کرناٹک کی ”بی بی مسکان“ سے ملک ”شام“ کی میسون تک

تحریر: مولانا اطیع اللہ شوکت قاسمی
(مہتمم: دارالعلوم سبحانیہ، پپلیا، دھار، ایم پی)
کرناٹک کی ایک غیور دینی حمیت سے سر شار بہن مسکان نے میسون نامی لڑکی کی یاد تازہ کردی، 507 ہجری میں جب صلیبی حملہ آور سرزمین شام کی جانب ایک طوفان بلا خیز کی طرح بڑھ کر داستان خونچکاں رقم کرہے تھے۔ نوبت بایں جا رسد کہ سرزمین شام نوجوانوں سے خالی ہونے لگی، بس عورتیں، ضعیف و ناتواں بوڑھے یا بزدل و کم ہمت نوجوان جنھوں نے فریضہ جہاد کو فراموش کردیا تھا رہ گئے تھے۔ چہار جانب یہی نظارہ تھا۔ ایسے وقت میں مسلمانوں خصوصا نوجوانوں میں عزم وہمت جواں مردی جذبہ جہاد پھونکنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا مگر ایک غیور اور اسلامی جوش وجزبہ سے پر لڑکی جو خود ستم خوردہ تھی جس کے بھائی جنگوں میں کام آچکے تھے، اس نے قوم کو جگانے کا بیڑہ اٹھایا اور دعوت کا ایک منفرد انداز اپنایا، اس نے اپنی چند سہیلیوں کو اپنے ساتھ لےکر اپنے سروں کے بال مونڈ ڈالے اور جنگی گھوڑوں کے لئے رسی اور لگام بنا کر جامع مسجد جامع اموی کے امام وخطیب اور علامہ ابن جوزی کے نواسے کے پاس بھیج دیا
اور پھر خطیب نے ممبر رسول سے آنکھوں میں آنسو بھر کر ایک جامع اور پر اثر انداز میں لوگوں کو ترغیب دی کہ لوگ دیوانہ وار میدان کارزار کی طرف دوڑ پڑے اور پھر وقت نے دیکھا کہ صلیبی شکست خوردہ اور ذلیل ہوکر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے اور اس طرح امت مسلمہ کی ایک غیور بیٹی نے امت مسلمہ کی خوابیدہ تقدیر پلٹ دی اور پزمردہ قوم میں زندگی کی نئی روح پھونک دی، آج مجھے مسکان میں وہی میسون نظر آئی جس نے دشمنوں کے نرغے میں گھس کر ببانگ دہل صدائے توحید بلند کی اور دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہہ دیا کہ ہم کفر سے سمجھوتا نہیں کرتے۔ حجاب ہمارا آئینی و اسلامی حق ہے اور حق مانگا نہیں چھین لیا جاتا ہے۔ آج اس بے باک اور بہادر بیٹی نے وہ کام کر دکھایا جسے بڑے بڑے مفکر دانشور جبہ و دستار والے نہ کر سکے۔ دعوت کا وہ انداز اپنایا اس بہن نے جو بڑے بڑے بینرس، اسٹیکرس اور مضامین سے نہیں ہوتا۔ حجاب اور پردے میں ایک نئی روح پھونک دی آج بھارت ہی نہیں دوسرے ممالک کی خواتین کے لئے ایک آئڈیل بن گئی، کتنی مسلم غیر مسلم لڑکیاں باحجاب ہوکر مسکان کی حمایت میں کھڑی ہیں، جدھر جاؤ اسی کے چرچے ہیں، جگہ جگہ ہماری بہنیں حجاب لگا کر اس کی حمایت کا اعلان کر رہی ہیں۔ اللہ نے اتنی عزت بخشی جس کا وہم وگمان بھی نہیں تھا۔ صرف دین کے ایک حکم پر استقامت کے ساتھ ڈٹے رہنے پر یہ انعام ملا تو اگر ہم شریعت پر استقامت سے جم جائیں تو یقینا دارین کی سرخ روئی ہمارا مقدر بن جائے۔
Comments are closed.