حق کسی آمیزش کونہیں مانتا

سمیع اللہ ملک
ہاں بہت ہاتھ پاؤں مارتا ہے انسان بہت کوشش،بہت تگ ودوکس لیے؟اس لیے کہ وہ سکون سے رہے،آرام سے رہے،محفوظ رہے۔ ناموری کاخواہش مندہوتاہے وہ واہ،واہ سنناچاہتاہے دادوتحسین کاطالب اورچہاردانگ عالم میں تشہیربس یہی ہے۔ سکون سے رہناچاہتاہے اوربے سکون ہوتارہتاہے۔آرام فوم کے گدوں پرسونے سے ملتانہیں ہے، لاکھ توپ وتفنگ پاس ہو،اپنوں سے بھی ڈرتارہتاہے۔سائے سے بھی ڈرجانے والا۔ناموری کے شوق میں ایسی ایسی بے ہودہ حرکتیں سرزدہوجاتی ہیں اس سے کہ بس۔چہار جانب بچہ جمہورے واہ، واہ کرتے رہتے ہیں اورخلقِ خداتھوتھو۔دادوتحسین کیلئے نت نئے ڈرامے اوراداکاری لیکن ذلت لکھ دی جاتی ہے۔میں غلط کہہ گیاہوں،اپنی ذلت ورسوائی کا سامان ساتھ لیے پھرتاہے وہ۔اورپھردیکھتے ہی دیکھتے وقت کاگھوڑااسے اپنے سموں تلے روندتاہوانکل جاتاہے۔
سامان سوبرس کاہوتاہے اورپل کی خبرنہیں ہوتی۔اپنی اناکے بت پوجنے والاکب کسی کوخاطرمیں لاتاہے!بس ذراسااختلاف کیجیے تو چڑھ دوڑتاہے اپنے لشکرکولے کر،یہ جانتے بوجھتے بھی کہ لشکروں کوپرندوں کاجھنڈکنکریاں مارکرکھائے ہوئے بھس میں بدل دیتا ہے۔عبرت سرائے ہے یہ۔ لیکن نہیں مانتاوہ۔وہ نازکرتاہے اپنے لشکرپر۔اوردنیائے فانی میں کوئی سدانہیں جیتا۔اپنے سینے پرسجے تمغے دیکھ کرنہال ہوجانے والے بھی تنہااورلاچارہوجاتے ہیں اس لیے کہ زندگی پرموت کاپہراہے اورموت کسی سے خائف نہیں ہوتی۔
ہاں وہ کسی چاردیواری،کسی پناہ گاہ،کسی قلعے،کسی نسب،کسی منصب وجلال،کسی لشکرکونہیں مانتی،دبوچ لیتی ہے اورپھرایسا کہ سامان سوبرس کاہوتاہے،جودھراکادھرارہ جاتاہے۔جسم کے پنجرے کوتوڑکرموت اچک لیتی ہے اس کی روح۔
موت توخیرآتی ہے،موت سے پہلے بھی کبھی موت آجاتی ہے۔وہ موت اوربھی بے حس ہوتی ہے۔ہاں اس وقت جب زندگی خودبھی گناہو ں کی سزادینے لگتی ہے۔بے کلی،بے چینی ،اضطراب،وحشت،تنہائی کیایہ سزاکم ہوتی ہے!سب کوتہہ تیغ کرکے آگے بڑھ جانے والا سوچتارہ جاتاہے لیکن پھروقت ہاتھ نہیں آتا۔انہیں بھی برداشت کرناپڑتاہے جنہیں کرپٹ کہتاہے،نہیں آنے کی دھمکیاں دیتاہے اس لیے کہ اپنے رب کاغلام نہیں ہوتاوہ۔ وہ تو طاقتِ عارضی کاادنیٰ غلام ہوتاہے،اورجب ارضی خدااسے کہہ دیں پھرکیامجال ہوتی ہے کہ انکارکردیاجائے!ہاں پھربرداشت کرناپڑتا ہے جناب۔
انکارکی لذت اسے محسوس ہوتی ہے جوربِ کعبہ کاغلام ہو۔ہاں وہ خائف نہیں ہوتاجسے رب کاقرب نصیب ہوجائے۔ایک سجدہ ہزار سجدوں سے بے نیازکردیتاہے۔رب کے بندے توغلامی کاآغازہی انکارسے کرتے ہیں’’لا‘‘سے کرتے ہیں،نہیں مانتے وہ ارضی خداؤں کی وہ ہوتے ہیں اپنے رب کے بندے۔ نفس کی بندگی سے انکاری،جعلی دنیاوی خداؤں کے منکر،بس اک نعرہ مستانہ’’لا‘‘ہرکسی کے مقدرمیں کہاں۔یہ ہے دنیاجناب!سب ساتھ چھوڑجاتے ہیں،زندگی خودبھی گناہوں کی سزادیتی ہے۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ انسان کرہی کیاسکتاہے جناب!جواپنے رب پربھروسہ کریں انہیں ملتاہے سکون،انکار کی جرات اورخوف سے نجات۔بندہ بشرہے ہی کیا اپنے سائے سے بھی خوفزدہ۔
میرے رب نے حکم دیا ہے اور اس کے حکم میں ترمیم و اضافہ کون کرسکتا ہے!کوئی بھی نہیں۔ وہی مالک ومختارِ کل ہے۔ وہی بادشاہِ حقیقی ہے۔ کوئی روشن خیال ہو، ماڈریٹ ہو،مفتی ہو، فقیہ ہواس کے حکم کو رسول اور پیغمبر بھی نہیں ٹال سکتے۔ بس حکم ہوا اور سرتسلیم خم!
میرے رب نے حکم دیاہے’’سیدھی سادی بات کرو‘‘اورہم کیاکرتے ہیں!انسان ہیں،خطاکاپتلہ اورکون ہے جونہیں کرتا؟کون ہے انسانِ کامل؟لیکن جودعویدارہوں،خودکووارثِ انبیاکہتے ہوں،محراب ومنبرکے نگہباں ہوں،وہ جورب کاپیغام انسان کوپہنچانے والے ہوں،ان پرذمہ داری عائدہوتی ہے کہ ان کی زندگی عکاسی کرتی ہومیرے رب کے احکامات کی۔اس لئے جودعویٰ کرے اسے اپنے دعوے کی سچائی میں کچھ توپیش کرناہی ہوتاہے۔جوخودکوخطاکارکہیں،عام انسان کہیں،ذمہ داری توان پربھی عائدہوتی ہے لیکن اتنی نہیں جتنی کسی دعوے دارپر۔اس لئے کہ عام انسان انہیں دیکھ کر،سن کر پرکھتے ہیں اورپھرکہتے ہیں:کچھ بھی ہیں،ہیں تویہ تقویٰ کے قریب۔
لیکن گستاخی معاف کریں توعرض کروں۔کیاہورہاہے ہمارے ارد گرد!میں کیالکھوں،آپ خودسنتے ہیں،دیکھتے ہیں،پڑھتے ہیں۔ہم کیا کہیں کون کرتاہے سیدھی سادی سچی بات۔ کیاحق مشروط ہوتاہے،یاحق ماننے کیلئے شرط عائدکردی جائے؟میرے ناقص خیال میں حق، حق ہوتاہے،وہ کسی شرط کونہیں مانتا۔حق کسی آمیزش کونہیں مانتا۔وہ حق ہوتاہے اوراس کا صرف ایک مطالبہ ہوتاہے:وہ حق ہے اسے ماناجائے۔زندگی کی ڈورٹوٹتی ہے توٹوٹ جائے،انسان درگورہوجائے توہوجائے۔وہ حق ہے،اس لئے اسے بلاچوں چراتسلیم کیا جائے ۔جناب علی المرتضیؓ نے ارشادفرمایااورکیاخوب فرمایا، قربان ہوجاؤں میں ان پر:’’میں اپنے رب کی عبادت جنت کی لالچ اور دوزخ کے خوف کی وجہ سے نہیں کرتا، میں تو اپنے رب کی عبادت اس لئے کرتاہوں کہ وہ ہے ہی لائقِ عبادت‘‘۔غورکیجئے ناں اس پر،اورپھراپنے اردگردنظردوڑائیے۔اب ان کی ناسمجھی پرکیابات کی جائے۔اپنی بہترین پالیسیوں کوملک کی خوشحالی گرادنتے ہوئے بڑے بڑے دعوے کررہے تھے لیکن ایک ہی جھٹکے نے سارے کس بل نکال دیئے لیکن ڈھٹائی کاپھربھی یہ عالم ہے کہ اتنے بڑے سانحے پرکس طرح ڈھٹائی پراپنی بات پرقائم رہنے کادرس دے رہے ہیں۔آخربے پیندہ کالوٹااسی کوکہتے ہیں کہ اپنے ہی وزن سے لڑھکتارہتاہے۔جہاں کوئی جماعت اقتدارمیں آئی ، فوری اس میں شمولیت اختیارکرکے اپنے ہی محسنوں کے کیڑے نکالنے کاکام اسی کے سپردکردیاجاتاہے اوربغیرکسی جھجک اورشرم وحیاکے اپنے نئے آقاکاراتب حلال کرکے اس کی قربت حاصل کرلیتے ہیں۔اسے تواس وقت سمجھ آتی ہے جب وقت کاگھوڑاانہیں اپنے سموں تلے روندتاہواچلاجاتاہے اورپھرنعرہ بلندہوتاہے’’دیکھوجومجھے دیدہ عبرت نگاہ ہو‘‘۔ کچھ نہیں رہے گا جناب، کچھ بھی نہیںبس نام رہے گااللہ کا۔
کہاں سکندر،کہاں ہے دارا، جام کہاں ہے،جم کا
جن کی تیغ سے دیوبھی کانپیں،دل دہلے رستم کا
ان کی راکھ ملے نہ ڈھونڈے،دنیاکاگھرہے غم کا
ہاشم،جان غنیمت جانو،نہیں بھروسہ دم کا
وہ دیکھئے اقبال آکھڑاہوا۔
ہم کوتومیسر نہیں مٹی کادیابھی
گھرپیرکابجلی کے چراغوں سے ہے روشن
Comments are closed.