حجاب پرسیاست کیوں ؟

عارفہ مسعود عنبر
مرادآباد
کل نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ تمام ٹی وی چینلز پر ایک تصویر بہت تیزی سے وائرل ہوئی جس میں اٹھارہ بیس سالہ لڑکوں کا ہجوم گلے میں زعفرانی گمچھا ڈالے جے شری رام کے نعرے لگاتا ہؤا ایک برقع پوش طلبہ کے پیچھے دوڑ رہا ہے اور ایک اکیلی لڑکی اس ہجوم سے ڈرنے کی بجائے ہاتھ بلند کر کے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتی ہے ۔ اس کا نعرہ واقعی بت کدے میں آزان کی طرح تھا ، یہ سب منجانب اللہ ہؤا ہے۔ ورنہ فطری تقاضہ یہ تھا کہ وہ لڑکی گھبرا سکتی تھی ،چیخ پکار کر لوگوں کو مدد کے لیے بلا سکتی تھی، لیکن اس نے ایسا کچھ نہیں کیا جے شری رام کی گونج میں اللہ اکبر کی صدا بلند کی ۔یہ واقعی بڑی بات ہے جو اس کو اللہ کی طرف سے ودیعت کی گئی۔اس فاششت دور میں ایمانی جراءت اور ایمانی شان کا یہ مظاہر قابل ستائش ہے ۔ اللہ کریم نے صنف نازک کہلائ جانے والی لڑکی کے ذریعے امت مسلمہ کو ایک پیغام دیا ۔ اس کم سن لڑکی نے آج پھر ایک تاریخ رقم کر دی۔ ہمت کی ،شجاعت کی ،بہادری کی ، اور یہ ثابت کر دیا کہ ایک ایمان والا سو پر بھاری ہے ۔ہمیں بھی قوم کی اس بیٹی پر ناز ہے اور اس کی بہادری کو سلام کرتے ہیں ۔ اس لڑکی نے قوم کے گہری نیند میں سوے ہوئے ضمیر کو جگانے کے لئے اللہ اکبر کی صدا بلند کی ، خدایا جاگ جائیں ابھی وقت ہے ۔ ورنہ قوم کی بیٹیوں کا اسی طرح استحصال ہوتا رہے گا ۔ آج تمام قوم اس لڑکی کی بہادری سے حد درجہ خوش ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اور ہماری قوم مسلم لڑکیوں کا استحصال دیکھتی ہے اور لوگ وقتی طور پر جزباتی باتیں کر کے خود کو قوم و ملت کا ہمدرد ثابت کر دیتے ہیں ۔ سچائ یہ ہے کہ ہم صرف ان دفاعی حالات میں ہیں جہاں ہمارے پاس کوئی ٹھوس اقدامات ہی نہیں ہیں ۔ ہم صرف وقتی طور پر اظہار افسوس کر کے یا خوش ہو کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔
آر ایس ایس نے نفرت کی آبیاری سے وہ فصل تیار کر دی ہے جس کے بیج اس نے سو سال پہلے بوے تھے۔ ہمارے ملک کے سیکولر نظام کو داغدار کرنے کی کوششیں جاری ہیں علیحدگی پسند اور شر پسند عناصر کھلے عام شر پسندی پر تلے ہیں ،فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہیں ۔ ایک سڑی ہوئی گندی اور شر پسند ذہنیت جمہوریت کو مسمار کر کے تمام ملک کو زعفرانی رنگ میں رنگنا چاہتی ہے ،تعلیمی اداروں میں حجاب کو لیکر بھگوا دھاریوں نے ننگا ناچ شروع کر دیا ہے ۔جبکہ یہ کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا دستور کے مطابق سب کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق ہے ، رہن سہن طور طریقے ،لباس سب کچھ ذاتی مرضی پر موقوف ہیں۔ جب کوئ لڑکی گھٹنوں اور رانوں پر سے پھٹی جینس اور بنا آستین کے ٹی شرٹ میں نیم عریاں حالت میں کالج آتی ہے تب اس کے لباس پر اعتراض کرنے والوں کو جواب دیا جاتا ہے کہ یہ آزادی نسواں ہے ان کی مرضی چاہے جیسا لباس پہنے دیکھنے والوں کی نظر گندی ہے۔پھر کیا سبب ہے حجاب پر اس قدر وبال ہؤا ، ایک طرف عورتوں کے تحفظ کی بات کی جاتی ہے تو دوسری طرف اس کے تحفظ میں نمایاں کردار نبھانے والے حجاب پر پابندی کی تیاری کی جا رہی ہے ۔یہاں ہم حجاب کی حکمتوں پر گفتگو نہیں کریں گے یہ ایک وسیع موضوع ہے جس پر اہل علم اور اہل دانش نے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ یہاں یہ کم علم کہنا یہ چاہتی ہے کہ جب ہندوستان کے آئین کے مطابق سب کو اپنےحساب سے زندگی جینے کا اختیار ہے تو پھر ان لڑکیوں کے اس اختیار پر اعتراضات کیوں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو منصوبہ بند طریقوں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ مسلم معاشرے میں بے چینی اور اضطرابیت کی کیفیت پیدا ہو (یہ اور بات ہے کہ اس وقت مسلم معاشرے کا ضمیر سویا ہوا ہے )۔
معاملہ صرف حجاب کا نہیں ہے معاملہ تقسیم کا ہے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا ہندو اور مسلمان میں بانٹنے کا ، نوجوانوں کے دل میں زہر بھرنے کا ، ملک کی ایکتا اور بھائ چارے کو سپرد آتش کرکے سیاست کی روٹیاں سینکنے کا ، آج سیاست کس ایجنڈے پر چل رہی ہے یہ آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی ،حجاب کو لیکر جب چند مسلم دختران نے عدالت کے دروازے پر دستک دی تو عدالت کے فیصلے سے قبل ہی کالجوں میں یونی فارم کا حکم نامہ جاری کر دیا گیا ، کچھ لوگوں نے اشتعال انگیز نعرے لگائے ، اور کچھ نے یہاں تک کہ دیا کہ اردو بولنے والے اور حجاب پہننے والے تقسیم کے وقت ملک چھوڑ کر جانے کے بجائے یہاں کیوں رک گئے؟ تو جواب یہ ہے کہ حجاب پہننے والے یہاں اس لیے رک گئے کیوں کہ ہمارے اجداد نے اس ملک کی آزادی کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں ہیں ، اس قوم نے اس ملک کی مٹی کو اپنے لہو سے سینچا ہے۔ لیکن آج کے حالات ہمیں سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں آزادی کے بعد ملک میں دو نظریات موجود تھے ایک نظریہ مسٹر جناح کا نظریہ جس نے آزادی کے وقت دو قومی نظریہ کی حمایت کی , اور دوسرا نظریہ مولانا عبد الکلام آزاد کا نظریہ جس نے جواہر لعل نہرو اور گاندھی کا ساتھ دیکر مسلمانوں کو یہاں رہنے پر آمادہ کیا تھا ، ایک طرف مسٹر جناح تھے اور دوسری طرف مولانا آزاد مسلمانوں کے پاس اختیار تھا وہ مسٹر جناح کو ووٹ کریں اور ایک مسلم ملک میں زندگی گزاریں، لیکن مسلمانوں نے اس ملک کی مٹی کو ماتھے سے لگا کر یہی جینے اور مرنے کا فیصلہ کیا کیوں نکہ اس وقت گاندھی جی اور جواہر لعل نہرو نے مولانا آزاد کے سامنے ایک جمہوری نظام اور ہر مذہب کو اپنے حساب سے رہنے کی آزادی کی تصویر پیش کی تھی ، اور آج ہم سے سوال کیے جا رہے ہیں کہ ہم یہاں کیوں رک گئے ،کرناٹک کے مسلے پر صرف نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، تمام مسلم قوم ،اہل علم دانشوران ، مفکرین، قائدین ، خدایا ہوش کے ناخن لیں یہ شر پسند لوگ جس شدت سے ہندو، مسلمان،پاکستان ،قبرستان کا مظاہرہ کر رہے ۔ اسی شدت سے آپ اتحاد و اتفاق اور سیاسی شعور کا مظاہرہ کریں ورنہ مسلمانوں کے آپسی انتشار ، فرقہ پرستی اور بکھراؤ سے حالات اس سے کہیں زیادہ بدتر ہو جائیں گے ۔ کسی بھی قوم کی اصل روح اس کی فکری سرگرمیاں ہوتی ہیں اور جس جگہ فکری سرگرمیاں ختم ہو جائیں یا ماند پڑ جائیں تو قوم کا زوال یقینی ہو جاتا ہے ۔ مسلمان اختلافات کو بنیاد بنا کر فرقہ پرستی کے جال میں پھنس گئے ہیں ۔ خدایا اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق حاصل کریں۔
ہم سے اکثر احباب کہتے ہیں کہ کیوں لکھتی ہو ؟ کیا فائدہ ہے کاغذ سیاہ کرنے کا ۔ قوم ابھی بہت گہری نیند میں سوئ ہے ابھی اتحاد کی صدا ان کو سنائی نہیں دیگی ۔ لیکن ہم لفظوں کی تجارت نہیں کرتے جو فائدے اور نقصان کے بارے میں سوچیں ہمارا قلم صرف حق کی صدا بلند کرتا ہے ہمیں۔ اللہ کریم کی رحمتوں اور بندوں کی کوششوں پر کامل یقین ہے ، نہ صرف مسلمانوں بلکہ ملک کے ہر باشندے سے التماس ہے خدایا نئ نسل کو تباہ ہونے سے بچا لیں جو نوجوان ملک کی ترقی اور ترویج کے ضامن ہیں انہیں نفرت اور دشمنی کی بھٹی میں نہ جھونکیں ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی سب مل کر حفاظت کریں۔

Comments are closed.