کیاہندوستانی مسلمان بے حجابی برداشت کرلیں گے

ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی

خادم تدریس

جامعہ نعمانیہ،ویکوٹہ،آندھرا پردیش

ہمارا پیارا دیش ہندوستان”جمہوری” ملک ہے، یہاں ملک کے تمام باشندوں کو اپنے اپنے دین و مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے، اور اسی آزادی میں اس ملک کی اصل خوبصورتی مضمر ہے، نیز ہمارے ملک میں یہ آزادی آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے ہے،اور ہاں! یہاں کے باشندے کو جو آزادی ملی وہ دراصل مسلمانوں کی آمد سے ملی، اس سے پیشتر یہاں کے باشندے کو ذات پات میں بانٹ دیا گیا تھا، اور اس طرح کا ظالمانہ فلسفہ ایک خاص طبقہ کا پیداوار تھا، جو خود کو سب سے اعلیٰ سمجھتا تھا اور اپنے علاوہ کو ادنی ہی نہیں ،ادنی ترین سمجھتا تھا، بلکہ اپنے علاوہ کو تو انسان تسلیم کرنے سے بھی بھاگتا تھا، اپنے کو جھوٹے خدا کے سر سے پیدا ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اس لیے وہ سب سے افضل اور سب کا سردار تھا، اور دوسرے کو پیٹ سے یا پاؤں سے پیدا ہونے والا کہتا تھا،اس لیے انہیں ہمیشہ پاؤں تلے ہی رکھنا چاہتا تھا، لیکن قربان جائیں مسلمانوں پر کہ انہوں نے اس ملک میں آمد کے بعد،اس ملک کے انسانوں کو انسانیت کا درجہ دیا، چھوت چھات کی تفریق کو اکھاڑ پھینکا، ہر ایک کو انسانیت کا درس دیا، رنگ و نسل کو ختم کیا، اور آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا کیا، اس ملک کے باشندوں میں امن و آشتی اور بھائی چارہ پیدا کیا، جو ہنوز باقی ہے۔

اب اگر کوئی امن و آشتی کے اس حسین گلدستہ میں رخنہ اندازی کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے، اس کے خوبصورت پھولوں اور کلیوں کو مرجھانا چاہتا ہے تو وہ اس ملک کے وفادار نہیں ہوسکتا، بلکہ وہ کچھ اور ہی ہوسکتا ہے۔

اس وقت کچھ ایسے ہی قسم کے لوگ ہرطرف دندناتے پھر رہے ہیں، جو  ہمارے ملک کی خوبصورتی کو داغدار کرنا چاہتے ہیں، سوء اتفاق کہ ملک کے باگ ڈور بھی انہیں کے ہاتھ میں ہے، اور ہاتھ میں لینے کے لیے پہلے اس نے یہاں کے باشندوں کو خوبصورت باغ دیکھایا،اور یہ نعرہ لگایا”سب کا ساتھ سب کا وکاس” اب تک نہ سب کا ساتھ ہوا، بلکہ جو ساتھ تھے اب ان میں دراڑ ہوگیا اور ہورہا ہے، اور وکاس تو نہیں ہوا البتہ سب کا "ناس” ہوا۔

اسی طرح اس نے ایک دوسرا نعرہ یہ دیا”بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ” اس میں بھی اب تک وہ پوری طرح سے ناکام ہی نظر آرہے ہیں، اب تک کتنی ہی بیٹیاں بچانے کے بجائے جان گنواں چکی ہیں اس کے لئے(ریپ کیس) شاہد ہے۔

"بیٹی پڑھاؤ” حالیہ دنوں صوبہ کرناٹک کی ایک تعلیم گاہ میں ملک کے ایک شیرنی بیٹی پر سیکڑوں کتے اور بھیڑئیے جو بھونکا ہے،کیا اس سے بیٹیاں پڑھ سکتی ہیں۔

اب یہی لوگ پڑھنے والی بیٹیوں سے شرم و حیا ختم کرنے کی سازش کررہے ہیں، ان کے رہن سہن اور پہناوے میں روڑا ڈال رہے ہیں، ان کے حجاب کو ان سے چھیننا چاہ رہے ہیں،ان کو ہراساں کررہے ہیں۔

حالانکہ ہمارا ملک جمہوری ہے یہاں کے دستور میں ہر مذہب والے کو اپنے مذہب کے قانون پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے، پرسنل لا میں کوئی کسی کو مداخلت نہیں کرسکتا، لیکن "بیٹی پڑھاؤ”کے جھوٹے نعرہ لگانے والے ہی اب تعلیم میں مداخلت کررہے ہیں، کوٹ میں بحث جاری ہے کہ بچیاں حجاب میں رہ سکتی ہیں یا نہیں رہ سکتی ہیں، حالانکہ حجاب پرسنل لاء میں سے ہے اس میں اگر کوئی مداخلت کرتاہے تو وہ دراصل ملک کے قانون میں مداخلت کررہاہے کاش کہ ہمارے جج صاحبان ہی اس باریکی کو سمجھتے اور اس معاملہ کو خارج کرتے، لیکن ہائے افسوس! کہ وہ بھی اسی ذہنیت کے حامل معلوم ہوتے ہیں، تو کیا اب ایسی صورت میں ہندوستان کے مسلمان بے حجابی کو برداشت کرلیں گے؟

Comments are closed.