معاشرے پر میڈیا کے اثرات

فرح جبین محمد منصور سیّد
ایم۔اے سال دوم
فی زمانہ ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کا ہر کام ٹیکنالوجی کے مرہون منّت ہو چکا ہے۔ یہ بالکل علّامہ اقبال کے شعر؎
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کے مطابق ہے ۔ موجودہ دور ٹیکنالوجی کا بھر پور استعمال کر رہا ہے طرح طرح کی ٹیکنالوجی اور مختلف قسم کےسافٹ ویئر کے استعمال نے ہر کام کو ایک انگلی کے اشارے پر لا کر رکھ دیا ہے۔ یہاں کلک کیا اور وہاں کام ہو گیا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ہر ملک اور ہر قوم صبح و شام اپنی تقدیروں کو بدل رہی ہیں اور بڑی تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ہو رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے دنیا بھر میں ایک اہم ترین تبدیلی رونما کی ہے۔
ٹیکنالوجی کو اپنا کر آج ہم نے ہر میدان فتح کیا ہے اس بات کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ موجودہ دور میں ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام اس کی ہی مدد سے انجام پا رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر کمپيوٹر ، انٹرنيٹ ، موبائل وغیرہ وغیرہ۔ کسی بھی شعبےمیں ہم نظر دوڑالیں دور دور تک ہمیں ٹیکنالوجی کا اثر نظر آئے گا۔ ان ہی سب ٹیکنالوجی میں ایک اہم ترین کامیابی سوشل میڈیا نے حاصل کی ہے۔ دنیا بھر میں سوشل میڈیا کا استعمال کیا جا رہا ہے۔جس سے ہر عمر کے لوگ استفادہ کر رہے ہیں۔ جس کی ضرورت ہر عمر کے لوگوں کو اور ہر شعبے کو ہے۔سوشل میڈیا ایک ایسا آلہ ہے جو لوگوں کو اظہار رائے ، تبادلہ خیال، تصویر اور ویڈیوز ( Videos) نشر کرنےکی اجازت دیتا ہے۔ جس کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت پوری دنیا ایک دورے سے جڑ گئی ہے ۔ سوشل ویب سائٹس میں زیادہ تر لوگ فیس بک ، ٹیوٹر ، یو ٹیوب ، گوگل پلس اور لنکڈان وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں اور ان پلیٹ فارم ( Plateform ) پر اپنا اظہار خیال یا رائے پیش کرتے ہیں ۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا موجودہ دور میں خبر رسانی میں سب سے اہم رول ادا کر رہا ہے۔ پہلے پہل صحافت اخبار کے ذریعے کی جاتی تھی جسے ہم پرنٹ میڈیا ( Print Media) کے نام سےجانتے ہیں جس میں خبر کی تصدیق کے بعد اسے مضمون کی شکل میں شائع کیا جاتا ہے۔ اب موجودہ دور میں یہی صحافت print media کے ساتھ ساتھ الیکٹرونک میڈیا electronic media ہو گئی ہے۔ اب صرف خبر جاننے کے لئے اخبار ہی نہیں بلکہ ہم بہت ہی آسانی سے ٹی وی نیوز چینل ، ریڈیو اور یہاں تک کے موبائل پر بھی خبر یں دستیاب ہیں۔ ایک ہی وقت پر اور ایک ہی کلک پر ہمیں بیک وقت دنیا بھر کا حال مل جاتا ہے۔ لیکن ہمیں سوشل میڈیا کے فوائد کے ساتھ ساتھ نقصانات کو بھی مدّنظر رکھنا چاہئے۔ میڈیا کے معاشرے پر پڑ رہے برے اثرات پر بھی غور کرنا چاہئے ۔ جہاں دنيا ان ٹیکنالوجی سے استفادہ کر رہی ہے وہیں اس کا غلط استعمال بھی اتنی ہی تیزی سے ہورہا ہے جس کا برا اثر معاشرے کو تباہ کررہا ہے۔ صحافت کو ٹیکنالوجی نے جتنا فائدہ بخشا ہے اتنا ہی نقصان بھی پہنچایا ہے۔صحافت کا بنیادی فریضہ خبر رسانی ہے ۔ خبر کو قابل مطالعہ انداز میں تحریر کرنے اور پھر بلا تاخیر قارئين تک پہچانے میں صرف ہوتی ہے۔ لیکن موجودہ دور میں صحافت کے اندر ان سب باتوں کا کوئی معنی نہیں رہ گیا ہے۔
آج کےدور کی میڈیا پوری طرح سے بک چکی ہے۔ جسے ہم یلّو جرنلزم ( Yellow Journalism ) کے نام سے جانتے ہیں۔ زیادہ تر خبریں ہوتی نہیں بلکہ بنائی جاتی ہے جسے ہم پیڈ نیوز (Paid news) کہہ سکتے ہیں ۔ آج کل کی میڈیا معاشرے میں خبر رسانی کی بجائے بدامنی پھیلانے میں زیادہ کامیاب ہو رہی ہے۔ بلاوجہ کی تعریف سے سیاسی پارٹیوں کو ہیرو بنانے ، سیاست دانوں کا قد اونچا کرنے ، حکمرانوں کو شہرت دینے اور اصل خبر کو چھپا کر غلط خبر دکھانے میں میڈیا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
لیکن ذرائع ابلاغ (میڈیا) کی وسعت کے اس انقلاب آفریں دور میں ہندوستان اکیلا ملک نہیں ہے جہاں حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں کو میڈیا کے ذریعے اس انداز میں دکھایا جا رہا ہو مانو وہ حکمران نہ ہوں ملک کے لئے مسیحا ہوگئے۔ لیکن اس کے بر عکس سیاسی حکمران اور دیگر سیاسی پارٹیاں صرف اور صرف ملک کو تباہ کرنے پر تلی ہے۔ آج جس طرح کی سیاست کی جارہی ہے اس نے لوگوں کو ذہنی بیمار اور ذہنی اپاہج بنا کر رکھ دیا ہے۔ میڈیا ہر اس موضوع، نظریہ، خیال، تحریک اور تبدیلی پر صحیح خبر دینے کی بجائے اشتعال انگیز اور بھڑکاؤ بیان دے کر غلط سلط سرخیاں یا عنوان دے کر، دلبرداشتہ کر دینےوالے جملے کس کر لوگوں میں بے چینی اور بدامنی، فساد، لڑائی ، جھگڑے، بے حیائی اور غلط خبر پھیلانے کا سبب بن رہا ہے۔
میڈیا کے تمام چینلز منافع کے حصول کی خاطر یہ سارا کارخانہ سجا کر بیٹھے ہیں۔ ان چینلز یا نیوز ویب سائٹس ( Web sites) کی اگر بات کی جائے تو یہ قوم کی اصلاح یا ترقی نہیں بلکہ اپنی T.R.P اور منافع پر زیادہ دھیان دے رہی ہے۔ جس کا اثر ہم کو صاف نظر آتا ہے۔ ہر طرف صرف اور صرف نفرت اور کڑوے بول بولے جا رہے ہیں ۔ میڈیا خاص طور پر دو مذہب کے بیچ میں نفرت کا سبب بن گیا ہے۔ اکثر اسطرح کا میڈیا مختلف قسم کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے غلط خبر بنا کر پیش کرتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی بھی پرانے فساد کے ویڈیوز پر غلط سرخیاں (headlines) لگا کر یا پھر تصویروں یا ویڈیوز کو ایڈیٹینگ (editing) کر کے لوگوں تک اس انداز میں پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں نا اتّفاقیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ اکثر لوگ کسی بھی خبر کی تصدیق کیے بنا ہی اسے جلد (viral) کر دیتے ہیں اور تحقیق سے پہلے ہی خبر پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں بد امنی اور چلاپکار کا ماحول سا بن جاتا ہے۔
صحافت کرتے وقت ایک صحافی کو ضروری ہوتا ہے کہ وہ پہلے خبر کی تصدیق کرے اور پھر اسے عوام کے سامنے بہترین الفاظوں میں پیش کرے۔ ایک صحافی کے لئے یہ بہت ضروری ہوتا ہے کہ اس کا انداز بیان ، اس کا لب ولہجہ ، اس کی بوڈی لینگویج ( body language ) اور الفاظ کی ادائیگی بہترین طرز کی ہو ۔ لیکن موجودہ دور میں صحافی یا میڈیا اس قدر سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن چکا ہے کہ خبر کی ادائیگی کرتے وقت جھوٹ ، تہمت باندھا ، بےحیائی کا کھلے عام اظہار ، بے معنی باتیں ، نا شائستہ اور بے ہودہ زبان کا استعمال کر رہا ہے۔
جس کی وجہ سے معاشرے میں صرف غلط خبر ہی نہیں بلکہ غلط انداز اور بے ہودہ زبان بھی عوام میں اس ہی تیزی سے پھیل رہی ہے جس طرح غلط خبریں ۔جس کا معاشرے پر سب سے زیادہ بچوں اور نوجوان نسلوں پر اثر ہورہا ہے۔ آج ملک کا ہر بچہّ بچہّ اپنے ہاتھوں میں موبائیل رکھتا ہے۔ آج کے جدید دور میں دنیا بھر میں اس کا استعمال تسلسل کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور یہ نو جوان طبقہ میں زیادہ مقبولیت رکھتا ہے۔ ہر بوڑھے ، جوان اور بچے کا اپنا ای۔میل۔آئی ڈی ( Email ID) ، فیس بک ( face book) اور ٹیوٹر اکاونٹ ( twiter account) ہوتا ہے جس کے ذریعے نوجوان نسل اکثر ان خبروں پر اپنی رائے رکھتے ہوں نازیبا الفاظ ، یہاں تک کہ گالی گلوچ کا استعمال بھی کر جاتےہیں ۔ اور یہ صرف اور صرف ریاستی ادارے ، حکمران طبقات اور بکی ہوئی صحافت (میڈیا) کے ہی وجہ سے ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا سے مراد آپس میں بات چیت کا ایسا فورم ہے جہاں مختلف لوگ مل کر بیٹھ کر آپس میں اپنے خیال بانٹتے ہیں اور اپنا نقطہ نظر رکھتے ہیں لیکن آج اپنی بات رکھنے کی بجائے ٹیلی ویژن ، نیوز چینلز ، فیس بک یا ٹیوٹر وغیرہ پر بے بنیاد کی بحث چل رہی ہوتی ہے۔ ایک دوسرے پر تنقید اور گالیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
سچّی خبر ، سچّی صحافت یا ایک سچّا صحافی اس معاشرے میں اب بہت کم ہی رہ گئی ہیں اور وہ بھی سیاسی لیڈروں کے ظلم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔ آج ہم ذرائع ابلاغ (media) کو مڑ کر دیکھتے ہیں تو دور دور تک دھند ، جھوٹ اور غلطیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ہے۔ یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ ہندوستان میں اس وقت کتنے نیوز چینلز ہے جو بک چکے ہیں اور جنھیں صرف اور صرف T.R.P اور منافع کی فکر ہے اور یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ ان چینلز کی بالکل صیح تعداد کیا ہے۔ ہاں یہ ضرور کہ سکتے ہے کہ کچھ ہی نیوز چینلز اور ایماندار صحافی موجود ہیں جو سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں۔ جو اپنی محنت اور اپنی لگن سے بلا شبہ اپنی جان کی پرواہ کیے بنا عوام تک سچّی ، ضروری اور اہم خبر پہنچا رہے ہیں ۔
جہاں بکی ہوئی میڈیا ٹاک شوز ( talk shows) کرتی ہے جس پر نہ عام آدمی کو چھوڑا جاتا ہے اور نہ ہی سیاسی حکمران کو ۔ اور اب یہ ٹاک شوز بحث و مباحثہ سے زیادہ کسی گھریلو لڑائی کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے ۔ اوپر سے وقفے وقفے پر چلتی بریکنگ نیوزکے نام پر ایک ہی بات کو دہرا دہرا کر اتنا اہم بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ مضحکہ خیز ہی لگنے لگتی ہے۔ میڈیا ان بریکنگ نیوز اور بے مطلب ٹاک شوز کے نام پر صرف لوگوں کے دماغ کو معذور اور محتاج کر رہی ہے۔ وہیں سنجیدہ میڈیا اور سچّے صحافی تبدیلی لانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ میڈیا کا کام لوگوں کو با خبر رکھنا ہے انہیں غلط راہ پر چلانا یاانہیں تشدّد پسند بنانا نہیں۔ لیکن جس طرح سےاحتجاج اور جلسے جلوسوں کی ویڈیوز جاری کی جاتی ہیں اور جس طرح سے عوام کو نشانہ بنایا جاتا ہے کبھی ذات پات کے نام پر کبھی مذہب کے نام پر ۔ یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش ہوتی ہے۔جس کا مقصد صرف اور صرف عوام کو آپس میں لڑانا ہوتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا ایک ایسا کنواں بن چکا ہے ۔ اس میں جو چاہو ہاتھ ڈالو اور نکال لو۔ سچ بھی اور جھوٹ بھی ۔ اور معاشرے پر اس کے یہ اثرات ہیں کہ سچ بھی جھوٹ محسوس ہوتا ہے کیونکہ جھوٹ کو اتنے پہناوے پہنا دیے جاتے ہیں کہ سچ کا گماں ہوتا ہے اور معاشرہ سچ اور جھوٹ کا فرق سمجھنے سے قاصر ہے ۔

Comments are closed.