کوبراسانپ اور عصائے آ ہنی

مفتی محمد اشرف قاسمی
مہدپور،اجین،ایم پی

۔۔۔۔میرے مکان کی بناوٹ اورمطالعہ وتحریر کے لیے اوپرسطور میں میری نشست کی تفصیل پیش کرنے کے بعداسی لاک ڈاون کے موقع پرشب میں مطالعہ کے دوران پیش آمدہ ایک واقعہ نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں جس میں اولاً فولادی عصا کی فضلیت ذیل میں پیش ہے:
قرآن مجید میں بڑی وضاحت وصراحت کے ساتھ
عصا اورلوہے کی فضیلت
بیان ہوئی۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے عصا کے فوائد بیان کرتے ہوئے فرمایا:
ولی فیھا ماٰرب اُخریٰ (18) طحہ
اس جملہ سے عصا کے فوائد واہمیت اور فضیلت کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔میں نے اسی آیت کے ذیل میں کہیں پڑھا تھا کہ عصا کے 52/ فائدے ہیں۔ اوراسی آیت کے ذیل میں حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نے تحریر فرمایا کہ:
”مسئلہ: اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہاتھ میں عصا رکھنا سُنتِ انبیاء ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی بھی یہی سُنت تھی اور اس میں بے شمار دینی ودنیوی فوائد ہیں۔ قرطبی“(معارف القرآن ج6 ص74)

قرآن مجید میں لوہے کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

وانزلنا الحدیدَ فیہ بأس شدیدومنافع للناس(25) الحدید

عصا اور فولادکی فضلیت وفوائد حاصل کرنے کے لیے تیمنا وتفائلاً ایک یاڈیرھ انچ دبیز اور تین ساڑھے تین فٹ لمبا لوہے کی پائپ اپنےگھر پرمیں رکھتا ہوں۔ لیکن مکان کی نئی تعمیر کے بعد اس کا انتظام نہیں کرسکا تو عارضی طور پراس کے بجائے ایک سریا دروازے کی عقب میں پھینک دیاتاکہ عصا ولوہے کی کچھ فضیلت وبرکت حاصل ہو تی رہے۔
اس کا فائدہ اور نہ ہونے کی صورت میں نقصان دونوں اس وقت دیکھنے کی ملے جب ایک شب کمرے میں میرے مطالعہ سے اہل خانہ کی نیند میں خلل کا مجھے احساس ہوا تو میں اپنی کرسی ومیز سے اٹھ کر باہر کی لائٹ جلا کردروازے پرکھڑے ہوکر مطالعہ میں مصروف ہوگیا۔ بچے خوابِ خرگوش میں چلے گئے۔جیساکہ بتا جاچکا ہے کہ سامنے ہال والا حصہ اوپن ہے، لیکن اس پر پھرسی(پتھر) بچھے ہوئے ہیں۔ رات کے تقریباً گیارہ بجے جب میں نے تھوڑی دیر کے لیے اپنی نظر کتاب سے ہٹا ئی تو مجھے محسوس ہوا کہ میں دیکھنے میں کچھ غلطی کررہاہوں، مجھے اپنے منظر ومنظورکی صداقت پر تھوڑی دیر تک یقین ہی نہیں ہوا کیوں کہ میرے سامنے مشکل سے ایک دو بالشت کے فاصلے پر ایک کا لا سا کوبرا سانپ پھن پھیلا ئے کھڑا تھا۔ میں نے تھوڑا پیچھے ہو کر دروازے کے عقب سے وہی آہنی عصا اٹھا ناچاہا، لیکن وہاں سے عصا غائب تھا۔اور زیادہ پیچھے جانے کی صورت میں سانپ اندر آسکتا تھا، جہاں میرے بچے فرش پر سوئے ہو ئے تھے، ان کے بستر میں سانپ گھس کرانھیں نقصان پہنچا سکتا تھا۔ میں آ گے نہیں بڑ ھ سکتا تھا کیوں سامنے کوبرا سانپ پھن پھلائے کھڑا تھا۔ اورہاتھ میں کتاب کے علاوہ کوئی دفاعی سامان بھی نہیں تھا، اور بچوں کی حفاظت کے پیش نظر زیادہ پیچھے بھی نہیں جاسکتا ہے تھا۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے میری گھگھی بندھ گئی، جس کی وجہ سے میں آواز بھی نہیں نکال پارہاتھاکہ بچوں آواز دے کرجگادوں۔ مجبوراً میں نے زور زور سے دروازے پر ہاتھ مارنا شروع کیا جس کی آواز سے بچے بیدار ہوگئے تو میں نے اشارہ سے سانپ کے بارے میں بتایا، دروازہ کی آ واز اور بچوں کے بیداری پر سانپ پیچھے مڑ کربڑے آرام سے باہر جاکر کہیں گھاس میں گھس گیا۔
حواس وہمت درست ہونے کے بعداپنے آہنی عصا کے بارے میں بچوں سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ آج ہی بچے کسی کام سے اسے باہر لے گئے تھے پھراسے اندر لانابھول گئے۔
دوسرے دن فجرکے بعد جب چھوٹے بچے گھر پر نورانی قاعدہ، قرآن مجید اور اُردو وغیرہ پڑھنے آئے تو انھو ں نے بتایا کہ دروازے پر کالاسانپ بیٹھاہوا ہے۔ میں نے بچوں سے پوچھا کہ پھر تم اندرکیسے آئے؟ انھوں نے کہاکہ ہم اس کے بغل سے اندر گھس آئے۔بچوں کے اس بیان پر مجھے یقین ہی نہیں آ یا کہ وہ سانپ کے بغل سے میرے مکان میں اندر آ گئے۔ تفریح کرتے ہوئے میں نے ان سے کہا کہ چلو دیکھتے ہیں کہاں سانپ ہے؟ پھر دروازے پر پہنچا توواقعی وہاں کالاسا کوبراسا نپ بیٹھا ہوا تھا۔ سانپ دیکھنے کے بعد بچوں کی ہمت پررشک کے ساتھ اپنی بزدلی پرندامت بھی ہو ئی۔کچھ ہمت جمع کرکے اپنی آہنی عصا سے میں نے اس کا کام تما م کیا۔
*یادداشت لاک ڈاؤن سے۔۔*
بندہ کی تحریریں پڑھنے کے لیے درج ذیل ٹیلی گرام چینل سے سے جڑیں۔

https://t.me/U2cuCarYg0LZ0e2l

کتبہ: محمد اشرف قاسمی
*مہدپور،اجین ایم پی*
25جمادی الثانی 1443ھ،
مطابق 29جنوری2022ء

ashrafgondw@gmail.
com

Comments are closed.