یوپی الیکشن ؛ مخالفین کے دوستوں سے ہوشیار!

ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
شرجیل امام پر الزامات طے کئے جا چکے ہیں ۔شرجیل کو ۲۰۲۰ میں شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں ہونے والے مظاہروں میں مختلف جگہوں پر بھڑکاؤ بھاشن دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ۔دی پرنٹ کی رپورٹ کے مطابق پولس نے ان پر الزامات عائد کئے ہیں کہ ا نہوں نے اپنی تقاریر کے ذریعہ ایک مخصوص مذہبی گروہ کو ریاست کے نظریات اور قومی کردار کے خلاف کھڑا کرنا چاہا ، نیز ہائی ویز کو بلاک کرنے کے لئے چکا جام ، سرکاری اور نجی پراپرٹی کو نقصان پہچانے، عام آدمی کو ایذا پہنچانے ، غذا ، پانی اور ضروری سرویسس میں خلل اندازی یا انہیں روکنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور اس پر خوش بھی تھے ۔یہ بھی الزام ہے کہ ان کی تقاریر کی وجہ سے جامعیہ ملیہ اسلامیہ اور شمال مغربی دہلی میں تشدد کی وارداتیں ہوئیں ۔ دہلی کی ایک عدالت نے شرجیل امام کی درخواست ضمانت اور اس کیس سے ڈسچارج کئے جانے کی عرضی کو مسترد کرتے ہوئے پولس کے ذریعہ لگائے گئے الزامات کی بنیاد پر ان کے خلاف ملک سے غداری ، غیر قانونی حرکات روک تھام قانون اور لوگوں میں مذہب کی بنیاد پر پھوٹ ڈالنے کی دفعات کے تحت مقدمہ چلانا طے کیا ہے۔ حالانکہ اسی مقدمہ کی ایک کڑی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تقریر کے معاملے میں یوپی میں ان پر دائر کئے گئے دیش دروہ کے مقدمہ میں الٰہ آباد ہائی کورٹ پہلے ہی انہیں یہ کہتے ہوئے ضمانت دے چکی ہے کہ انہوں نے تشدد کے لئے بھڑکایااور نہ ہی کسی کو ہتھیار اٹھانے کے لئے کہا ہے ۔ حالانکہ ملک میں اشتعال انگیز تقاریرکوئی نئی بات نہیں ہیں ۔ پچھلے کچھ سالوں میں تو اتنی اشتعال انگیزتقاریر ہو چکی ہیںجن میں گولی مارو سے لے کر نسل کشی تک کی باتیں ہوئی ہیں لیکن ان اشتعال انگیز تقاریر کے معاملات میں ملک سے غداری کے مقدمات تو کیا کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی شاذ ونادر ہی ہوئی ہے ۔ وجہ یہ رہی کہ اس طرح کی تقاریر مسلمانوں کے خلاف ہوئی ہیں ۔لیکن قانونی کارروائیوں میں مسلم اور غیر مسلم کے نام ہونے والی تفریق اس مضمون کا موضوع نہیں ہے ۔ بلکہ ہم یہاں یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ موجودہ حالات میں انہی لوگوں کے خلاف قانون کارروائیاں ہو رہی ہیں جو برسر اقتدار پارٹی کے خلاف ہیں ۔ بر سر اقتدار پارٹی کو جن کی سیاست سے ، جن کی تحریر و تقریر سے خطرہ لاحق ہے یا جو حکومت کی ہاں میں ہاں نہیں ملا رہے اور مان کر نہیں دے رہے ہیں یا جنہیں سبق سکھانا ہے یا جن کی ہمت توڑنی ہے، پھر چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان ۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ پچھلے کچھ سالوں میںبر سر اقتدار پارٹی کی مخالفت کرنے والے سیاستدانوں، فلمی ستاروں ، سماجی مصلحین ، دانشوروں اور صحافیوں پر مرکزی ایجنسیوں کی کارروائیاں بہت بڑھی ہیں ۔ حال ہی میں یوپی میں بی جے پی کے ایم ایل اے اور کابینی وزیر رہے سوامی پرساد موریہ کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری ہوا ہے یہ وارنٹ ان کے خلاف فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے کے ایک۷ سال پرانے کیس میں جاری کیا گیا ہے ، پچھلے۵ سالوں کے دوران اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی جبکہ وہ بی جے پی کے ممبراور صوبائی کابینہ میں وزیر تھے لیکن جیسے ہی انہوں نے بی جے پی چھوڑی اگلے دن وارنٹ جاری کردیا گیا ۔
مطلب یہ ہے کہ قانون کا استعمال بر سر اقتدار پارٹی کے مخالفین پر خاص طور سے کیا جا رہا ہے ۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مماثل واقعات میں جن لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جارہی ہے یا اس میں ٹال مٹول ہو رہی ہے یا کوئی ڈھیلی ٖڈھالی یا برائے نام کارروائی ہو رہی ہے تواگر وہ لوگ باقائدہ برسر اقتدار پار ٹی میں شامل نہیں ہیں تو اس کے دوست یا اس کے لئے کام کرنے والے اس کے دانستہ یا نا دانستہ آلہء کار ، اس کے ایجنٹ یا کسی نہ کسی طور اس کے لئے فائدہ مند ضرور ہیںپھر چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان ۔ ہمیں مسلمانوں پر خاص نظر رکھنی چاہئے کہ ہم میں کے کون ایسے ہیں جو ہماری ہمدردی کے نام سخت ،جارحانہ بلکہ اشتعال انگیز باتیں کرتے ہیں لیکن ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی ۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ہمارے کونسے سیاسی اور سماجی لیڈران ہیں کہ جو ہر معاملے میں بر سر اقتدار پارٹی کی پرزور مخالفت کرتے ہیں لیکن دیگر مخالفین کی طرح ان کے خلاف ای ڈی یا انکم ٹیکس کی کوئی ریڈ نہیں ہوتی ۔ ایسے لیڈران کو بھی ہم نے انتہائی باریک بینی سے جانچنا چاہئے کہ جنہیں ہر جگہ جانے اور تقاریر و جلسے کرنے کی اجازت مل جاتی ہے خاص طور سے ایسے وقت میں کہ جب دوسروں کو اس طرح کی اجازت نہیں مل رہی ہو۔ ’یوپی میں مسلمان کسے ووٹ دیں ‘کے ضمن میں ہمیں یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ کون ہماری ہمدرد ی و مسیحائی کا ڈھونگ رچا کر دراصل ہمارے مخالفین کے لئے کام کررہا ہے یا کس کی وجہ سے ہمارے مخالفین کا کام آسان ہوا جارہا ہے۔ جو لوگ دانستہ ایسا کررہے ہیں انہیں پہلی فرست میں سیاسی سماجی اور مذہبی ہر سطح پر پوری قوت سے مسترد کردینا منزل کی سمت ہمارا پہلا قدم ہونا چاہئے کہ جب تک یہ لوگ مسترد نہیں کئے جاتے سمجھئے ہم جہاں کے تہاں ہی رہیں گے ہمارا سفر شروع ہی نہیں ہوسکے گا۔ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ہم میں کے کچھ لوگ خلوص نیت کے ساتھ کام کررہے ہوں لیکن اس کی وجہ سے نا دانستہ طور پر ہمارے مخالفین کا فائدہ ہو رہا ہوتو ایسے لوگوں کو مسترد کئے بغیر بھی ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ جن حلقوں میں ہم فیصلہ کن حالت میں ہیں وہاں ان باتوں کا دھیان رکھنا ضروری ہے خاص طور سے ان لوگوں سے تھوڑی بھی غفلت نہیں برتنی چاہئے جو نادانستہ ہی سہی ہمارے ووٹوں کی تقسیم کا باعث ہو سکتے ہوں تاکہ ہماری اکثریت والے علاقوں کی نمائندگی ہمارے مخالفین کے پاس نہ چلی جائے لیکن جن علاقوں میں ہم فیصلہ کن حالت میں نہیں ہیں وہاںان باتوں کا دھیان رکھنا اور بھی زیادہ ضروری ہے تاکہ ہمارا ووٹ متحد طور پر ہمارے کسی منظور نظر کو یا ہمارے کسی مخالف امیدوار یا مخالف پارٹی کے خلاف جائے ۔ یوپی اسمبلی انتخابات میں ہمارا رول نہ صرف وہاں کی نئی حکومت میں ہماری حالت کے متعلق فیصلہ کرے گا بلکہ قومی سیاست کے لئے اپنا رخ متعین کرنے کا سبب بھی بنے گا۔
Comments are closed.