دارالعلوم محمودیہ اون سورت گجرات میں تکمیل حفظ قرآن کی ایک بابرکت مجلس

حضرت اقدس مولانا رحمت اللہ صاحب کشمیری(دامت برکاتہم)
خلیفہ حضرت فقیہ الامت ؒ۔رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند۔مہتمم دارالعلوم بانڈی پورہ کشمیر
وحضرت مفتی محمود صاحب بارڈولوی مدظلہ العالی
استاذِ حدیث جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل ۔وذمہ دار نورانی مکاتب کی شرکت
رپورتاژ: مولاناعبدالقیوم قاسمی
مہتمم دارالعلوم محمودیہ اون سورت ومدیرماہنامہ اذان ہندگجرات
آج بتاریخ ۱۴؍ رجب المرجب۱۴۴۳ھ مطابق ۱۶؍ فروری ۲۰۲۲ء کو مفتی رشید احمد فریدی مدظلہ العالی(استاذ مدرسہ مفتاح العلوم تراج) کا فون آیا کہ حضرت مولانا احمد بزرگ صاحب عمت فیوضہم العالیہ کا فون آیا ہے کہ حضرت اقدس مولانا رحمت اللہ صاحب کشمیری دامت برکاتہم رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند،اور مفتی محمود بارڈولوی صاحب استاذِ حدیث جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل آپ کے ادارے میں تشریف لارہے ہیں،آپ تکمیل حفظ والے طلباء کو فوراً جمع کر لیںاور مہتمم صاحب سے بات کر لیں، میں نے افتاں و خیزاں حضرت مہتمم صاحب کو فون کیا تو انھوں نے بھی یہی خوشخبری سنائی ۔
ادھر واٹس ایپ پر نظر پڑی تو حضرت سیدی و مولائی شیخنا المکرم متبع ِسنت پیرِ طریقت حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب پانڈور (خلیفہ و جانشین حضرت فقیہ الامت ؒ) کا دو کال[جو کہ موبائل سائلنٹ موڈ میں ہونے کی وجہ سے ریسیو نہ کرسکا ۔فالیٰ اللہ المشتکیٰ] اور پیغام درج تھا کہ مولانا رحمت اللہ صاحب دامت برکاتہم سے بچوں کی تکمیل حفظ کروا لیں،میں حضرت والا دامت برکاتہم کی دربارِعالیہ میں درخواست پیش کر کے آیا تھا کہ حضرت کچھ بچوں نے تکمیل حفظ کی ہے، میری اور طلباء کی بڑی خوش نصیبی ہوگی کہ حضرت والا دامت برکاتہم اس مبارک مجلس میں تشریف لائیں،لیکن وقت کی قلت اور کام کے انبار کی وجہ سے حضرت والا تو تشریف نہیں لاسکے،لیکن حضرت والا نے یہ احسانِ عظیم فرمایا کہ حضرت فقیہ الامت ؒ کے چہیتے خلیفہ وادی کشمیر کیا بلکہ ہندوستان کے نقیب، دارالعلوم دیوبند کے رکنِ شوریٰ اور دارالعلوم بانڈی پورہ کے مہتمم، عظیم المرتبت، رسالہ النور کے ایڈیٹر،حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب کشمیری مدت فیوضہم العالیہ اور نورانی مکاتب کے ذمہ داراستاذِ حدیث جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین کے مؤقر ومعتمد حضرت مفتی محمود صاحب دامت برکاتہم کو اس عظیم کام کی ذمہ داری عطا کی ،الحمد للہ دونوں صاحبان تشریف لائے۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔
تمام اساتذہ اور طلباء اور دیگر مدرسے کے محبین و مخلصین آناً فاناً جو آسکے دارالعلوم کی عظیم الشان مسجد جامع حجۃ الاسلام( بیاد گار حضرت مولانا قاسم النانوتویؒ بانی دارالعلوم دیوبند) میں جمع ہوگئے،اور ان اکابر اور دیگر علماء کے سامنے دونوں طلباء[۱]حافظ رضوان عالم بن محمد صابر عالم مقام مہوا،تھانہ کونچا دھامن ضلع کشن گنج بہار[۲]حافظ محمد علی بن محمد اظہار عالم مقام سندر باڑی تھانہ کونچا دھامن ضلع کشن گنج بہار نے قرآن پاک کا آخری سبق پڑھا۔
حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب عمت فیوضہم العالیہ نے بہت مختصر مگر بہت ہی پر مغز خطاب قرآن کریم اور حفظِ قرآن و حفاظ کی فضیلت پر مشتمل اس طرح فرمایا کہ !قرآن کریم کا حفظ کرنا بڑی سعادت کی بات ہے،اور یہ حفظ کرنے والوں کے لئے بھی مبارکبادی ہے ،اور ان کے والدین کے لئے بھی مبارکبادی ہے،اور جس جگہ حفظ کیا وہ جگہ اور ادارہ بھی قابلِ مبارکباد ہے،اور جو لوگ ان پڑھنے پڑھانے والوں کی اعانت کرتے ہیں،محبت کے ساتھ ان کو دیکھتے ہیں،ان کی خدمت کرتے ہیں ان سے تعلق رکھتے ہیں،ان کے لئے بھی مبارکباد ی ہے،اس لئے کہ دنیا میں ہر کوئی بہتر بنناچاہتا ہے،نبی پاک ﷺنے فرمایا!بہترین کون ہے تو فرمایا ’’من تعلم القرآن وعلمہ‘‘جو قرآن پاک سیکھے اور دوسروںکو سیکھائے،اور قرآن پاک کی عزت اور نسبت کی وجہ سے آج بھی انسان کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے،کسی کے سمجھ میں آئے نہ آئے،پھر بھی آدمی وہ مقام حاصل کر لیتا ہے جو قرآن کریم واحادیث مبارکہ میں مذکور ہے۔
ان چھوٹے چھوٹے بچوں سے میں پوچھتا ہوںآپ کے گھر میں تین صندوق ہے،ایک صندوق میں دولاکھ روپے رکھے ہیں،دوسرے صندوق میں قیمتی زیورات رکھے ہیں،اور ایک صندوق میں قرآن پاک رکھا ہے،اور گھر والے کہیں گے کہ ان صندوقوں کو ایک کے اوپر ایک رکھ دوتو بتاؤ! بچوسب سے اوپر کونسا صندوق رکھا جائے گا،تو بچوں نے جواب دیا قرآن کریم والا باکس اوپر رکھا جائے گا،جب کہ روپیہ والا اور زیور والا صندوق لاکھوں کا ہے،اور قرآن پاک سو دو سو روپے کا مل جاتا ہے،تو کیا وجہ ہے ؟قرآن والا باکس اوپر رکھا جارہا ہے،اس لئے کہ ہر ایمان والے کا دل جانتا ہے کہ جو قیمت قرآن پاک کی ہے،وہ کسی دوسری چیز کی نہیں،اور یہ قرآن پاک ہی کی برکت ہے کہ اس نے بے جان صندوق کو دوسرے صندوقوں سے زیادہ عزت دے دی،جب کہ شکل میں تو تینوں صندوق ایک جیسے ہی ہیں،لیکن قرآن پاک رکھنے کی وجہ سے اس صندوق کو یہ عزت ملی ،اسی طرح سے جس انسان کو اللہ پاک قرآن پاک دے دیتے ہیں اور ان کو حافظِ قرآن بنادیتے ہیں،وہ دوسرے انسانوں سے زیادہ عزت دار بن جاتا ہے ،اور اس کا سینہ قرآن پاک کا صندوق بن جاتا ہے،اور وہ دوسروں سے مختلف ہوجاتاہے، اور اللہ کی طرف سے ان کو عزت ملتی ہے،اسی لئے سب لوگ حفظ کرنے والوں کا احترام کرتے ہیں ،اور سب لوگ حافظ کی دستار بندی کرتے ہیں،اور اس کے پاس آکر دعا میں شامل ہوتے ہیں،اور جو لوگ ان سے تعلق رکھتے ہیں ان کی بھی عزت ہونے لگتی ہے،ان حفاظ کے خیالات بہت اچھے ہوتے ہیں،ان کی آنکھیں قرآن پاک کی دیدار کرتی ہیں،اور اس کی زبان قرآن بولتی ہے، اسی عمر کے بہت سے بچوں کو سورت شہر میں دیکھا ہوگا جو جوتا پالش کرتے ہیں،ان کی آنکھیں دن بھر جوتوں کو دیکھتی ہے اور ان کی زبان کہتی ہے، لاؤ صاحب جوتا پالش کردوں،ان کے ایک ہاتھ میں برش ہوتا اور دوسرے ہاتھ میں جوتا چپل اور اس کے اوزار ،تو کتنی مبارکبادی اور سعادت مندی کے مستحق ہیں وہ بندے جن کے ہاتھ میں قرآن پاک ہوتاہے،وہ اس کی خدمت کرتا ہے،اس کی آنکھیں قرآن کریم کودیکھتی ہے،اور اس کی زبان ہر وقت قرآن بولتی ہے،اس لئے جس کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن کریم کی دولت سے نوازا اس کو بڑا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اے اللہ آپ نے ہمیں قرآنِ پاک عطا کیا ،اب میںاپنی پوری زندگی اسی قرآن پاک کے ساتھ گزاروں گا۔
اور جو لوگ ان قرآن پڑھنے پڑھانے والوں کے ساتھ اور جس جگہ یہ قرآن پڑھا جاتا ہے،اس جگہ کے ساتھ اپنا تعلق جوڑتے ہیں، محبت رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کو بھی عزت اور دولت سے نوازتے ہیں جیسے بے جان صندوق کو اللہ نے عزت سے نوازا۔
اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی قبول فرمائے،ان کے والدین کو بھی قبول فرمائے،اور جہاں پڑھایا جارہا ہے اس ادارے کو بھی قبول فرمائے،اور جو ان سے تعلق رکھتے ہیں ان کی خدمت کرتے ہیں،محبت رکھتے ہیں،ان سب کو قبول فرمائے،اور اللہ توفیق عطا فرمائے کہ ہمارے گھروں میں اسی طرح حافظ کلام اللہ پیدا ہوں،اور قیامت میں ہمارا بھی وہ اعزاز ہوجس کو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت میں حافظ قرآن کے والدین کو ایسا تاج پہنایا جائے گا جس پر لوگ رشک کریں گے۔
اور اس کے بعد حضرت دامت برکاتہم کی مستجاب دعا پر مجلس اختتام پزیر ہوئی ۔
حضرت مولانا نے ہی ان بچوں کے سروں پر دستار باندھا اور سندِ حفظ عطا کی،بندے نے جلدی سے اپنی مرتب کردہ کتاب’’ تذکرہ موسیٰ پانڈور‘‘ اور اپنے یہاں سے نکلنے والا رسالہ ’’اذانِ ہند ‘‘کا مختلف رسالہ پیش کیا،اور بدقت تمام ناریل پانی سے ہی ضیافت کرنے میں کامیاب ہوسکا،اور دارالعلوم محمودیہ کی عمارت، مطبخ اور کھانے کے ہال کو دیکھایا جس پر حضرت دامت برکاتہم نے فرمایا ماشاء اللہ یہ تو بڑا اچھا ادارہ ہے۔
اور پھر جلدی جلدی شرکائے کرام کے سامنے ناشتہ پیش کیا گیا جس کا کچھ انتظام تو میرے برادر نسبتی حافظ ضیاء الدین اور عبد المجید بھائی کی طرف سے اور کچھ دیگر احباب کی طرف سے تھا ۔فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔۔۔۔
شرکاء میں قابلِ ذکر ہمارے مدرسے کے محسن احسان بھائی قریشی، میور بھائی، اقبال بھائی، عرفان بھائی، حاجی لیاقت ،محبوب بھائی اور قاری توصیف اکلیروی اور نورانی مکاتب کے اساتذہ کرام بھی شامل تھے۔
اساتذۂ کرام میں جناب قاری نعمان وریاویٰ اکلیروی،[جن کے پاس ان طلباء نے تکمیل حفظ کی سعادت حاصل کی ] نیزمولانا سجاد صاحب حسینی، حافظ ابصار ،حافظ علقمہ سلمہ اور حافظ شائق وعزیزم اسامہ نے بہت جلد پروگرام کو مرتب کردیا،اور حضرت دامت برکاتہم کو آنے تک مجمع کو جناب مولانا صدیق صاحب قاسمی[مہتمم تعمیرِ ملت خیرا ضلع بھاگل پور بہار]نے اپنے پر خلوص بیان سے سنبھالے رکھا ۔۔فجزاہم اللہ احسن الجزاء
فقط محتاجِ دعا عبد القیوم قاسمی،خادم دارالعلوم محمودیہ اون سورت گجرات
مدیر :اذانِ ہند اون سورت گجرات
۹۸۷۰۰۶۷۸۰۶
۱۶؍فروری ۲۰۲۲ء
Comments are closed.