مسلم طالبات کے حجاب کی مخالفت کیوں؟

کیا یہی سب کا ساتھ سب کا وکاس ہے؟؟؟
خصوصی پیشکش :سعید پٹیل ،جلگاؤں
بین الاقوامی سطح پر مسلم ممالک کو چھوڑ کر مغربی دنیا میں معاشرتی نظام درہم برہم ہونے اور دیوالیہ پن ہونے کے باوجود جمہوری طرز زندگی کی پاسداری سر فہرست ہیں۔اسی طرح ہمارے ملک عزیز میں بھی انیکتا میں ایکتا ، ملی۔جلی ، گنگا جمنی تہذیب کی جڑیں بہت مضبوطی سے یہاں کی عوام نے اپنی حب الوطنی کے ذریعے تھامے ہوئے ہیں۔ یہاں تمام شہریان کو مذہبی اور سماجی امور پر عمل کرنے کی دستوری آزادی حاصل ہیں۔اس لیئے ملک یعنی گذشتہ سات دہائیوں سے ترقی کی راہوں پر چلتے۔چلتے ہر مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود ترقی کرتا ہوا یہاں تک پہونچا ہے۔اسی دوران ملک کے طول و ارض پر کئ بھیانک فرقہ وارانہ فسادات بھی ہوتے رہے۔لیکن اس کے باوجود کچھ دنوں کی تکلیف کے بعد پھر نئے سرے سے شہریان تمام اذیتوں کے بعد بھی سب کچھ بھول کر اپنی روزی۔روٹی سمیت دیگر زندگی کے لوازمات کے حصول کے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
پھر گنگا جمنی تہذیب اور اپنی۔اپنی مذہبی روایتوں پر چل کر انیکتا میں ایکتا پیدا کرتے آئے ہیں۔جو قابل ستائش اور قابل مبارکباد ہوا کرتے ہیں۔لیکن سن۲۰۱۴ ء سے ملک میں مختلف طریقوں سے اکثریت ازم مسلط کرنے کی مسلسل کوششیں جاری ہیں۔اس سے قبل ملک کی عوام کو "سب کا ساتھ سب وکاس” اس کے بعد ” بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ” جیسے خوبصورت نعروں کے ساتھ اقتدار پر قابض ہونے کے بعد طلاق ثلاثہ پر پابندی لگا کر یہ بتایا گیاکہ ہم نے مسلم خواتین کو طاقت فراہم کی ہیں۔لیکن حال ہی میں ریاست کرناٹک کے کئ مقامات پر مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر اعتراض جتایاگیا۔یہ مخالفت کیوں؟ اوڈپی کے کالج میں حجاب کے استعمال پر داخل ہونے پر منع کیاگیا۔یہ واقعات یقنی طور پر فکر مند کردینے والے ہیں۔اسی طرح جماعت میں دوران درس تدریس کے حجاب استعمال نہیں کیاجاسکتا اس طرح کی ہدایتیں طالبات کو دی گئیں۔جبکہ حجاب کا مطلب فیشن ہے ہی نہیں ، بلکہ یہ ایک سراپا مسلم تہذیب ہے۔جیسے مسلم خواتین اور مسلم لڑکیاں پہنتی ہیں۔اور یہ عمل ہر دور میں پوری دنیا کی مسلم خواتین نے اپنائے ہوئے ہیں۔یہاں ملک عزیز میں بھی مسلم خواتین اس دینی امور پر خوشی۔خوشی عمل کرتی ہیں۔لیکن کرناٹک میں حجاب کو لے کر جان بوجھ کر مسلم طالبات کو نشانہ بنایا گیا ہیں۔اپنی ہی کالج کی طالبات کے حجاب پہن کر کالج آنے پر کالج کے طلباء نے حجاب کی مخالفت کرنا مناسب بات نہیں ہے۔اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب و رنگ۔رنگ کی ثقافت میں آج بھی مختلف ریاستوں میں علاقائی لباس کو اہمیت دی جاتی ہیں۔اس ملک میں مساوات اور برابری کے حقوق کے ساتھ تعلیم اوراپنے مذہبی امور پر عمل کرنے کا حق دستور نے شہریان کو دیا ہے۔اس لیئے حجاب کی مخالفت کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں۔جو کچھ حجاب کے تعلق سے بوال کھڑا کیاگیا ہے۔اس سے لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے میں دقتیں نہ پیدا ہو۔؟ جو لوگ ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ بناکر سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو یہ قومی انیکتا کی ایکتا کو ٹھیس پہونچا نے کی کوشش ہی کہی جاسکتی ہیں۔جبکہ آج بھی ملک کے کئ علاقے ایسے ہیں جہاں لڑکیوں کی تعلیم پر رسم و رواجوں کی حکومت ہے۔اور مسلم معاشرے میں بھی لڑکیوں کا اعلی تعلیم حاصل کرنے کی تعداد دیگر سماج برادران کے مقابلے میں کم ہی پایا جاتا ہے۔اسکول اور کالج میں طلباء کو جو مذہبی آزادی حاصل ہے۔اس کی مخالفت کرنا مناسب نہیں۔جن باتوں کو مدعہ بناکر مذہبی رنگ دیاجاتا ہے۔تب یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ سب کاساتھ سب کا وکاس اور بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کے نعرے پر کب عمل ہوگا۔؟
Comments are closed.