حملہ اُویسی پر نہیں ہوا!

؎زمینِ کوچۂ قاتل ہے اب زمین تمام
ڈاکٹرراحتؔ مظاہری،قاسمی

لوگوں کاخیال ہے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کےسربراہ جن کو ان کی پارٹی میں نقیبِ ملّت کے لقب سے یاد کیاجاتاہے، خبرہے کہ موصوف پر ’ کِٹھور ،ضلع میرٹھ سے اپنی الیکشنی مہم سے واپسی پر قتچھجارسی(ڈاسنہ،غازی آباد) ٹول ٹیکس پرایک بزدل فرقہ پرست نے جان لیواحملہ کیا۔
لیکن میں اس افسانہ کی بالکل کھلے طورپر مخالفت کرتاہوںکہ یہ بزدلانہ قاتلانہ حملہ اویسی کی گاڑی، ان کی ذات یاان کے اوپرہوا، میراتویہ مانناہے کہ جیسے 30 جنوری1948 کوناتھورام گوڈسے نے اپنی ریوالورسے صرف راشٹرپِتامہاتماگاندھی کے سوکھے ڈھانچے پرحملہ نہیں کیاتھابلکہ ہندستان کے سیکولرزم، یہاںکے آپسی بھائی چارہ، ایکتااوراکھنڈتاکاقتل کیا تھا اسی طرح 3فروری2022 کوبھی چھجارسی ٹول ٹیکس پریہ حملہ پھراسی ہندستانی ساجھاوراثت پرہے،اسے آپ یوںبھی کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح 6 دسمبر1992 کوبابری مسجد کی شکل میںصرف ایک مسجد کی شہادت نہیں بلکہ ہندستانی سیکولرزم اوراس کی پیشانی کوداغدارکیاتھا جس کی پوری دنیامیں مذمتیں کی گئیں، اس حادثہ پرمادروطن ہندستان کے ایک بوڑھے، ضعیف ،ناتواں شاعر جن کو عام اہل علم ’بچوںکےشاعر ،کے نام سے زیادہ جانتے ہیں ، میری مرادحضرت ابولمجاہد زاہدؔ (مرحوم) ہیں ، انھوںنے اس دلسوز سانحہ کو الفاظ کا جوجامہ عطاکیاتھاوہ قابل یادداشت اورلائق تحسین ہے۔
معبدِآسماںوقارگرا/ہندکاتاج افتخارگرا/عدلیہ، انتظامیہ، قانون/تن سے ہرایک کے اِزار گرا/سازشِ باغباںسے اے زاہدؔ/آگ میں خیمۂ بہار گرا۔
واضح ہوکہ میں کسی سیاسی پارٹی کا نہ توممبرہوںاورنہ کوئی کارکن ۔ لیکن میراماننایہ ہے کہ فی زمانہ اویسی صاحب کے سوا فرقہ پرستوںکے خلاف ہندستانی مسلمانوں ملک کےے لیڈروں میں کسی کے پاس بھی وہ دم خم اورہمت نہیںہے جوکہ سڑکوں سے لےکر ایون حکومت اور پارلیمنٹ تک کوئی مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کی بات کر سکے، جیساکہ آپ نے ابھی کسی سڑک چھاپ آدمی نہیں بلکہ اسی عظیم ہندستانی پارلیمنٹ کے کےایک باوقار اورچاربار کے ممبربیرسٹر اسدالدین اویسی پر قاتلانہ حملہ کے خلاف اس کی مذمت میں مسلمانوںکی سب سے بڑی، خیرخواہ کانگریس پارٹی کے کسی چھوٹے، بڑے لیڈرسونیاگاندھی، راہل ، پرینکا کوتوچھوڑئیے ہمارے آپ کے جناب سلمان خورشید،میم افضل،اورجذباتی وجوشیلے شاعر عمران پرتاپ گڈھی وغیرہ کی زبانیں بھی گونگی، تالالگی دیکھی ہیں،اسی طرح ہم میں سے کچھ مسلمانوںکےآقا ان کے ہتیشی،پارلیمینٹ کے اندر بی جے پی کے خلاف تقریرکرتے اویسی کو ٹوکنے والے بی جے پی کے وکیل، ٹیم ملائم سنگھ اورہر نوجوان مسلم سپائی کے بھائی اکھلیش’بھیّا، کی بھی سٹّی، پٹّی گم ہے، مایاوتی مطلب پرست سے تو کوئی توقع ہی ہے فضول ہے ، مگرآپ کسی بھول میں نہ ہوںتو بی جے پی لیڈران ، وزیراعظم اور وزیر داخلہ کانام تو مذمت کے تعلق سے اپنے دماغ میں بھی نہ لائیں کیونکہ حملہ آورآتنکی ذہنی طورپر انھی کاچیلاہے۔
سوال یہ ہے کہ اویسی کاایساکونساگناہ ہے، جس کی پاداش میں ان پر گولیاں داغنے کی ضروت پیش آگئی؟
توآپ جانتے ہیںجیسامیں نے اوپرکی سطروںمیںبھی خلاصہ کردیاتھاکہ اویسی کاقصورصرف یہ ہے کہ وہ ہندستانی مسلمانوںکے حقوق، ان کے وقارکی بات کرتاہے جس سے فرقہ پرستوںکوپیدائشی چڑ ہے، اسی لئے آپ دیکھئے کہ فرقہ پرست لوگوںکو اویسی کی سلامتی پرجو رنج اورتکلیف پہنچا ہے اس کااظہار انھوں نے اپنے ٹویٹ ہنڈلوں پر کچھ اس طرح کیاہے، مشتے نمونہ ازخروارے
’’بہت دُکھ ہواسن کرکہ نشانہ چوک گیا، کوئی بات نہیں ، اگلی بارپھرکوشش کرنا،،(@Anil Kumar Patel1993)
مرگیاہوتاتوکَل ہنومان جی کو50 کلولڈّوکابھوگ لگاتا، جے شرم رام(@SATESHP90369408 Patel1993)
لیکن اللہ کاشکرہے ؎ پاسباں مل گئے کعبے کوصنم خانے سے ، کی طرح کہ جہاںکچھ بددماغوںنے اس ناکام حملے پرخوشی کااظہارکیاہے وہیں کچھ ذی ہوش ہندونوجوانوں نے یہ بھی لکھاہے’’اسد الدین اویسی اگرہندوہوتے تواب تک ہم انھیں بھگوان کے اوتارکی اُپادھی دے چکے ہوتے،،Kmla Rani))
’’دیش کے ہِت میں اگرسچے من سے سُوی کارکیاجائے تواُویسی جیسا شِکشت، ایماندار، پربھاؤشالی، کوئی نیتانہیں ہے، نہ تواِن کے اوپر کسی کے قتل کاآروپ پے،نہ ہی اَپہارن،، چوری،دنگا،گھوٹالہ کاکوئی آروپ پے،م بھارت ماتاکی جے بھلے نہ بولے لیکن سم وِدھان کی مریاداکولنگھت بھی نہیں ہیں، ہمارے دیش کے اِتہاس میںپرتھم سانسد اویسی جی ہونگے جوکیول سانسدپدپرہوتے ہوکرپیڑتوں کی مددکے لئے ادھک سے ادھک سان دیتے ہیں، اویسی جی کاجرم ان کا مسلم ہونااورپیڑت ورگوںکی لڑائی لڑناہے،(@Mohini Gupta)
اب توہمارے مسلم بھائیوںکوہوش آجاناچاہیئے کہ جس شخص کی ایمانداری، قابلیت اور دیش پریم کوغیربھی تسلیم کررہے ہیں تم اب بھی اس کو بھاجپاکے ایجنٹ خطاب اور اس کی نیت پر شک کرنے کے مجرم ہو۔
آپ جانتے ہیں کہ اویسی کی یہی توغلطی ہے نا! کہ پارلیمنٹ میں تمہاری شریعت، اوراتمہارے جان، مال کی حفاظت اور مسلم وقارکی دُہائی دیتاہے، جس سےتمہارے قاتلوںاوراسلام دشمنوںکوپرانی چڑہے کہ اس نے ابھی اسی گذرے منگل کو اجودھیا، ردولی کے رسول آباد چوراہے پر یہی توکہا تھاــ’’ مسلمانوں کو ان کا حق نہیں ملا جس سے سیکولرازم کے نام پر مسلمان اپنے آپ کو ٹھگا محسوس کررہے ہیں۔
اسدالدین اویسی نے ضلع ہیڈکوارٹر سے تقریباً 40 کلو میٹر دورمنگل کو ایک ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یوپی میں سیکولرازم کے نام پر مسلمانوں کو ٹھگا جارہا ہے۔ اب ہماری تنظیم مضبوط ہے اور ہماری پہلی کوشش ہے کہ اس بڑی ریاست سے ہماری مسلم لیڈر شپ کا آغاز ہو۔
اس کے ساتھ انھوںنے اپنے اپنے اوپر حملے کے اگلے ہی دن بھری پارلیمنٹ میں حکومت کی طرف سے زیڈ پلس سیکورٹی کی پیش کش کوٹھکراتے ہوئے جوتاریخی بیان دیاہے وہ بھی سنہرے حرفوںسے لکنے کے لائق ہے’’میں Z زمرہ کی سیکورٹی نہیں چاہتا۔ میں آپ سب کے برابر A-کیٹیگری کا شہری بننا چاہتا ہوں، مجھ پر گولی چلانے والوں کے خلاف UAPA کیوں نہیں چلایا گیا؟”
انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے سخت قانون کا حوالہ دیتے ہوئے جو حالیہ دنوں میں بی جے پی کی زیر قیادت ریاستی حکومتوں اور مرکز کے ذریعہ بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے اور ناقدین کے مطابق مسلمانوں کے خلاف غیر مناسب ہے۔

” مجھ پر گولی چلانے والوں کے خلاف UAPA کیوں نہیں چلایا گیا؟” انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے سخت قانون کا حوالہ دیتے ہوئے جو حالیہ دنوں میں بی جے پی کی زیر قیادت ریاستی حکومتوں اور مرکز کے ذریعہ بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے اور ناقدین کے مطابق مسلمانوں کے خلاف غیر متناسب ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں کہا، "میں جینا چاہتا ہوں، بولنا چاہتا ہوں۔ میری زندگی تب محفوظ رہے گی جب غریب محفوظ ہوں گے۔ میں ان لوگوں سے نہیں ڈروں گا جنہوں نے میری گاڑی پر گولی چلائی،” انہوں نے پارلیمنٹ میں کہا۔
قابل ذکر ہے کہ حکومت نے ان پراتر پردیش میں حملے کے بعد خطرے کی سطح کا جائزہ لینے کے بعد اسے Z زمرہ کی سیکورٹی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس میں سنٹرل ریزرو پولیس فورس (CRPF) کے کمانڈوز کے ذریعہ چوبیس گھنٹے تحفظ شامل ہوگا۔
البتہ اسی کے ساتھ اویسی صاحب سے یہ بھی درخواست کی جاسکتی ہے کہ جب انھوںنے کشواہااور اوردوسرے دبے ،کچلےسماجوںکے ساتھ ہاتھ ملایا،ان سے اپنے مراسم بنائے ہیں نیز مسلمانوں کے ساتھ آپ دیگر دلت طبقات کی وکالت بھی کرتے ہیںتواب اپنی پارٹی کے نام میں بھی اپنے کام اورخیالات کے مطابق وسعتلانی اور’’مسلم ،، کے لاحقہ پر نظرثانی کرنی چاہیئے۔
اسی کے ساتھ کبھی کبھی ان کا لہجہ ایساسخت، کھردرااورنامناسب ہوجاتاہے جو ان کے ، حلم، متانت اورعلمی صلاحیتوںکے ہرگزشایانِ شان نہیں ہوتا، اس سے بھی گریز کریں ، نیز حکومت کے بہت سارے بیانات اور مدعے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کاہم سے کچھ لینا، دینانہیں ہوتا،ان پر دوسرے بولیں تو بہترمگرآپ کے بولنے سے خوامخوہ دشمنوںکوچڑاند ہوتی نیز آپ پر زیادہ بولنے کاالزام آتاہے، اسی طرح اوربھی بہت ساری باتیں ہوسکتی ہیں جن پر پارٹی ورکروںکو الیکشن بعد سرجوڑکابیٹھناچاہیئے۔
؎ زمینِ کوچۂ قاتل ہے اب زمین تمام
جوعیدگاہ بھی جائے کوئی، کفن میں رہے
(ابوالمجاہدزاہدؔ)

Comments are closed.