یوپی الیکشن اور اویسی

شاداب انظارندوی
الیکشن کے ذریعہ اقتدار کے حصول کے لئے اس وقت یوپی میں بے شمار پارٹیاں در در اور گھر گھر گھوم گھوم کر اپنے لئے ووٹ مانگ رہی ہے اور جمہوری اس ملک میں سب کو اپنے ووٹ کے مانگنے کا پورا حق حاصل ہے ،لوگوں کو ووٹ کے لئے دامن پھیلانا چاہئے لیکن جھوٹ کو سہارا بنانا یہ ہمیں لگتا ہے کہ بالکل درست نہیں ہونا چاہئے ۔
اس میں ایک جماعت تو وہ ہے جو سیدھے سیدھے اس جمہوری ملک میں آئین اور دستور کی بالا دستی کو پس پشت رکھتے ہوئے وہ سب کام کر رہی ہے جسے تاریخ کا پنا بھی قبول کرتے ہوئے حیا محسوس کریگا اور ایک دن مورخ ان باتوں کے لکھنے کے بعد اپنی مجبوری بتاتے ہوئے یہ ضرور لکھے گا کہ ہم نے اس لئے اسے لکھا کہ لکھنا ہماری مجبوری تھی ۔
ایسی پارٹی سے ملک کے سنجیدہ لوگوں کو کبھی کوئی سروکار نہ رہا ہے اور ہمیں امید ہیکہ آئندہ بھی اس مزاج کے لوگوں کو ایسی پارٹیوں سے ہمیشہ نفرت رہنی چاہئے ۔
یہ وہ سیاسی جماعت ہے جو اپنے ابتدائی دنوں سے ہی ایک خاص طبقے کے خلاف نفرت پھیلا رہی ہے اور اسی نفرت کے سہارے ملک کے اقتدار پر اس وقت قابض ہے ،جب کہ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ نفرتوں کی بنیاد پر کھڑی کی گئی دیوار کا وجود بہت جلد زمین دروز ہوجاتی ہے ،اس بات کو نفرتوں کے سوداگر بھی خوب سمجھتے ہیں ۔
اس وقت یوپی الیکشن میں بکھرے تاش کو کام کی بنیاد پر نہیں بلکہ نفرت کی بنیاد پر سمیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس میں وہ کس حد تک کامیاب ہوپائنگے یہ آنے والا وقت بتائے گا ۔
لیکن سب سے بڑا مسئلہ اس وقت ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا ہے جس نے آستین میں ہمیشہ سانپ رکھ کر مداریوں سا کام کیا ہے اور ان ہی لوگوں کو اس سانپ کے سامنے بانسری بجا کر ڈسوایا ہے جسے وہ اپنا کہتا رہا ہے ،افسوس اس بات پر ہیکہ ان اپنوں کو نادان دوستوں نے کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہیکہ اپنے ذاتی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے قوم کا بیڑا غرق کیا ہے ۔
اس وقت بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ ایسے لوگوں سے دور رہنے کی ضرورت ہے جس نے استعمال کرو اور پرے ڈال دو کے اصول پر کام کیا ہے ۔
یہ اس وقت تک ہم اپنی مجبوری کہ سکتے تھے جب تک ہمارے سامنے کوئی متبادل نہیں تھا اور زیادہ نقصان پہونچانے والے کے مقابلے میں کم نقصان پہونچانے والے کو ترجیحی طور پر ووٹ ڈالا کرتے تھے ۔
لیکن اس وقت ہمارے سامنے متبادل کے طور پر مضبوط سیاسی جماعت ’’مجلس اتحاد المسلمین ‘‘ موجود ہے جو ہماری مستقبل کا مسیحا ہوسکتی ہے اور مسلمانوں کے سیاسی نمائندگی کے لئے بہت بہتر اقدامات کے لئے بے شمار ایسے کاموں کو انجام دے سکتی ہے جو ہم بھی سوچتے ہیں اور آپ بھی ۔
ہماری اور آپ کی کامیابی اتحاد کے قائم کرنے میں ہے اور اتحاد کی مثال تب قائم ہوگی جب آپ ان علاقے میں جہاں آپ کی اکثریت ہے ایسی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ ڈالے جواب کی آواز بن کر ایوانوں میں بیٹھے ۔آپ کا سیاسی شعور ہی آپ کو عزت و وقار کے ساتھ زندہ رکھ سکتا ہے ۔
اس لئے یوپی کے تمام سیکولر ذہنیت کو اس فکر کے ساتھ ووٹ کرنا ہے کہ جیت اور ہار کا مالک اللہ ہے ،ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا ہے اس لئے ہمارا ووٹ اس شخص کو جائے گا جو مجلس کی نمائندگی کر رہاہے ۔

 

Comments are closed.