سب سے اچھا وہ ہے، جس کے اخلاق و کرادر اچھے ہوں

مولانامحمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ
قرآن و حدیث کی روشنی میں اگر کسی کو سب سے اچھا اور بہتر انسان قرار دیا جائے تو سب سے بہتر اور کامل وہ شخص قرار دیا جائے گا جو اخلاق حسنہ اور کردار و کریکٹر کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے ممتاز اور نمایاں ہوگا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ احب عباد اللہ احسنکم خلقا۔ (المستدرک للحاکم ۴/ ۱۹۸)
اللہ کے بندوں میں سے اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو ان میں سب سے زیادہ بااخلاق ہے ۔
اسلام میں اخلاق حسنہ کی اہمیت کیا ہے ؟ اس کا اندازہ اس لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کی اصل غرض و غایت اخلاق و اعمال کے مکارم و محاسن کی تکمیل قرار دیا ۔
پتہ یہ چلا کہ سماج و معاشرہ اور انسانی سوسائٹی میں سب سے زیادہ ایمان میں کامل اور سب سے بہتر اور کامیاب شخص وہ ہے، جو اخلاق حسنہ میں ممتاز اور نمایاں ہے۔ ایسا شخص اللہ تعالی کو بھی سب سے زیادہ محبوب ہوگا اس لئے کہ اللہ تعالی کے یہاں مقام محبوبیت حاصل کرنے کے لئے کمال ایمان ضروری ہے ،اور کمال ایمان جس قدر حسن اخلاق سے حاصل ہوتا ہے ،اتنا نفلی عبادات سے بھی حاصل نہیں ہوتا ۔
لوگ غلط فہمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا محبوب و منظور اسے سمجھتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ عبادت گزار ہو،قیام لیل کا پابند ،اوابین کا عادی ہو ،تلاوت و تسبیحات اور ذکر و اذکار میں ہمیشہ مشغول رہتا ہو ۔ لیکن اس حدیث شریف نے اس غلط فہمی کو دور کر دیا ۔
اس میں شک نہیں کہ نفلی عبادات سے اللہ کا قرب و تقرب حاصل ہوتا ہے فرائض میں ہوئ کمیاں اور نقائص کی تلافی ہوتی ہے لیکن قرب الہی حاصل کرنے کا اس سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو حسن اخلاق سے آراستہ کرے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؛ ان احبکم الي و اقربکم منی فی آلاخرة مجالس احسانکم اخلاقا و ان ابغضکم الیی و ابعدکم منی فی الآخرة اسوءکم اخلاقا۔ ( جامع ترمذی حدیث نمبر ۲۰۱۸)
تم میں مجھے سب سے زیادہ محبوب اور آخرت میں ہم نشینی میں میرے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو تم میں اخلاق میں سب سے زیادہ اچھے ہوں گے، اور تم میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور آخرت میں مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جو تم میں اخلاق کے اعتبار سے زیادہ برے ہوں گے ۔
انسان حقیقت میں ایک اخلاقی وجود ہے ۔ اس کے اچھے یا برے ہونے کا اصل معیار، کسوٹی اور پیمانہ اخلاق ہی ہے ۔ زندگی کی قدر و قیمت متعین کرنے میں اصل فیصلہ کن چیز اخلاق ہی ہے ۔ اس لئے کامیاب اور مبارک باد ہیں وہ لوگ جو اخلاقی لحاظ سے اپنے کو بہتر حالت میں دیکھنے کی دل میں تمنا اور خواہش رکھتے ہیں ۔
یہ حقیقت ہے کہ انسان کو دنیا میں جو کچھ عطا ہوا ہے ان میں ایمان اور عمل صالح کے بعد سب سے بہتر چیز حسن اخلاق ہے ۔
چنانچہ روایت میں آتا ہے قبیلہ مزینہ کے ایک شخص سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! انسان کو جو کچھ عطا ہوا ہے اس میں سب سے بہتر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حسن اخلاق (بیہقی شعب الایمان )
اخلاق کی اہمیت اور اس کے مقام و مرتبہ کا اندازہ ان احادیث سے لگایا جاسکتا ہے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ اخلاق در حقیقت فطری جذبات و احساسات ہی کا دوسرا نام ہے ۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک غیر مرئ شے ہے ۔ جس کا اظہار آدمی کے مختلف اعمال و افعال اور کردار و سلوک سے ہوتا رہتا ہے ۔ ارادہ و اختیار و احساسات کے صحیح اور بہترین استعمال سے اس زندگی کی نمود ہوتی ہے جس کو ہم مثالی اور پسندیدہ زندگی کہتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی زندگی کو مختلف اکائیوں میں تقسیم کرنے کے بجائے اسے ایک ’’کل‘‘قرار دیا ۔ اور زندگی کے ہر پہلو اور اس کے ہر شعبہ سے متعلق خواہ اس کا تعلق معاشرت و معیشت سے ہو یا حکومت و سیاست سے، اخلاق کے صحیح اصول و ضوابط بیان فرمائے ۔ انہیں عملا زندگی میں برت کر دکھایا اور انہی اصولوں پر سوسائٹی اور ریاست کا نظام اور نظم و نسق قائم فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق و کردار کو فرسودہ اور محدود تصور سے پاک کرکے اسے وسیع تر مفہوم بخشا اور اس کو آفاقیت عطا فرمائ ،یہاں تک کہ انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا کوئی حصہ بھی اخلاق سے الگ اور آزاد نہ رہا اور زندگی اس اصول و ضابطہ سے ہم آہنگ ہوگئ جو اصول و ضوابط ہم کو کائنات میں کار فرما دکھائی دیتا ہے (کلام نبوت ۲/)
انسانی زندگی میں اخلاق حسنہ(حسن خلق) کو جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی سے مخفی و پوشیدہ نہیں ہے اور اس کی اہمیت و افادیت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہوسکتا ۔ قوموں کی تاریخ میں کسی ایسی قوم کی مثال نہیں ملتی ،جس میں نیکی و بدی خیر و شر اور صحیح اور غلط کا سرے سے کوئی تصور نہ پایا جاتا رہا ہو ۔ جو لوگ جبریت (Determinism) کے قائل ہیں وہ بھی علی الاعلان اس بات کا دعوی نہیں کر سکتے کہ ان کے نزدیک جھوٹ اور سچ میں حق اور ناحق میں صحیح اور غلط میں یا ایمان داری اور مکر و فریب میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اس سے کس کو انکار ہے ؟ کہ تقوی و طہارت، سچائ، راستی، خیر پسندی اور سلامت روی انسان کی مطلوب صفات ہیں ۔ انسانی ضمیر کے لئے یہ کبھی ممکن نہیں ہو سکتا کہ وہ ایفائے عہد کے مقابلے میں مکر و فریب کو ،ایثار و قربانی کے مقابلے میں خود غرضی کو اور جذبئہ اخوت و ہمدردی کے مقابلے میں بغض و عناد، حسد و تعصب اور ظلم و ستم و جبر و تشدد کو بہتر سمجھنے لگے ۔
اخلاق کی قدر و قیمت اور حقیقت کو سمجھانے اور ذھن میں نقش کرنے کے لئے ماہرین اخلاقایات نے بہت کچھ لکھا ہے ۔ جس کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے ۔
انسانوں سے کسی خاص قسم کے اخلاق کے مطالبے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ہم انسان کو صاحب اختیار و ارادہ سمجھتے ہیں ۔ اس لئے کہ جہاں کوئ ارادہ و اختیار نہ پایا جاتا ہو وہاں کسی اخلاق و کردار کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اخلاق کا تعلق اور نسبت انسان کے ارادہ و اختیار سے ہے ۔ انسان کو دنیا میں ارادہ و اختیار کی آزادی حاصل ہے اس لئے اس کا ایک اخلاقی وجود ہے ۔ یہی چیز ہے جو اسے عام حیوانات سے ممتاز کرتی ہے ۔ ( کلام نبوت ۲/ ۱۵)
انسانی زندگی میں اخلاق کی اس قدر اہمیت اور ضرورت کے بعد بھی معیاری اور انسانی اوصاف و کمالات اور اخلاق و کردار کے حامل کم ہی لوگ ملتے ہیں لیکن اس سے ہم کو مایوس نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ اچھے اور باکردار لوگوں کی تعداد ہمیشہ اور ہر زمانے میں کم رہی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت اور سچائی کو ایک جامع مثال سے سمجھایا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انما الناس کالابل المأة لا تکاد تجد فیھا راحلة (بخاری و مسلم )
لوگ ان سو اونٹوں کے مانند ہیں جن میں مشکل ہی سے تم کسی کو سواری کے قابل پا سکو ۔
یعنی جس طرح اونٹوں کی ایک کثیر تعداد میں اپنے مطلب کا اونٹ آسانی سے نہیں ملتا یہی حال انسانوں کا بھی ہے ۔ کہ بااخلاق ،معیاری اور انسانی اوصاف و کمالات کے حامل لوگ کم ہی ملتے ہیں ۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ جامع حدیث ہمارے پیش نظر رہے تو ہم اس صورت حال سے کبھی بدل اور مایوس نہیں ہوں گے ۔ اور ہمارے اندر اس یقین کا استحضار بھی ہوگا کہ تھوڑے افراد بھی معیاری قسم کے میسر آجائیں تو وہ ایک بڑی اکثریت پر بھاری ہوں گے ۔ اور ان کے ذریعہ سے بڑے سے بڑا کارنامہ انجام پاسکتا ہے تاریخ انسانی ہمیں یہی بتاتی ہے اور اس کی ہزاروں مثالیں تاریخ کے روشن اور تابندہ صفحات میں موجود ہیں ۔
ہم سب کو یہ تسلیم ہے کہ حسن اخلاق اپنے ظاہر اور نتائج کے اعتبار اور لحاظ سے اللہ کی طرف سے ایک بہت بڑی عطا ہے ۔ حسن اخلاق میں جو جاذبیت،کشش،مقناطیسیت اور حسن و جمال پایا جاتا ہے اس کا کسی اور شے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اخلاق میں جو مقناطیسی قوت اور اثر ہے وہ کسی کرامت (Miracle ) میں بھی نہیں ہے ۔ اخلاقی طاقت سے دشمنوں کے دل بھی مفتوح ہو جاتے ہیں ۔ اور ایک داعی و مبلغ اور ہادی و رہبر کی زندگی میں تو اخلاق کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور نرم دلی کو قرآن مجید نے خدا کی رحمت قرار دیا ہے ۔ کار نبوت کے انجام دینے میں اس اخلاقی وصف کی جو اہمیت ہے اس پر بھی قرآن نے روشنی ڈالی ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے : فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک فاعف عنھم و استغفر لھم و شاورھم فی الامر( آل عمران : ۱۵۹) اے نبی ص ! یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم (آپ) لوگوں کے لئے نرم مزاج ہو۔ اگر کہیں تم تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب تمہارے پاس سے چھٹ جاتے ۔ تم انہیں معاف کردو اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کرو اور دین کے کام میں انہیں بھی شریک مشورہ رکھو ۔
غرض یہ کہ حسن اخلاق انسان کے لئے ایک لازمی اور ضروری وصف ہے ۔ یہ وہ وصف ہے جس سے بہت سی چیزوں کی تلافی ممکن ہے ۔ یہاں تک کہ اپنے اخلاق کے ذریعہ سے آدمی اس شخص کے درجہ اور مقام کو بھی حاصل کرلیتا ہے جو راتوں میں عبادت کرتا ہے اور دن میں روزہ رکھتا ہے ۔ بااخلاق مومن حقیقت کی نگاہ میں ہمیشہ اللہ تعالی کی بندگی و اطاعت کی حالت میں ہوتا ہے ۔ اس کی روح پاکیزگی اور اس کی فطرت و طبیعت کی صالحیت اسے ہمیشہ اعلی درجہ کی روحانیت اور کردار کے اعلی مقام سے جوڑے رکھتی ہے ۔
تقریر و تحریر اور وعظ و نصیحت سے زیادہ موثر انسان کا عمل اور کردار ہوتا ہے، کسی کی تقریر اور تحریر سے انسان پر اتنا زیادہ اثر نہیں پڑتا جتنا انسان پر کسی کے عمل اور کردار کا اثر پڑتا ہے ۔ حفیظ میرٹھی مرحوم نے بالکل سچ اور درست فرمایا ہے کہ :
تقریر سے ممکن نہ تحریر سے حاصل وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے
اس لئے ایک داعی اور مبلغ کو تقریر و تحریر سے کہیں زیادہ اپنی شخصیت اور کردار و عمل پر زیادہ محنت کرنی چاہیے، تاکہ سامنے والا اس کے اخلاق اورکردار و کریکٹر سے متاثر ہو ۔ حسن اخلاق اور اچھے کردار کی ضرورت تو ہر شخص کے لئے ہے لیکن خاص طور پر ایک داعی اور مبلغ کو حسن اخلاق کا پیکر ہونا چاہیے کیونکہ حسن اخلاق اور حسن کردار دعوتی میدان اور تبلیغی کاز میں نہایت ہی موثر پیغام رکھتا ہے ۔ اس کے لئے اس کی حیثیت ایک سائلنٹ میسیج خاموش پیغام کی ہے ۔ آج تقریروں اور تحریروں کی بھرمار ہے، کتابیں اور مضامین سینکڑوں کی تعداد میں روزانہ چھپ رہے ہیں ، اجلاس اور سیمیناروں کی کمی نہیں ، ہر روز بڑے بڑے جلسوں اور سیمیناروں کے اشتہارات سے اخبارات پٹے پڑے ہیں، مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس کی خوب تشہیر کی جاتی ہے ۔ لیکن ان سیمیناروں ، جلسوں اور اجتماعات کا کما حقہ فائدہ، نتیجہ اور ریزلٹ سامنے نہیں آتا اس کی بنیادی وجہ اقوال و افعال میں تضاد اور کہنی اور کرنی میں فرق ہے ۔ شاعر نے ہماری اسی کمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ؎
بے عمل دل ہو تو جذبات سے کیا ہوتا ہے کھیت گر بنجر ہو تو برسات سے کیا ہوتا ہے
ہم اپنی تقریروں اور تحریروں میں جو کچھ کہتے اور لکھتے ہیں ہمارا خود عمل ان باتوں اور تحریروں پر نہیں ہوتا ۔ لوگ جب یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا خود عمل اپنی تقریر و تحریر پر نہیں ہے تو وہ بدظن ہوجاتا ہے اور وہ اس سے وہ گہرا تاثر اور مضبوط اثر نہیں لیتا جو اس کو لینا چاہیے ۔
لیکن جب ہم اپنے اسلاف کی سیرت و سوانح اور ان کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ان کے یہاں یہ چیز خاص طور پر ملتی ہے کہ وہ جس چیز کی دعوت دیتے تھے اور جس عمل پر لوگوں کو ابھارتے اور ترغیب دیتے تھے ، اس پر پہلے خود عمل کرتے تھے اور اس کو اپنی زندگی میں نافذ کرتے تھے ۔ اس لئے ان کی تقریر و تحریر میں زبردست تاثیر و تاثر پایا جاتا تھا ۔ ان کی تقریر و خطاب کا حال یہ ہوتا تھا کہ :
دیکھنا تقریر کی لذت کے جو اس نے کہا میں نے یہ سمجھا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
وہ آج کے ہمارے جیسے واعظ بے عمل نہیں تھے جو یا ایھا اللذین آمنوا لم تقولون مالا تفعلون (اے ایمان والو! ایسی باتیں کیوں کہتے اور کرتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے) ۔ کے مصداق ہوں ۔
واعظ کا ہر ارشاد بجا تقریر بہت دلچسپ مگر آنکھوں میں سرور عشق نہیں چہرے پہ یقیں کا نور نہیں
آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اسلاف اخلاق و کردار کے کس مقام اور کس بلندی پر فائز تھے اور وہ اپنی اخلاقی بلندی اور کردار کی عظمت سے کس طرح فریق مخالف کے دل کو جیت لیتے تھے اور اس پر کیسے غالب آجاتے تھے ۔
حضرت مولانا احمد علی لاہوری رح فرماتے ہیں کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رح جب آخری حج سے تشریف لا رہے تھے تو ہم لوگ اسٹیشن پر شرف زیارت کے لئے گئے ،اس وقت حضرت کے متوسلین و متعلقین میں سے ایک شخص محمد عارف جھنگ سے دیوبند تک ساتھ گئے ،ان کا بیان ہے کہ ٹرین میں ایک ہندو جنٹلمین بھی تھا ،جس کو قضاء حاجت کے لئے جانا تھا ۔ لیکن جاکر الٹے پاؤں بادل ناخواستہ واپس آیا ،حضرت مدنی رح سمجھ گئے ،فورا لوٹا لے کر پاخانہ گئے اور سگریٹ کے خالی ڈبے جمع کرکے اسے اچھی طرح صاف کرکے واپس آگئے ۔ پھر اس ہندو دوست سے فرمانے لگے : آپ قضاء حاجت کے لئے جانا چاہتے تھے تو جائیے! بیت الخلا بالکل صاف ہے ۔ قصہ مختصر وہ اٹھا اور جاکر دیکھا تو پاخانہ بالکل صاف تھا ،بہت متاثر ہوا اور قضاء حاجت کے بعد بھر پور عقیدت سے عرض کرنے لگا : یہ حضور کی بندہ نوازی ہے ،جو سمجھ سے باہر ہے ۔ اس واقعہ کو دیکھ کر ٹرین میں سوار خواجہ نظام الدین تونسوی مرحوم نے ایک ساتھی سے پوچھا کہ یہ کھدر پوش کون ہیں؟ جواب ملا کہ یہ مولانا حسین احمد مدنی ہیں ۔ تو خواجہ صاحب فورا حضرت مدنی رح سے لپٹ گئے اور رونے لگے ،حضرت مدنی رح نے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ تو کہا سیاسی اختلاف کی وجہ سے میں نے آپ کے خلاف فتوے دیے اور برا بھلا کہا،آج آپ کے اعلیٰ کردار اور اخلاق کو دیکھ کر تائب نہ ہوتا تو شاید مر کر سیدھا جہنم میں جاتا ۔ اس پر حضرت مدنی رح نے فرمایا: میرے بھائی! میں نے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کیا اور وہ سنت یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ایک یہودی مہمان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر مبارک پر رات پاخانہ کردیا اور صبح اٹھ کر جلدی چلا گیا اور اپنی تلوار وہیں بھول گیا ،جب اپنی بھولی ہوئی تلوار لینے آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس اپنے دست مبارک سے بستر دھو رہے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اعلی اخلاق کو دیکھ کر وہ یہودی مسلمان ہوگیا ۔(ماہنامہ الرشید مدنی نمبر / کتابوں کی درس گاہ میں )
مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری رح حضرت مدنی کے اعلی اخلاق و کردار کی گواہی اور شہادت دیتے فرماتے ہیں :
میں نہ مولانا کا شاگرد ہوں ،نہ مرید ،نہ پیر بھائی ،ان کے مجاہدانہ کارناموں کی وجہ سے مجھے ان سے محبت و عقیدت ہوگئ تھی ، میں ایک مرتبہ لکھنئو سے گاڑی پر سوار ہوا ،میری طبیعت خراب تھی چادر اوڑھ کر سیٹ پر لیٹ گیا، بخار تھا،اعضاء شکنی تھی ،اس لئے کراہتا تھا مجھے معلوم نہیں کہ کون سا اسٹیشن آیا اور کون مسافر سوار ہوا ،بریلی کے اسٹیشن کے بعد ایک شخص نے میرے پاؤں اور کمر دبانا شروع کی،مجھے بہت راحت ہوئی ،چپکا لیٹا رہا اور وہ دباتا رہا ،مجھے پیاس لگی ،پانی مانگا تو اس نے صراحی سے ایک گلاس پانی دیا اور کہا لیجئے میں نے اٹھ کر دیکھا تو مولانا مدنی رح تھے ،مجھے ندامت ہوئی اور معذرت کی ، لیکن انہوں نے اس درجہ مجبور کیا کہ پھر لیٹ گیا اور وہ رام پور تک برابر مجھ کو دباتے رہے ،پھر میں اٹھ کر بیٹھ گیا ۔ (اہنامہ الرشید مدنی نمبر)
مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری ؒمولانا مدنیؒ کے اخلاق عالیہ کا ایک اور واقعہ( جو خود ان کے ساتھ پیش آیا) لکھتے ہیں فرماتے ہیں : کہ یوپی میں ایک جگہ میری تقریر تھی، رات تین بجے تقریر سے فارغ ہوکر لیٹ گیا،ابھی نیم غنودگی کی حالت میں تھا کہ مجھ کو محسوس ہوا کوئی میرے پاوں دبا رہا ہے ،میں نے کہا کہ لوگ اس طرح دباتے رہتے ہیں، کوئی مخلص ہوگا ،مگر اس کے ساتھ معلوم ہو رہا تھا کہ یہ مٹھی تو عجیب قسم کی ہے ،باوجود راحت کے نیند رخصت ہوتی جارہی تھی ، سر اٹھایا تو دیکھا کہ حضرت شیخ مدنی رح ہیں، فورا پھڑک کر چارپائی سے اترا اور ندامت سے عرض کیا حضرت! کیا ہم نے اپنے لئے جہنم کا خود سامان پہلے سے کم کر رکھا ہے کہ آپ بھی ہم کو دھکا دے کر جہمنم بھیج رہے ہیں ،شیخ نے جوابا فرمایا: آپ نے دیر تک تقریر کی تھی ،آرام کی ضرورت تھی اور آپ کی عادت بھی تھی اور مجھ کو سعادت کی ضرورت، ساتھ ہی نماز فجر کا وقت قریب تھا ، میں نے خیال کیا کہ آپ کی نماز نہ چلی جائے تو بتائیے حضرت میں نے کیا غلطی کی ۔ ( الرشید مدنی نمبر / بحوالہ کتابوں کی درس گاہ میں صفحہ ۱۴۵)
حضرت مدنی ؒ کے اخلاق عالیہ کے ان تینوں واقعات کو ذہن میں رکھئے اور پھر غور کیجئے کہ ہمارے اسلاف اور اکابر سید القوم خادمھم (قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے) کی کیسی سچی اور ہو بہو تصویر تھے اور کس قدر اعلی اخلاق و کردار کے حامل تھے ۔
ماضی قریب کے ایک ولی زمانہ اور درویش وقت حضرت قاری صدیق احمد صاحب باندوی ؒ کے بارے میں حضرت مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہ العالی (صدر شعبہ شریعہ واستاد حدیث دار العلوم ندوةالعلماء لکھنئو) نے لکھا ہے کہ جب میں جامعہ عربیہ ہتورا باندہ میں تدریس سے وابستہ تھا تو وہاں اساتذہ اور طلبہ کے لئے بیت الخلا ایک جگہ تھا اور روزانہ صبح صبح کو وہ باکل صاف ستہرا ملتا تھا ، رات کو کوئی اچھی طرح سے صاف کردیتا تھا ، یہ تقریبا روزانہ کا معمول تھا اور معلوم نہیں پڑتا تھا کہ کون دیر رات میں اس کی صفائی کر ددیتا ہے ۔ ایک رات نیند کھلی میں استنجا کے لئے جب گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت قاری صاحب رح بنفس نفیس تمام استنجا خانوں اور بیت الخلا کو صاف کر رہے ہیں ، جب میری نظر پڑی تو میں ہکا بکا رہ گیا اور مجھ پر عجیب کیفیت و تاثر ہوا اور جب قاری صاحب رح نے مجھے دیکھ لیا تو فرمایا کہ وعدہ کیجئے کہ کسی سے تذکرہ نہیں کریں گے ۔ میں نے حضرت قاری صاحب کی زندگی میں اس کا تذکرہ کسی سے نہیں کیا ، حضرت کی وفات کے بعد میں نے اس راز کو فاش کیا اور حضرت قاری صاحب ؒ پر جب مضمون لکھا تو اس واقعہ کا بھی تذکرہ کیا ۔
اہل اللہ اور اکابر کی بافیض زندگی کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کے یہاں گفتار سے زیادہ کردار و عمل کو اہمیت تھی، وہ جو کچھ کہتے تھے اس پر خود پہلے عمل کرتے تھے ۔ اس لئے ان کی باتوں تقریروں اور تحریروں میں خاص تاثیر پائی جاتی تھی اور ان کی مجلس و صحبت میں بیٹھنے والوں کی زندگی میں تبدیلی اور انقلاب آجاتا تھا اور بے راہ اور گمراہ لوگوں کو ہدایت و رہنمائی ملتی تھی ۔
آج سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایمان و یقین کی درستگی کے بعد ہم اخلاق و کردار کی آراستگی پر زیادہ توجہ اور دھیان دیں اور پہلے خود عملی نمونہ پیش کریں تاکہ ہماری تحریر و تقریر میں تاثیر پیدا ہو اور لوگ اس میں ایک کیف محسوس کریں ۔
اللہ تعالیٰ ان باتوں پر عمل کرنے اور اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ۔

Comments are closed.