تعمیری فکر اور روشن مستقبل کی بنیاد پر ووٹنگ کی جائے

محمدقاسم ٹانڈؔوی
ویسے تو ملک میں مذہبی شدت پسندی کے بیج بوئے ہوئے طویل عرصہ ہو گیا ہے، مگر جیسے جیسے یہ بیج جمنے کے بعد تناور درخت کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں؛ ویسے ویسے ان درختوں کی شاخیں نفرت و تشدد کے پھلوں سے بوجھل و ثقیل ہوتی جا رہی ہیں، اور ان کی وجہ سے اس وقت پورے ملک کی آب و ہوا انتہائی مخدوش و مکدر نظر آ رہی ہے۔ فرقہ واریت کا ننگا ناچ ناچا ج رہا ہے اور ہر سمت شدت پسندوں کا تانڈو جاری ہے، جدھر نظر اٹھاتے ہیں، اسی سمت جان و مال کے دشمن گھات لگائے آزاد گھوم پھر رہے ہیں، نہ تو انہیں آئین و دستور کی پامالی کا ڈر و خوف ستاتا ہے اور نہ ہی پولیس و تحقیقاتی ایجنسیوں کی کوئی پرواہ ہے؟ وہ پورے جوش و خروش اور کھلی آزادی کے ساتھ اپنی تخریبی سرگرمیاں انجام دینے میں لگے ہیں، جس کی وجہ سے اب عام آدمی کے ساتھ خاص خاص لوگ بھی ان کے ناپاک عزائم اور مکروہ مقاصد کا شکار ہونے لگے ہیں۔ جس کی تازہ ترین مثال صدر مجلس بیرسٹر جناب اسدالدین اویسی صاحب (ممبر آف پارلیمنٹ) پر جان لیوا حملہ ہے۔ جس میں وہ بال بال بچے اور سوائے گاڑی کے نقصان کے کوئی بڑا حادثہ پیش نہیں آیا۔ اس حملے کی آواز سڑک سے لےکر ایوان تک میں سنی گئی اور صدر مجلس سمیت دیگر کئی ارکان پارلیمنٹ کی طرف مذمت کی گئی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا۔
یہ حملہ آور کون تھے، کس کی شہہ پر کام کر رہے تھے، اور وہ ایسا کرکے کیا چاہتے تھے؛ اس بابت یہاں زیادہ خلاصہ کرنے کی ضرورت نہیں، اس لئے کہ یوپی سمیت ملک کی پانچ ریاستوں میں انتخابات کا موسم چل رہا ہے اور انتخابی مہم شباب پر ہے، جہاں ایک طرف مقامی و غیر مقامی پارٹیاں میدان میں ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی پوزیشن مستحکم کرنے اور اپنی سیاسی زمین زیادہ سے زیادہ ہموار کرنے کی جستجو میں ہے تو وہیں دوسری طرف پانچوں ریاستوں میں حکمراں جماعتیں اپنا اپنا قبضہ بر قرار رکھنے کی کوشش میں لگی ہیں۔ ان سب میں سب سے زیادہ بھیانک صورتحال اور تشویشناک خبریں صوبہ یوپی سے موصول ہو رہی ہیں، جہاں فرقہ پرستوں کی طرف سے کھلے عام آئین و دستور کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، جہاں حکومت و اقتدار کی خاطر قومی سالمیت کو نقصان اور آپسی بھائی چارہ کو منتشر کیا جا رہا ہے، فاشسٹ طاقتیں ہر ممکن کوشش میں لگی ہیں کہ کسی بھی طرح ووٹ کو منتشر کر دیا جائے اور اقتدار ہڑپ لیا جائے۔ اس لئے کہ انہیں معلوم ہے کہ یہی وہ صوبہ ہے جہاں سے دہلی کے واسطے سفر طے ہوتا ہے اور اسی صوبہ کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لینے کے بعد دہلی کی منزل عبور کی جاسکتی ہے؛ اس لئے اگر دہلی پر اپنا قبضہ بر قرار رکھنا یا وہاں پر اپنے پیر جمانے ہیں تو پہلے یوپی کا معرکہ سر کرو، تبھی دہلی کی باگ ڈور ہاتھوں میں آئےگی۔
خیر! اس وقت ہر پارٹی اپنی ہمت و طاقت اور بساط سے زیادہ میدان سیاست میں کمر بستہ ہے، جس کے اعلی و ادنی عہدے یافتہ لیڈران اور کارکن گاؤں گاؤں جاکر انتخابی تشہیر کر ماحول کو اپنے اپنے حق میں سازگار و ہموار کرنے میں رات و دن ایک کئے ہوئے ہیں۔ انتخاب کی تشہیر کرنے والوں میں وہ نمائندے بھی ہیں، جنہیں عوام نے گزشتہ الیکشن میں بڑی امیدوں کے ساتھ قابل اطمینان جان کر ایوان میں پہنچایا تھا؛ لیکن وہ عوام کی امیدوں پر کھرا نہیں اترے اور یوں ہی پانچ سال پورے کرکے گلی کوچوں میں ووٹ کےلئے چکر کاٹ رہے ہیں، اور وہ لیڈران بھی میدان سیاست میں موجود ہیں، جو پہلی مرتبہ عوام سے نعرے وعدے کرکے ایوان پہنچنے کے خواہش مند ہیں، اور میدان سیاست میں ایسے امیدوار بھی قسمت آزمائی کر رہے ہیں، جن کو عوام نے کئی کئی مرتبہ مسترد و ناکار دیا ہے؛ مگر مورچے پر پھر بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔
لیکن ان سب پہلوؤں میں سب سے زیادہ خطرناک پہلو اور تشویشناک بات یہ ہےکہ: اقتدار و کرسی کے لالچی اور ذاتی مفادات کے بھوکے بھیڑئے اپنی متعصبانہ ذہنیت میں سر تا پیر شرابور ہیں، جن کی نفرت بھری سیاست اس ملک کے چپہ چپہ کو انسانوں کے لہو سے سرخ کر دینے کے فراق میں ہے، ان کے مقاصد و پلانننگ میں اس ملک کے تانے بانے کو منتشر کرنا، ملک کی سالمیت کو نقصان اور اتحاد و اتفاق کے خیمے کو نذر آتش کر دینا داخل و شامل ہے۔ ان کا چھوڑا ہوا جرگہ اور تربیت یافتہ یہ نفرتی ٹولہ شہر در شہر اپنی نفرتی مہم میں مشغول ہے، جو کوئی بھی موقع اور کوئی بھی لمحہ ایسا نہیں گزرنے دیتا جو ان کے فسادی ذہن اور تخریبی عناصر کی شرانگیزی اور فتنہ پروری سے مامون ہو اور ان لمحات کے متعلق یقینی طور پر یہ کہا جاسکے کہ: شدت پسند لابی اور انسانی دشمن تنظیموں کی پہنچ اور رسائی یہاں تک نہیں ہے۔ کیوں کہ ان کے پست ذہن راہنماؤں اور بداطوار آقاؤں کی طرف سے مذہب کی آڑ میں فرقہ پرستی کی ایسی افیم چٹا دی گئی ہے، جس نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا کر رکھ دیا ہے، دوست کو دوست سے جدا کر دیا ہے اور ایک پڑوسی کو دوسرے پڑوسی کی خبرگیری اور حاجت روائی سے نہ صرف محروم کر دیا ہے؛ بلکہ نفرت و عداوت میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والا ماحول میں معاشرے کو ڈھال دیا ہے۔ جہاں آپس میں پیار و محبت کے گیت گانے والے، اب نفرت و عداوت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، ان کی طرف سے ہندو مسلم کا ایسا کارڈ فالو کیا گیا ہے؛ جس نے تفریق و تقسیم کی خلیج کو مزید گہرا اور تباہ کن بنا کر رکھ دیا ہے اور ایک ہی محلے بستی میں رہنے والے دو الگ الگ مذاہب کے ماننے والے اور جداگانہ نظریات کے حامل لوگوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا ہے۔ لہذا نفرتی ماحول کی یہ کسک اور عداوتی دور کی موجودہ صورتحال حالیہ انتخابات کے موسم اور اگلے پانچ سالہ ٹرم میں اقتدار میں بنے رہنے والوں کے تئیں اپنے رائے دہندگان کو بہت کچھ سوچنے سمجھنے اور مل بیٹھ کر کوئی جامع پالیسی مرتب کرنے کی دعوت دے رہی ہے، تاکہ باہمی پیار و محبت کے ساتھ گزارنے اور ملک و ریاست کے ماحول کو پُرامن و پرسکون بنائے رکھنے میں رائے دہندگان کی یہ خاص توجہات اور اس وقت کی متفقہ رائے ہم سب کو حالات کے بدترین دور میں لے جانے اور سیاسی رفاقتوں کے بھینٹ چڑھانے سے بچا سکے۔ اس لئے حالات تمام سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں اور ان کے خفیہ ارادوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے باشعور ووٹران کو دعوت فکر و عمل دے رہے ہیں، تاکہ ہمارا یہ آئینی حق اور باہمی فیصلہ ریاست کے روشن مستقبل کا ظامن اور قوم کے حق میں مثبت و تعمیری فکر اور حساس مند جذبہ رکھنے کا امین و داعی ثابت ہو۔
Comments are closed.