین کسی ایک بات پر متفق ہوں توصلح نامہ بنا دیا جاتا ہے ۔اگر متفق نہ ہوں ،تو ان سے صلح کے تعلق سے ان کی شرطیں معلوم کی جاتی ہیں ،دونوں فریق اپنی شرطوں کو لکھ کر دیتے ہیں ،پھر قاضی صاحب ان پر غور کرتے ہیں اگر وہ شرائط شریعت کے مطابق ہوتی ہیں، تو ان کو صلح کی شقوں میں درج کر دیا جاتا ہے، اگرکوئی شرط غیر شرعی ہو ،تو فریقین سے بات کر کے اس کی وضاحت کی جاتی ہے ،اور فریقین کو ایسی شرطوں سے دستبردار ہو نے کی ہدایت کی جاتی ہے ،اور ان کی مرضی سے متفقہ شرطوں کے ساتھ صلح نامہ بنادیاجاتاہے۔
صلح نامہ کا خلاصہ :۔
میاں بیوی کے تنازعات میں عموما یہ صورت ہو تی ہے کہ وہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں ۔اگر ساتھ رہنا چاہتے ہیں، تو ایسا صلح نامہ بنا یا جاتا ہے، جس میں درج ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق واجبہ کو ادا کریں گے ،کسی بھی طرح کی جسمانی اور ذہنی تکلیف نہیں دیں گے ،گالم گلوچ اور آپسی مارپیٹ سے پرہیز کریں گے ،فریقین ایک دوسرے کے خاندان والوں کا عزت واحترام کریں گے ،اور فریقین کے خاندان والے دونوں کی نجی زندگی میں کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں کریں گے ،بلکہ ازدواجی زندگی کے گذارنے میں اپنا تعاون پیش کریں گے۔
(ج)صلح بذریعہ تحکیم:۔
صلح کی ایک شکل تحکیم کی ہوتی ہے۔جس کا ذکر خود قرآن کریم سورہ نساء کی آیت نمبر(٣٥)میں ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان شقاق یعنی بغض وعداوت پیداہوجائے تو قاضی شریعت فریقین کے قریبی رشتہ داروں میں سےایک یا دولوگوں کو حکم متعین کرتے ہیں،اوران کو صلح کا طریقہ بتاتےہیں ،حکم حضرات میاں بیوی کےدرمیان صلح کی حتٰی الامکان کوشش کرتے ہیں ،چوں کہ خاندان کے لوگوں کا اثر فریقین پر ہوتا ہے، اس لیے فریقین ان کو اپنا ہمدرد خیال کرتے ہیں ،نیز خاندان کے لوگوں سے بہت سے معاملات میں ضرورت پڑتی رہتی ہے، اس لیے ان کی بات کو نظر انداز کرنا عموما مشکل ہوتا ہے۔ لہذا حَکم کے ذریعہ صلح ہونا آسان ہو جاتا ہے ،البتہ خاندان کے لوگ بعض دفعہ اپنی ذمہ داری اداکرنے میں کوتاہی کرتے ہیں ،جس سے بسااوقات صلح ہونے کے بجائے معاملہ اور پیچیدہ ہوجاتاہے۔ حکم جس کے رشتہ دار ہوتے ہیں اس کی طرف داری کرتے ہیں ،یا اس کا لحاظ رکھتے ہیں ،جس سے معاملہ اور الجھ جاتا ہے ،جب کہ حکم کا کام یہ ہے کہ وہ کسی بھی فریق کی طرف دار ی نہ کرے ،بلکہ عدل سے کام لے،جس کی زیادتی اور غلطی ہو، اس کی نشاندہی کی جائے اور اس کو اس کی غلطی سے باز رہنے کی تلقین کی جائے اور اپنے خاندانی اثر ورسوخ کا استعمال کر کے دونوں فریق کو صلح پر آمادہ کریں،صلح پر آمادہ ہونے کی صورت میں صلح نامہ بنایا جاتاہے ۔
(د) علیحدگی بذریعہ خلع:
فریقین نے پہلے سےطے کر رکھا ہو کہ ساتھ نہیں رہنا ہے ،اور قبیلہ و خاندان کے بااثر افراد کی اصلاح حال کی کوشش بار آور نہ ہو سکی ہو،تومیاں بیوی کا معاملہ خلع کے ذریعہ حل کیا جاتا ہے، عام طورپر بیوی مہر یا عدت خرچ معاف کردیتی ہے،اس کے عوض مرد ا س کو خلع دیدیدتاہے۔
میاں بیوی میں علیحدگی خلع کے ذریعہ ہو تو خلع نامہ میں کچھ ایسی شقیں بھی درج کی جاتی ہیں،جن سے فریقین مستقبل میں نکاح کے تعلق سے ایک دوسرے کے شر سے مکمل طور پر محفوظ رہ سکیں ،چوں کہ خلع اور مبارات کی کوکھ سے بہت ساری پریشانیاں جنم لیتی ہیں ،اس لیے بوقت خلع ہی ان کے تدارک کی کوشش کی جاتی ہے ۔مثلا خلع کے وقت سامان جہیز ،زیورات اور مالی لین دین کا مسئلہ سر ابھارتا ہے ،اسی طرح فریقین کی اولاد ہوتو ان کی پرورش اور تعلیم وتعلم کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے ،نیز بچوں کی عمر کے لحاظ سے بھی علیحدگی کا معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے ۔مردسوچتا ہے کہ اگر یہ میری نہ رہی تو کسی جگہ بھی خوش نہ رہ سکے ،لہذا مرد بچوں کو لینے پر بضد ہوتا ہے ،اور کبھی عورت کسی بھی حال میں بچوں کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتی ہے ،اگر ایک فریق بچہ کو اپنے پاس رکھ لے تو دوسرے فریق کو ملاقات اور بات کرنے نہیں دیناچاہتاہے۔حالاں کہ رشتہ نکاح میاں بیوی کا ختم ہوتا ہے ،ماں باپ کا رشتہ بچوں سے ختم نہیں ہوتا ہے ،بچے ہر صورت میں ماں باپ کے ہوتے ہیں ۔قیامت تک اور مابعد قیامت بھی بچہ اپنے ماں باپ ہی کی طرف منسوب ہوں گے ،اس لیے ساتھ ساتھ بچوں کے معاملہ کو بھی حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور شرعی حدود کی پوری رعایت رکھی جاتی ہے ۔
(ہ) علیحدگی بذریعہ مبارات:۔
ملکی حالات کی بناء پرعام طورپر مرد ایک ساتھ نہ رہنے کی صورت میں طلاق دینے سے گریز کرتا ہے ،اور عورت بھی بذات خود خلع لینے سے گریز کرتی ہے ؛تاکہ اس کو دوسری شادی میں دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے ،اور اس پر یہ الزام نہ آئے کہ اس نے ازدواجی زندگی میں عدم برداشت سے کام لیا ،اور علیحدگی لے کر علیحدگی اختیار کر لی۔
ایسی صورت میں فریقین کے معاملہ کو مبارات کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس میں فریقین میں سے ہر ایک دوسرے کو نکاح سے متعلق حقوق سے بری کر دیتا ہے ۔بیوی شوہر کو اس کے حقوق واجبہ مثلا نفقہ، عدت خرچ وغیرہ سے بری کردیتی ہے اورشوہر بیوی کو اس کے حقوق واجبہ مثلااطاعت وفرمانبرداری ، بچوں کی پرورش وغیرہ سے بری کردیتاہے۔برات حقوق کی شرط کے ساتھ ان کے درمیان تفریق ہوجاتی ہے۔
عموما خلع یا مبارات میں فریقین آپسی حسد وبغض اور انتقامی کارروائی کے طور پر اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ خلع یا مبارات کی وجہ لکھی جائے ،تاہم شریعت مطہرہ کا مزاج برائی کو دبانے کا ہے، نہ کے پھیلانے کا؛ لہذا قاضی حضرات علیحدگی کی وجہ کو نہیں لکھتے ہیں ،تاکہ مستقبل میں ہرفریق شر سے محفوظ رہ سکے۔
دارالقضاء میں آئے ہوئے معاملات میں سے نوے پچانوےفیصد معاملات صلح کی مذکورہ شکلوں کے ذریعہ ہی حل ہو جاتے ہیں ،پانچ یا دس فیصد معاملات ہی ایسے ہوتے ہیں ،جن میں صلح نہیں ہو پاتی ہے ۔بہر حال دارالقضاؤں کی یہ بڑی حصول یابی ہے کہ معاشرہ میں پھیلی ہوئی آپسی ناچاقی،بغض وعداوت اور اختلافات کو بڑے ہی حکمت اور آسانی کے ساتھ کم خرچ اور کم وقت میں آپسی رضامندی سےحل کر دیا جاتا ہے،اور مزید بگاڑ پیدا ہونے سےمعاشرہ کو بچالیاجاتاہے۔
Comments are closed.