بیتِ ندامت۔۔۔۔۔ الامان الحفیظ!!!

سمیع اللہ ملک
نئے سال کے پہلے ہی دن اسرائیل کی جانب سے فلسطین میں غزہ کی پٹی کے شمالی علاقے اورحماس کے کمپانڈکونشانہ بنایاگیا اوربعدازاں اسرائیل کی جانب سے دعویٰ کیاگیا کہ اسرائیلی افواج نے ٹینکوں کے ذریعے حماس کی ایک پوسٹ کوبھی نشانہ بنایا۔ فلسطینی سکیورٹی حکام نے ایک خبررساں ایجنسی کواسرائیلی حملے کی اطلاع دیتے ہوئے کہاکہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے آدھی رات کونئی جارحیت کاآغازکرتے ہوئے غزہ کی پٹی کو نشانہ بنایا۔اس دوران دس میزائل داغے گئے جنہوں نے خان یونس کے مغرب میں قدسیہ کی جگہ کونشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ایک ٹریننگ کیمپ کوبھی اس حملے کے دوران نشانہ بنایا۔
غزہ کی آبادی تقریبا 20 لاکھ افرادپرمشتمل ہے اوراس علاقے کی لمبائی 41 کلومیٹرجبکہ چوڑائی دس کلومیٹرہے۔اس کی اطراف بحیرہ روم،اسرائیل اورمصر سے منسلک ہیں۔غزہ اوراسرائیل کے مابین حالیہ کشیدگی کئی برسوں میں ہونے والابدترین تشددکاراستہ ایک مرتبہ پھرکھلنے کاشدیداندیشہ لاحق ہوگیاہے جس نے اقوام متحدہ کو’’بڑے پیمانے پرجنگــ‘‘کی وارننگ دینے پرمجبورکردیاہے۔1967کی مشرق وسطیٰ کی جنگ کے دوران اسرائیل نے ماضی میں مصرکے زیرقبضہ غزہ پرقبضہ کرلیاتھاتاہم 2005میں اسرائیل نے اپنی فوج اورتقریباً7000کے قریب آبادکاروں کویہاں سے نکال لیاتھا۔ یہ علاقہ حماس کے زیرکنٹرول ہے جس نے2007کے پرتشدد فسادات کے بعداس وقت کی گورننگ فلسطینی اتھارٹی (پی اے)کی وفادارقوتوں کویہاں سے نکال دیاتھا۔ اس کے بعدسے اسرائیل اورمصرنے فلسطینیوں کے خلاف حفاظتی اقدامات کے نام پرغزہ سے سامان اورلوگوں کی آمدورفت پر پابندی عائد کررکھی ہے۔
2014میں حماس اوراسرائیل کے درمیان اسرائیلی جارحیت کے خلاف جھڑپیں ہوئی جبکہ مئی2021میں اس معاملے نے پھرسراٹھایا تھاجس کے نتائج میں پہلی مرتبہ اسرائیل کو حماس کی قوت کااندازہ ہواکہ اس بے سرسامانی میں بھی انہوں نے مقابلے کیلئے اپنی شہادتوں کے لامتناہی سلسلے کے ساتھ ساتھ اپنے خون کے آخری قطرے کوبہانے کے عزم کو ایک نیاموڑدے دیاہے جہاں اسرائیل کو آسانی سے قبضہ کرنے کی بھاری قیمت چکاناپڑے گی۔
سال نوکے آغازپرہی ایک مرتبہ پھرغزہ میں ظلم کی حد ہوگئی اورعالمی میڈیانے ایک اسازش کے تحت اس مرتبہ ان خبروں کامکمل بلیک آؤٹ کررکھاہے۔اس میں اچنبھے کی کوئی بات بھی نہیں کیونکہ اہل فلسطین اپنے مسلمان اوراسرائیل کے پڑوسی ہونے کی قیمت پچھلی کئی دہائیوں سے چکارہے ہیں۔یہودیوں کی تاریخ ہے کہ وہ اپنے وجودکی قیمت گردوپیش سے وصول کرتے ہیں۔یہ سلسلہ بنی اسرائیل سے عہدنبوی تک جاری رہا ہے۔جدیددنیا میں جرمنی کانسل پرست قائدراڈولف ہٹلروہ شخص تھاجس نے یہودیوں کوپوری طرح سمجھنے کی کوشش کی۔فلسطینی مسلمانوں کی بد قسمتی کاسفرتواسی وقت شروع ہوگیاتھاجب فتنہ پروری کی تاریخ رکھنے والی اس دربدرقوم کے سرچھپانے کیلئے ان کی سرزمین کاانتخاب ہواتھا۔ ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام کاافسانہ جسے”ہولوکاسٹ”کانام دیاگیا،دراصل میڈیاوارہی توتھی اوراس کاتعلق یہودیوں کیلئے ایک الگ مملکت کے قیام کی ضرورت سے تھا کیونکہ صہیونی اکابرین نے اپنے لئے ایک الگ وطن کی حمائت میں اس دلیل کاسہارالیاتھاکہ انہیں ایک اور’’ہولوکاسٹ‘‘کاشدیدخطرہ ہے،جس سے بچنے کیلئے یہودیوں کوایک محفوظ شیلٹر،ایک پناہ گاہ درکارہے۔اس وقت کی عالمی طاقتوں نے یہودیوں کوایک محفوظ شیلٹرفراہم کرنے کیلئے اسرائیل کے نام سے عین عالم اسلام کے قلب میں خنجرگھونپنے کا فیصلہ کیاحالانکہ مغربی ومشرقی یورپ میں بے شمارایسے علاقے تھے جہاں یہودیوں کی اس’’نایاب نسل‘‘کو بچانے کیلئے محفوظ شیلٹرقائم کئے جاسکتے تھے۔
یوں یہودیوں نے مظلومیت کے لبادے میں جس سفرکاآغازکیا۔طاقت،اختیار،وسائل اورالگ وطن ملنے کے ساتھ ہی وہ ظلم کی بد ترین شکل اختیارکرگیااورہٹلرکے مظلوم ومقتول خودہٹلرکی طرح ظالم اورقاتل بن بیٹھے۔انہوں نے کمال چالاکی سے اپنے مقدرکی دربدری،بے وطنی،آہوں اورسسکیوں کی لکیرفلسطینی کے ہاتھوں پرکھینچ دی۔اس وقت سے آج تک فلسطین کاہرشہرغزہ ہے،اسرائیل کے ہرغصے کاانجام ایک’’ہولوکاسٹ‘‘پرہوتاہے۔اسرائیل توجوکررہاہے،اپنے فتنہ پرورمزاج کے ہاتھوں مجبورہوکرکررہاہے اوراپنی تاریخ دہرا رہاہے،لیکن مسلم دنیاکیاکررہی ہے؟عرب دنیاکہاں ہے؟جوپہلے چندجلوس نکال کر،غزہ کے لوگوں کیلئے دواؤں اوردودھ کیلئے اپنی بے پناہ دولت سے زکو ٰۃکے چند درہم و دینار وقف کرکے تاریخ کاقرض چکانے کی کوشش کرتی تھی،اب تویہ سلسلہ بھی مکمل طورپربندہوگیاہے۔آج سے بارہ سال قبل عین اس وقت جب غزہ میں اسرائیل انسانیت کا دامن تارتارکررہاتھا،سردجنگ میں مضمحل اورگھائل ہونے والے روس کوکیاسوجھی کہ اس نے چند دن کیلئے یورپ کوگیس کی سپلائی روک دی۔گیس پائپ لائینوں کے بے رونق ہوتے ہی یورپ کی رنگین دنیااجڑنے لگی اوراس کے سارے رنگ مانداورساری روشنیاں ٹمٹمانے لگیں۔کئی ملکوں میں صنعت کاپہیہ رک گیااورحکومتوں کوایمرجنسی نافذکرناپڑی۔ اس سے جہاں یورپ کی چیخیں نکل گئیں وہیں مسلمانوں کی بے توقیری اوربیچارگی کا مذاق بھی اڑگیاکہ جودنیامیں تیل پیداکرنے والے علاقے پرکنٹرول رکھتے ہیں،لیکن اس دولت کوڈالروں میں بدلنے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے۔اس دنیامیں عزت اورعروج حاصل کرنے کیلئے،حدتویہ کہ عالمی نظام میں ایک باوقارحیثیت حاصل کرنے کیلئے استعمال کرنے کی قدرت بھی نہیں رکھتے حالانکہ نیویارک کے مجسمہ آزادی کے گردرنگوں کی بہاراورلندن آکسفورڈ سٹریٹ کی روشنیوں کی قطار تک مغربی اوریورپی دنیامیں اس سیال دولت کابنیادی حصہ ہے جوارض فلسطین کے دائیں بائیں پانی کی طرح بہہ رہی ہے۔یہ ایک ایسی تلوارہے جسے عرب دنیاچاٹ رہی ہے اوروہ اس بات سے مکمل بے خبرہے کہ اس کے ہاتھ میں تلواردرحقیقت ایک ہتھیار بھی تھی جسے اب کندکرکے زنگ آلودکردیاگیاہے۔
سعودی فرماں رواشاہ فیصل مرحوم عرب دنیاکے وہ واحد قائدتھے جن پریہ حقیقت آشکارہ ہوئی تھی لیکن پھرکیاہوا،یہ تاریخ کاحصہ ہے۔اپنی طاقت کااداک تودرکنار،فلسطین کے ہمسائے اپنی خاموشی،غورکرنے اورتشویش کااظہارکرنے کی طاقت کوسلب ہوتے دیکھ کر اب آپس میں بے سود تبادلہ خیال کرکے اسرائیل کواکاموڈیٹ کررہے ہیں۔ظلم کی حدتویہ ہے کہ نہ صرف یہ ہمسائے اسرائیل کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی پابندی کرتے ہوئے بد ترین ناکہ بندی پرعمل کررہے ہیں بلکہ اپنی زمین اورفضاؤں کوبھی غزہ پرحملوں کے استعمال کی اجازت دے رکھی ہے اورنجانے یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔فلسطین حریت پسندوں کے ایک اخبارنے اس صورتحال میں ماضی میں فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کرنے والی تنظیم الفتح کے موجودہ کردارپرتنقید کرتے ہوئے اسے’’بیت ندامت ‘‘قراردیاہے۔لیکن اس وقت کی مسلم دنیا،اوآئی سی،اورعرب لیگ کیلئے اس سے خوبصورت نام شایدہی کوئی اورہو۔المیہ یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں نے اپنی مصلحت کوشی،لاچارگی،اوراپنے تاج وتخت کی خاطرجبرنارواسے قدم قدم پرمفاہمت کی روش کی بنا پرایک ارب سے زائد مسلمانوں کو’’بیت ندامت کامکیں‘‘بناکررکھ دیاہے۔کچھ نہ ہوتے ہوئے ذلت طاری ہوناکوئی انہونی بات نہیں،لیکن سب کچھ ہوتے ہوئے ذلت کے عملی عذاب کی تصویرہوتاآج کاعالم اسلا م موجودہ مسلم حکمرانوں کی وجہ سے بناہواہے۔
اسرائیل کے جنگی طیارے اوراپاچی ہیلی کاپٹردن رات غزہ کومزیدکھنڈراورمقتل بنائے ہوئے ہیں،تواس کامقصدغزہ کے ڈیڑھ ملین عوام کوخوفزدہ کرنانہیں بلکہ اس کامقصد اسرائیل کے ہمسایہ عرب ملکوں،ایران اورایٹمی ملک پاکستان پردھاک بٹھانابھی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اسرائیل کی علاقائی قیادت وسیادت کیلئے چیلنج بننے کاخیال بھی دل میں نہ لائے ۔ غزہ ایک عظیم انسانی المیے اور یہودی نازی ازم کے دورکاسامناکررہاہے،لیکن یادِ ماضی کامسلمان ملکوں کی تشویش،غوروخوض،اجلاسوں،بالمشافہ ملا قاتوں، ٹیلیفونک گفت وشنید کا سلسلہ درازسے درازتر ہوتے ہوئے اب دم توڑچکاہے۔برطانوی خبر رساں ادارے’’رائٹر‘‘کا عیسائی نامہ نگار اجڑے اورکھنڈرغزہ کی اداس صبحوں اوربے کیف شاموں کا احوال رقم کرتے ہوئے کہتاہے کہ غزہ کے قبرستان اب ایک عرصہ درازسے’’ہاؤس فل‘‘کامنظرپیش کررہے ہیں۔وہاں کسی نئے مہمان کیلئے کوئی جگہ باقی نہیں رہی،الایہ کہ پہلے سے
آسودہ خاک کوئی مردہ اپنی لحد میں کسی نئے مہمان کیلئے کوئی جگہ چھوڑ دے،اورغزہ کے سب سے پرانے اورسب سے بڑے شیخ رضوان قبرستان کے ساتھ ساتھ تمام قبرستانوں میں ایساہورہاہے۔اسرائیل کی بمباری سے شہیدایک نوجوان کے لواحقین اس کی لاش کولیکرہرقبرستان میں مارے مارے پھرے مگرکوئی خالی جگہ نہیں ملی،بے بسی کے ان لمحوں میں ایک شخص کوخیال آیاکہ کیوں نہ اس نوجوان کو دوبرس قبل ایک مظاہرے میں شہید ہونے والے اس کے چچازادبھائی کی قبرمیں ہی دفن کیاجائے۔اورپھریہی ہوا،اس جواں سال خون آلودلاشے کودوبرس قبل شہیدہونے والے کی قبرمیں اتاردیاگیااوراب کئی سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔یہ کہانی سناتے ہوئے یہ عیسائی نامہ نگارپھوٹ پھوٹ کررونے لگا،اور کہنے لگاکہ میں بتانہیں سکتا کہ میں آج کس قدراداس ہوں۔
غزہ میں اسکول،ہسپتال،مساجد،گھراوراقوام متحدہ کے شیلٹرہی تباہ نہیں ہورہے،تادیراورنسلوں تک قائم رہنے والے المیوں کے دائرے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔بچوں کاالمیہ جو ڈیڑھ ملین آبادی کا نصف ہیں،عورتوں کاالمیہ جوجواں سال ہیں اوران کے ہمسفرشہادت کی وادیوں اوراجل کی راہوں میں گم ہوچکے ہیں،اورپھرشہادت کے احترام میں غزہ کی یہ مقامی روایت کہ شہید کی بیوہ شادی کرنے کی بجائے شہید کی میراث اورنشانی جوکسی بچے کی شکل میں ہوتی ہے،کی تعلیم وتربیت میں عمربتادیتی ہے،اوراگرکسی کے پاس یہ نہ ہوتووہ شہیدکی یاداورشہادت کے احساس برتری کواپنے پیروں کی زنجیراورگلے کاہاربنادیتی ہے۔غزہ کی تباہی کے بعد فلسطین کے ہمسایوں کواپنی اس بے پناہ دولت سے جوامریکااور مغرب کے بینکوں میں استعمارکے زیراستعمال ہورہی ہے بلکہ انہی کی تباہ کاریوں میں استعمال ہورہی ہے،ان کوچاہئے تھاکہ انہیں گھروں ہسپتالوں،اسکولوں اورمساجدکی تعمیرنومیں استعمال کریں لیکن یہ تواپنے ہاں اسرائیلی یہودیوں کی محبت میں ان کے ’’کوشرریسٹورنٹس‘‘اورن کی مذہبی عبات گاہوں کی تعمیرمیں صرف کرکے اللہ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں۔
سناہے کہ ظالم اورعیاراسرائیل نے یکطرفہ جنگ بندی کااعلان اس فتح وسرشاری کے ساتھ کیاہے کہ ہم نے اپنے مشن کے سارے اہداف فی الحال حاصل کرلئے ہیں اورعالمی طاقتوں نے ہمیں مستقل ضمانتیں دی ہیں کہ آئندہ غزہ کے مکین ہمارے کسی ظلم پرکوئی احتجاج نہیں کریں گے،لیکن ہماری افواج اب مستقل طورپرغزہ میں قیام کریں گی اوردنیاکی سب سے بڑی جیل’’غزہ‘‘کامحاصرہ بدستورقائم رہے گا۔قصرسفیدکے فراعین کوجہاں ہرسال غزہ کے شہداکاتحفہ دیاجاتاہے،اب وہاں عالم اسلام اوربالخصوص پڑوسی عرب ممالک کواسرائیل کوتسلیم کرنے کے بعدہمیشہ کیلئے نہ صرف خاموش کردیاگیاہے بلکہ ان کوبرملاباورکرادیاگیاہے کہ اپنے اقتدارکی سلامتی کیلئے امریکاکی قدم بوسی کے بغیرچارہ کارنہیں اور اسی اقتدارکی خواہش نے ملی اہمیت کاگلاگھونٹ کررکھ دیاہے۔ قصر سفید کے مکیں نے اب اسرائیل کوعالم اسلام کے اس ندامت کے گھرکاپتہ بھی اپنے غلاموں کی فہرست کے ساتھ فراہم کردیا ہے کہ اسرائیل کوان عربوں کے ساتھ سفارتی تعلقات کی کامیابی کے بعد’’گریٹراسرائیل‘‘کے منصوبے میں حائل دیگررکاوٹیں بھی جلددورکردی جائیں گی۔
لیکن میراغم تویہ ہے کہ انسانی المیوں کی اس زنجیرکاکیاہوگاجسے ان کی خاموشی نے د ائرہ دردائرہ،حلقہ در حلقہ ایک خوفناک انتقام کی آگ کی وادی میں دھکیل دیاہے جس کے خوفناک اثرات آنے والے وقتوں میں ظاہرہوناشروع ہوں گے۔باقی رہا اسرائیل،تووہ اپنے ظلم کابیج بوکرغزہ اورفلسطین میں ہی نہیں،عالم عرب میں ردِعمل کی فصل کاٹنے کاساماں کررہا ہے۔اسامہ جیسے کردارانہی مظاہر سے پیداہوتے ہیں اورانہی سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔سچ تویہ ہے کہ مستقبل کے کسی اسامہ کوپاکستان کے پہاڑوں اورافغانستان کے جنگلوں کی حاجت نہیں ہوگی بلکہ غزہ کے کھنڈروں،خون میں لتھڑے جسموں،بازوں پرسجے اور سینے سے لگے معصوم لاشوں اوربین کرتی عورتوں کے آنسوؤں میں ان کاجم غفیر ایک سیلاب کی طرح نمودارہوگااوریقیناوہ وقت اپنا انتقام انہی امریکی وصہیونی غلاموں جیسی جنس سے شروع ہوگااورہرکوئی پکاراٹھے گا الامان الحفیظ!
آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا

 

Comments are closed.