حیا اور پردہ:اسلام کی روشنی میں

از : مفتی محمد عبدالمبین نعمانی قادری
بے حیائی اور بے پردگی آج کل بہت عام ہے اس کے سد باب کے لیے ذیل میں بہت اختصار کے ساتھ حیااور پردے سے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند احادیث ِ مبارکہ پیش کی جاتی ہیں تاکہ اہل ایمان مرد اور عورتیں انھیں پڑھیں عبرت حاصل کریں اورعمل پیرا ہوں۔
عورتوں کا بہترین زیور حیا ہے :
اسلام میں مسلمان عورتوں کے لیے پردے کی بڑی اہمیت ہے اوربے پردگی بے حیائی کی دین ہے ،اللہ کے مقدس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’الْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِنَ الإِیْمَانِ‘‘حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ یہ حدیث صحاح ستہ کی ہے۔(صحیح بخاری کتاب الایمان، ۱ / ۱۲،حدیث۹)
یعنی جس کے اندر بے حیائی (بے شرمی،بے غیرتی) ہے یقینا ًاس کے ایمان میں کمزوری ہے چنانچہ دیکھا بھی جاتا ہے کہ وہی مرد بے حیائی کے کام کرتے ہیںاور وہی عورتیںبے پردگی اختیار کرتی ہیں جو بے حیا ہوتی ہیں اورجن کا ماحول غیر اسلامی اور مغربیت زدہ ہوتا ہے ۔پھرایمان و عمل کی بربادی کے بعد وہ گمان یہ کرتے ہیں کہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔اور اس کو نئی تہذیب سے تعبیر کرتے ہیں۔گویا
ع… شرم نبی خوف خدا،یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
کاش یہ گنا ہ کرتے اور خدا سے ڈرتے یا پھر نری بے حیائی میں ڈوب کر بھی اللہ ورسول کے احکام کا انکار تو نہ کرتے کہ گناہ ہی ہوتاایمان تو محفوظ رہتامگر اس طرح کے غلط استدلال اور احکام شرعیہ پر اعتراض نے تو ایمان ہی جیسی متاع عزیزکو نیلام کردیا۔خدا ہمیں ایمان و عمل کی سلامتی سے نوازے اور خاتمہ بالخیر کی سعادت عطا فرمائے ۔آمین
یہ سب اسلامی تعلیمات سے دوری اور مغربی تعلیم و تہذیب سے بھر پور وابستگی کا بھیانک نتیجہ ہے جسے آج ترقی کا نام دیا جا رہا ہے حالانکہ یہ ترقی نہیں سراسرپستی اور تنزلی ہے۔
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’قدرت نے اپنی مخلوق کو علاحدہ علاحدہ کا موں کے لیے بنایاہے اور جس کو جس کام کے لیے بنایا ہے اسی کے مطابق اس کا مزاج بھی بنایا ہے لہٰذا ہر چیز سے ہمیں قدرتی کام لینا چاہیے جو خلاف فطرت کام لے گا وہ ضرور تباہی و بربادی میں پڑے گا ( اس لیے کہ )کسی چیز کے بنانے اور اس کی مصلحتوں کا علم خدا ہی کو ہے اس کے خلاف کسی کو اپنی عقل کا استعمال ضرورتباہی میں ڈالے گا ۔
اس کی سینکڑوں مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں مثلا ً:ٹوپی سر پر رکھنے اور جوتا پاوں میں پہننے کا ہے اب جو جوتا سر پر باندھ لے اور ٹوپی پاوں میں لگالے تو وہ یقینا دیوانہ ہی کہا جائے گا۔
ٍ بیل کی جگہ گھوڑا ا ور گھوڑے کی جگہ بیل کام نہیں دے سکتا ،اسی طرح خدا نے انسان کے دو گروہ بنائے ایک عورت دوسرا مرد ،عورت کو گھر میں رہ کر اندرونی زندگی سنبھالنے کے لیے بنایا اور مرد کو باہر نکل کر کمانے اور باہر کی ضروریات پورا کرنے کے لیے پیدا کیا۔ مثل مشہور ہے کہ پچاس عورتوں کی کمائی میں وہ برکت نہیں جو ایک مرد کی کمائی میں ہے اور پچاس مردوں سے گھر میں وہ رونق نہیںجو ایک عورت سے ہے ،اسی لیے شوہر کے ذمے بیوی کا سارا خرچ رکھا ہے اوراسی لیے مرد کو توانااور عورت کو فطری طور پر کمزور بنایااور اسے شرم وحیا کا مادہ مردسے زیادہ دیا اور بھی ایسی چیزیں دیں جن کی وجہ سے ان کو مجبورا گھر میں بیٹھنا پڑے مثلاً: بچہ جننا ،حیض و نفاس آنا ،بچوں کو دودھ پلانا وغیرہ۔(غور کرو) اب جو عورتوں کو باہر نکالے اور مردوں کو گھر میں بیٹھنے کا مشورہ دے وہ ضرور دیوانہ ہے اور جو کوئی ان دونوں فریقوں کوایک ہی کام سپرد کرے اور ان کی ذمے داریوں کی جو تفریق ہے اس کو مٹا دے تو وہ گویا قدرت کا مقابلہ کرتا ہے ا س کو کبھی کامیابی نہیں مل سکتی۔(خلاصہ از اسلامی زندگی)
آج مردوں عورتوں میں جو برائیاں نظر آرہی ہیںان کی اصل وجہ بے حیائی اور بے شرمی ہی ہے۔ اس لیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’إذا لم تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَاشِئْتَ۔‘‘( جب تجھ کو حیا نہیںتو جو چاہے کر)۔(بخاری شریف،مشکوٰۃ،ص۱۳۴)
یعنی حیا جس سے روکے اس سے رک جا اور جب حیا نہ ہو تو کچھ بھی کرنے کو آدمی تیار ہو جاتا ہے۔
اسی لیے اللہ کے رسول نے حیا کو ایمان کا ایک حصہ قرار دیا ،چنانچہ ایک مرتبہ آپ ایک انصاری صحابی کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں نصیحت کر رہا تھا (کہ زیادہ حیا نہ کر) تو سرکارنے فرمایااس کو اپنی حالت پر چھوڑ دو (یعنی جس قدر حیا کرتا ہے کرنے دو) اس لیے کہ ’’الحَیائُ مِنَ الاِیْمان‘‘حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ (بخاری ج ۱ ،ص ۸ ومسلم،بحوالہ مشکوٰۃ ۴۳۱ ،باب الرفق والحیاء)
ایک مرتبہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا حیا بہتری ہی لاتی ہے’’الحیائُ لا یأتی إلا بخیر‘‘
اورصحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے : قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم’’الْحَیَائُ خَیْرٌ کُلُّہُ‘‘ قَالَ أَوْ قَالَ:’’الْحَیَائُ کُلُّہُ خَیْرٌ‘‘(أخرجہ مسلم، حدیث ۳۷، وأخرجہ البخاری فی ’’کتاب الأدب‘‘’’باب الحیاء‘‘، حدیث ۶۱۱۷)
’’حیا مجسم خیر(بھلائی) ہے یا حیاکی ہر بات میں خیر ہے۔‘‘
اور ایک حدیث پاک میں حضور نے حیا کی تعریف اور بے حیائی کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرما یا: ’’الحیائُ مِن الإیمان، والإیمانُ فی الجنَّۃِ، والبَذَائُ مِن الجَفَائِ، والجَفَائُ فی النَّار‘‘(مشکوٰۃ ص ۱۳۴بحوالہ احمد وترمذی)
حیا ایمان کا ایک جز ہے اور ایمان دار جنت میں جائے گا اور بے حیائی جفا ہے اور جفاکار جہنم میں جائے گا۔
ایک دوسری حدیث میں بھی بے حیائی کی مذمت فرمائی گئی ہے جیسا کہ حضرت ابو درداء ر ضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضورنے فرمایا :قیامت کے دن مومن کی میزان میں جو چیز سب سے زیادہ بھاری ہوگی وہ حسن اخلاق ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ بدکار بے حیا کو سخت ناپسندکرتا ہے۔(رواہ ابن ماجہ(۴۱۸۱)
حیا اور ایمان کو ساتھی بھی قرار دیا گیا ہے چنانچہ ایک حدیث پاک میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم فرماتے ہیں:
’’الْحَیَائُ وَالْاِیمَانُ قُرِنَا جَمِیعًا فَإِذَا رُفِعَ أَحَدُہُمَا رُفِعَ الْآخَرُ‘‘(مشکوٰۃ:ص۴۳۱،ابو داود:حدیث ۴۷۹۹،ترمذی:ح ۲۰۰۲)
بے شک حیا اور ایمان دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کر دیے گئے ہیں تو جب ان میں ایک اٹھے گا دوسرا بھی رخصت ہو جائے گا۔ یعنی ایمان و حیا لازم و ملزوم کا درجہ رکھتے ہیںکہ حیا ہے تو ایمان ہے اور ایمان ہے تو حیا لازم ہے۔لہٰذا جب حیا نہیں تو یہ ضرور ایمان کی کمزوری اور اسلام سے دوری کی علامت ہے اسی لیے صاحب ایمان حیا کا دامن ہرگز نہیں چھوڑتا اور بے حیائی کے کاموں سے ہمیشہ دور رہتا ہے۔
بے پردہ گھومنے کی مذمت:
عورتوں کو کھلے عام آزادانہ بن سنور کر گھومنے کی سخت ممانعت ہے ۔قرآن میں ارشاد خداوندی ہے:
’’وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُولَیٰ وَاَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَآتِینَ الزَّکوٰۃَ وَاَطِعْنَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ ‘‘(سورہ احزاب،۳۳/۳۳)
اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ پھرو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی اور نمازقائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔
اگلی جاہلیت سے مراد قبل اسلام کا زمانہ ہے اس زمانے میں عورتیں اتراتی ہوئی اور اپنی زیب و زینت کا اظہار کرتی ہوئی نکلتی تھیں تاکہ غیر مرد دیکھیں اور لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اعضا اچھی طرح نہ ڈھکیں۔(خزائن العرفان)
عورت عورت ہے:
عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت عورت یعنی چھپانے کی چیز ہے جب وہ نکلتی ہے تو شیطان جھانک کر دیکھتا ہے ۔(ترمذی:ج۱/۱۴۰)
یعنی حتی الامکان عورتوں کو باہر نکلنے سے بچنا چاہیے اور اگر نکلتی ہے تو شیطان کو دعوت نظارہ دیتی ہے ،حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
’’المرأۃعورۃ،فإذاخرجت استشرفہاالشیطان‘‘(رواہ الترمذی،حدیث۱۱۷۳،کذلک ابن خزیمۃوابن حبان فی صحیحہما)
مرد کوتنہائی میں غیر محرم عورتوں سے ملنا منع ہے:
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جب غیر مرد تنہائی میں کسی عورت کے ساتھ ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے ۔(ترمذی،حدیث نمبر۲۱۶۵)
یعنی ورغلانے اور برائی پر اکسانے کے لیے وہاں شیطان موجود ہوتا ہے جسے یہ دیکھ نہیں پاتے ہیں اور وہ اپنا کام کرتا رہتا ہے۔لہٰذا عورت اجنبی مردکے ساتھ تنہائی سے بچے۔یوں ہی مردوں کو بھی تنہائی میں نامحرم عورتوں کے پا س جانے اور ملنے سے بچناضروری ہے کہ باعث فتنہ ہے اوریہ نہ ہوتو اندیشہ ضرور ہے۔
نابینا مرد سے بھی پردہ ہے:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ یہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہاحضور کی خدمت میں حاضر تھیںکہ عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آئے حضور نے ان دونوں سے فرمایا :پردہ کرلو،کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ وہ تو نا بینا ہیںہمیں نہیں دیکھیں گے ،حضور نے فرمایا:کیا تم دونوں اندھی ہو؟ تم انھیں نہیں دیکھو گی۔(امام احمد،ترمذی،ابو داود مشکوٰۃ،ص ۳۶۸)
یہ حدیث نابینا غیر محرم مرد سے بھی پردے کا حکم واضح کرتی ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ فرماتے ہیں: اندھے سے پردہ ویسا ہی ہے جیسا کہ آنکھ والے سے اور اس کا گھر میں جانا، عورت کے پاس بیٹھنا ویسا ہی ہے جیسا آنکھ والے کا۔(فتاویٰ رضویہ، ج۱۵، ص۳۳۴)
عورت اپنے شوہر سے دوسرے کا حال نہ بیان کرے:
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی ا للہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :ایسا نہ ہو کہ ایک عورت دوسری عورت کے ساتھ رہے (یعنی کچھ وقت گزارے)پھر اپنے شوہر کے سا منے اس کاحال بیان کرے گویا یہ اسے دیکھ رہا ہے۔(بخاری و مسلم ومشکوٰۃ،ص۳۶۸)
اس طرح عورت کی کوئی نیکی یا اچھی عادت کو تو بیان کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا حسن اور عام عادتوں کو بیان کرنا اور وہ بھی مکمل منظر کشی کے ساتھ یہ شرعاً منع،ناجائز اور گناہ ہے۔
صالحہ عورت کا کافرہ سے اجتناب ضروری ہے:
صالحہ یعنی نیک عورت کو چاہیے کہ اپنے کو بد کار عور ت کے دیکھنے سے بچائے یعنی ا س کے سامنے دو پٹا وغیرہ نہ اتارے کیو ں کہ وہ اسے دیکھ کر مردوں کے سامنے اس کی شکل و صورت کا ذکر کرے گی مسلمان عورتوںکو یہ بھی حلال نہیںکہ کافرہ کے سامنے اپنا ستر کھولیں۔(عالمگیری،کتاب الکراھیۃ،ج۵،ص۳۲۷)
گھروں میں کافرہ عورتیں آتی ہیں اوربیویاں ان کے سامنے اس طرح مواضع ستر (چھپانے کی جگہیں)کھولے ہوئے ہوتی ہیں جس طرح مسلمان عورتوں کے سامنے رہتی ہیں ان کو ا س سے اجتناب (بچنا)لازم ہے اکثر دائیاں کافرہ ہوتی ہیں اور وہ بچے جنانے کی خدمت انجام دیتی ہیں اگر مسلمان دائیاں مل سکیں توکافرہ سے ہرگز یہ کام نہ کرایا جائے کہ کافرہ کے سامنے ان اعضا کے کھولنے کی اجازت نہیں۔(بہار شریعت ج ۳،حصہ ۱۶،ص۴۴۳مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
عورتوں کے لیے سب سے بہتر کیا چیز ہے؟
حضرت مولاے کائنات علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک روز حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی مجلس میں دریافت فرمایا: اَیُّ شَیء خیرٌ لِلْمَرأۃِ؟ عورت کے لیے کون سی چیز بہتر ہے ؟کسی نے جواب نہ دیا سب کے سب خاموش رہے یہاں تک کہ میں بھی کوئی جواب نہیں دے سکا تو بی بی فاطمہ سے پوچھا کہ عورتوں کے لیے سب سے بہتر کون سی چیز ہے حضرت فاطمہ نے فورا ًجواب دیا عورتوں کے لیے سب سے بہتر یہ ہے کہ ان کو غیر مرد نہ دیکھیں ،حضرت علی اس جواب سے بہت خوش ہوئے اور آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جواب سنا دیا تو حضور بھی خوش ہوئے اور فرمایا فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔(جمع الفوائد ج۱ ص ۳۱۷)
اجنبہ کو دیکھنے کی سزا:
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اجنبی خوب صورت عورت کو شہوت سے دیکھنے والے کی آنکھ قیامت کے روز سیسہ سے بھر دی جائے گی۔(ہدایہ ج ۴ ص ۴۴۲)
اجنبی عورت کو دیکھنے والے کا جرم جب اتنا شدید ہے تو جو عورت از خود بے پردہ ہوکراجنبی مرد کے سامنے آتی ہے یا دوسروں کو دیکھنے کا موقع دیتی ہے وہ کتنی گنہ گارہے لہٰذا وہ بھی اس جرم اور گناہ میں برابر شریک ہے بلکہ اس کا جرم اور شدید ہوگا کہ یہ بے پردہ نہ ہوتی تو اجنبی مرد کو گناہ کا موقع نہ ملتا اس نے بے پردہ ہو کر خودگناہ کیا اور دوسرے کو بھی گناہ پر اکسایا جو شیطان کا کام ہے۔
عورتوں کے لیے پردے کا ضابطہ کلیہ:
آج عورتیں بے تکلف ضرورت ہو یا نہ ہو غیر محرم مردوں کے سامنے آجاتی ہیں اور اس میں کچھ گناہ نہیں سمجھتیں اس سلسلے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کا ایک فتوی ملاحظہ ہو:
آپ سے سوال کیا گیا کہ بہو اپنے خسر کا پردہ کرے یا نہ کرے؟ اسی طرح جیٹھ دیور کا کیا حکم ہے؟ تو اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں ’’جیٹھ اور دیور سے پردہ واجب ہے کہ وہ نامحرم ہے اور خسر سے پردہ واجب نہیں(کرے تو) جائز ہے۔
اس کا ضابطہ کلیہ یہ ہے کہ نامحرموں سے پردہ مطلقاً واجب۔
محارم نسبی (جو خاندانی محرم ہیں ان)سے پردہ نہ کرنا واجب (جیسے باپ بھائی سے/)،اگر کرے گی گنہ گار ہوگی۔
محارم غیر نسبی مثلِ علاقہ مصاہرت(سسرالی رشتہ)ورضاعت(دودھ کا رشتہ)ان سے پردہ کرنااورنہ کرنادونوں جائز۔مصلحت و حالت پر لحاظ ہوگا۔ اسی واسطے علما نے لکھا ہے جوان ساس کو داماد سے پردہ مناسب ہے۔یہی حکم خسر اور بہو کا ہے۔اور جہاں معاذاللہ مظنہ فتنہ (فتنے کاگمان)ہو پردہ واجب ہو جائے گا۔’’وَاللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ‘‘(البقرہ۲، آیت۲۲۰)(فتاویٰ رضویہ،جلد۵۱، صفحہ۳۳۸)
بہنوئی سے بھی پردہ ہے:
بہنوئی سے پردے کے بارے میں سیدی سرکار اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں’’ بہنوئی کا حکم شرع میں بالکل مثل حکمِ اجنبی ہے بلکہ اس سے بھی زائدکہ وہ جس بے تکلفی سے آمد و رفت و نشست وبرخاست کر سکتا ہے، غیر شخص کی اتنی ہمت نہیں ہو سکتی،لہٰذا صحیح حدیث میں ہے:
عن عقبۃ بن عامر:’’إیّاکُمْ والدُّخُولَ علی النِّسائِ فقالَ رَجُلٌ مِنَ الأنْصارِ: یا رَسولَ اللّٰہِ، أفَرَأَیْتَ الحَمْوَ؟ قالَ: الحَمْوُ المَوْتُ (صحیح البخاری،حدیث نمبر ۵۲۳۲)
صحابہ کرام (میں کسی)نے عرض کہ یا رسول اللہ جیٹھ دیور اور ان کے مثل رشتہ دارانِ شوہر کا کیا حکم ہے، فرمایا یہ تو موت ہیں۔
خصوصاً ہندوستان میں بہنوئی کہ باتباع رسوم کفارِ ہند سالی بہنوئی میں ہنسی ہوا کرتی ہے، یہ بہت جلد شیطان کا دروازہ کھولنے والی ہے۔والعیاذ باللہ تعالیٰ، واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاویٰ رضویہ،جلد۱۵، صفحہ۳۳۵)
عورت کا نامحرم کے سامنے آنا حرام ہے:
عورت اگرکسی نامحرم مرد کے سامنے اس طرح آئے کہ اس کے بال ا ور گلے اور گردن یا پیٹھ پیٹ یا کلائی یا پنڈلی کا کوئی حصہ ظاہر ہو یا لباس ایسا باریک ہو ان چیزوں سے کوئی حصہ اس میں سے چمکے تو یہ بالاجماع (بالاتفاق) حرام اور ایسی وضع و لباس کی عادی عورتیں فاسقات(گنہ گار) ہیں اور ان کے شوہر اگر اس سے راضی ہو ں یا حسب مقدرت (طاقت بھر) بندوبست(انتظام) نہ کریں تو دیوث ہیں اور ایسوں کو امام بنانا گناہ۔ اگر تمام بدن سر سے پاوں تک موٹے کپڑے میں خوب چھپا ہوا ہے صرف منھ کی ٹکلی کھلی ہوئی ہے جس میں کوئی حصہ کان کا یا ٹھوڑی کے نیچے کا یا پیشانی کے بال کا ظاہر نہیں تو اب فتویٰ اس سے بھی ممانعت پر ہے ،اور یہ امر (بات) شوہروں کی رضا سے ہو تو ان کی امامت سے احتراز (بچنا)انسب (زیادہ مناسب) کہ سد فتنہ (فتنے کا روکنا) اہم واجباتِ شرعیہ سے ہے ۔(فتاوی رضویہ:۵/۲۱۹،۲۲۰، مطبوعہ:بریلی شریف)۔
ہمارے مسلمان بھائی اور اسلامی خواتین ان سخت و شدید احکام کودیکھیں،غور کریں اورنصیحت پکڑیں،خدا کے عذاب سے بچیں۔
بدکار و بے حیا سے اپنی عورتوں کو بچانا:
اپنی عورتوں کو رنڈیوں کے سامنے بے پردہ وحجاب کرنے والے، ان سے میل ملاقات کرانے والے یا سخت احمق مجنون بدعقل ہیں یانرے بے حیا،بے غیرت،بے شرم۔عورت موم کی ناک بلکہ رال کی پڑیا بلکہ بارود کی ڈبیا ہے،آگ کے ایک ادنیٰ سے لگاؤ میں بھق سے ہو جانے والی ہے۔عقل بھی ناقص دین بھی ناقص اور طینت میں کجی اورشہوت میں مرد سے سو حصہ بیشی اور صحبت بد کا اثر مستقل مردوں کو بگاڑ دیتا ہے۔پھر ان نازک شیشیوں کا کیا کہنا،جو خفیف ٹھیس سے پاش پاش ہو جائیں۔یہ سب مضمون یعنی عورات کا ناقصات العقل والدین اور کج طبع اور شہوت میں زائداور نازک شیشیاں ہوناصحیح حدیثوں میں ارشاد ہوئے ہیں۔اور صحبت بد کے اثر میں تو بکثرت احادیث صحیحہ وارد ہیں۔ازاں جملہ یہ حدیث جلیل کہ مشکوٰۃ حکمت نبوت کی نورانی قندیل ہے۔
فرماتے ہیں:
عن أبی موسی الأشعری: مَثَلُ الجَلِیسِ الصّالِحِ والجَلِیسِ السَّوْئِ، کَمَثَلِ صاحِبِ المِسْکِ وکِیرِ الحَدّادِ، لا یَعْدَمُکَ مِن صاحِبِ المِسْکِ إمّا تَشْتَرِیہِ، أوْ تَجِدُ رِیحَہُ،وکِیرُ الحَدّادِ یُحْرِقُ بَدَنَکَ،أوْ ثَوْبَکَ،أوْ تَجِدُ منہ رِیحًا خَبِیثَۃً.
وفی حدیث: إنْ لم یُصِبْکَ مِن سَوادِہِ أصابکَ مِن دُخانِہِ.(صحیح البخاری ۲۱۰۱، ومسلم،۲۶۲۸، سنن أبی داود ۴۸۲۹)
نیک رفیق اور برے ساتھی کی مثال مشک والے اور لوہار کی بھٹی کی طرح ہے، تجھ کو نہیں ملے گا مشک والے سے سواے اس کے کہ تو خریدے یا اس کی خوشبو پائے، اور لوہار کی بھٹی تمہارے بدن کو جلائے یا کپڑے کو یا اس سے تو بدبو محسوس کرے۔
اور ایک حدیث میں ہے کہ اگر تم کو اس کی سیاہی نہیں ملے گی تو اس کا دھواں ملے گا۔
رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں: حیا ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں ہے۔اور فحش بکنا بے ادبی ہے اوربے ادبی دوزخ میں ہے۔(رواہ الترمذی) اور فرماتے ہیں:
’’ماکان الفحش فی شیء قط الاَّ شانہ و ما کان الحیاء فی شیء قط الا زانہ، ‘‘(احمدوالبخاری فی الادب المفرد والترمذی،و ابن ماجہ عن انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بسند حسن۔)
فحش جب کسی چیز میں دخل پائے گااسے عیب دار کر دے گا اور حیا جب کسی چیز میں شامل ہوگی اس کا سنگار کر دے گی۔
عورتوں کا نامحرم سے چوڑیاں پہننا:
سوال ہوا کچھ عورتیں منہار کو بلا کر پردے میں ہاتھ نکال کر منہار کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر چوڑیاں پہنتی ہیں یہ جائز ہے یا نہیں؟ اعلیٰ حضرت جواب میں فرمایا: حرام حرام حرام۔ ہاتھ دکھانا غیر مرد کو حرام ہے اس کے ہاتھ میں ہاتھ دینا حرام ہے۔ جو مرد اپنی عورتوں کے ساتھ اسے روا رکھتے ہیں دیوث(بے غیرت) ہیں۔(فتاویٰ رضویہ:ج ۱۵، ص۳۴۳)
عورت اگر ملازمت کرے تو کب جائز ہے:
زیدکی عورت ایک معتبر جگہ ملازم ہے، لوگ اعتراض کرتے ہیں شرعاً کیا حکم ہے؟ اس کے جواب میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے ارشادفرمایا:
یہاں پانچ شرطیں ہیں؛
(۱)(اس عورت کے )کپڑے باریک نہ ہوں، جن سے سر کے بال یا کلائی وغیرہ ستر کا کوئی حصہ چمکے (ظاہر ہو)۔
(۲)کپڑے تنگ و چست نہ ہوں جو بدن کی ہیئت ظاہر کریں۔
(۳)بالوں یا گلے یاپیٹ یا کلائی یا پنڈلی کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہوتا ہو۔
(۴) کبھی نا محرم کے ساتھ کسی خفیف (تھوڑی)دیر کے لیے بھی تنہائی نہ ہوتی ہو۔
(۵)اس کے وہاں رہنے یا باہر آنے جانے میں کوئی مظنہ فتنہ (فتنے کا اندیشہ)نہ ہو۔
یہ پانچ شرطیں اگر جمع ہیں تو حرج نہیںاور ان میں سے ایک بھی کم ہے تو حرام۔پھر اگر زید (شوہر)اس پر راضی ہے یا بقدر قدرت بند وبست (انتظام)نہیں کرتا تو ضرور اس پربھی الزام ورنہ نہیں۔(فتاویٰ رضویہ،ج۱۵، ص۳۴۴) ملازمت کرنے والی عورتیں اس فتوے کو نظر میں رکھیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔
رکن المجمع الاسلامی ،مبارک پور، اعظم گڑھ(یوپی )
[email protected]
Comments are closed.