سادگی! اپنوں کی دیکھ ؟؟؟

ڈاکٹرعابد الرحمن (چاندور بسوہ)
’ہمارے حجاب پر یا ہمارے آنچل پر ہاتھ ڈالنے والوں کے ہم ہاتھ کانٹ دیں گے ‘۔اور ’ہم اپنی بیٹیوں کو ان شاء اللہ اگر وہ یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ ابا امی میں حجاب پہنوں گی تو ابا امی پہلے یہ بولیں گے بیٹا پہن تجھے کون روکتا ہے ہم دیکھیں گے ان شاء اللہ ‘۔ یہ وہ بیانات ہیں کہ کرناٹک میں حجاب کا مسئلہ کھڑا کرنے والوں کو جن کا شدت سے انتظار رہا ہوگا۔ کرناٹک میں حجاب کا یہ مسئلہ اس وقت پیدا کیا گیا کہ جب تعلیمی سال ختم اور امتحانات ہو نے کو ہیں ۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس کا مقصد یوپی میں ۲۰/۸۰ کے فارمولے میں انگار ڈالنا ہو سکتا ہے ۔ وگرنہ شروع سے اب تک حجاب پہن کر کالج جانے والی طالبات کو اس وقت آخر سال میں روکنے کا دوسرامقصدکیا ہو سکتا ؟ اگر حکومت کو اسکول یونیفارم کی اتنی ہی فکر ہے تو داخلے کے وقت ہی بتادیا ہوتا جنہیں قبول ہوتا وہ داخلہ لیتے جنہیں منظور نہ ہوتا کہیں اور چلے جاتے ۔ لیکن مسئلہ صرف اسکول یونیفارم اور طلبہ میں مساوات پیدا کرنے کا نہیں ہے بلکہ یہ ایک تیر سے دو شکار ہیں ایک تو’ ایک ملک ایک قانون‘ اور مساوات کے بہانے یونیفارم سول کوڈ کی وکالت اور اس کے ذریعہ مسلمانوں سے ان کی مذہبی شناخت چھین لینے کی سازش ۔ حالانکہ یہ فوری طور پر حاصل ہونے والی منزل نہیں ہے لیکن اس منزل کی سمت ایک قدم ضرور ہے ، اس کا فوری فائدے والا نشانہ دراصل ہندو ووٹ بنک کو متحد اور اپنے حق میں متحرک کرکے کیش کرنا اور مذکورہ منزل کے حصول کے لئے درکار سیاسی طاقت پر قبضہ کرنا ہے ۔ حالانکہ کہا جاتا ہے کہ خود غیر مسلموں میں بھی بہت سارے مذہبی گروہوں کے اپنے رسم ورواج ایسے ہیں جنہیں قانون کی حیثیت حاصل ہے لیکن ملک میں غیر مسلموں کی حالت یہ ہے کہ جہاں مسلمان نشانے پر آئے ان کے سب گروہ ذات برادریاںاپنے اپنے اختلافات چھوڑ کر مسلمانوں کو نشانے پر لینے والوں کے ساتھ متحد ہو جاتے ہیں۔ یوپی اسمبلی انتخابات کے شروع سے ہی وہاں غیر مسلموں کی ذات برادریوں کے اختلافات ابھر نے شروع ہو گئے تھے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ یہ اختلافات بر سر اقتدار پارٹی کو زک پہنچا سکتے ہیں اسی لئے ۲۰/۸۰ کا شوشہ چھوڑ کر جہاں ۲۰فیصد یعنی مسلمانوں کو ۸۰ فیصد یعنی ذات پات میں بٹے غٖیر مسلموں کے مشترک مقابل یا دشمن کہا گیا وہیں غیر مسلموں کو مسلمانوںکے مقابلے ایک مشترک قوم کہہ کر ابھارنے اور متحد کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ اور پھر اپنے اقتدار والی ریاست میں مسلم طالبات کو حجاب پہننے سے روک کر دراصل یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ اس’ مشترک دشمن ‘ کو تنگ کرنے یا ’اوقات دکھانے ‘ کی ہمت و طاقت صر ف انہی میں ہے ۔کرناٹک میں حجاب کو لے کر جو مسئلہ کھڑا کیا گیا اسے مسلم طالبات اور اسکول انتظامیہ یا سرکار کے درمیانی معاملے تک محدودنہیں رکھا گیا بلکہ حجاب پہننے کے خلاف غیر مسلم طلبا و طالبات کے بھگوے رومال اوڑھ کر اور بھگوی پگڑیاں پہن کر اور جئے شری رام کے نعرے لگا کر احتجاج کے ذریعہ اسے ہندو مسلم مسئلہ بنادیا گیا ۔ یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ سورت سے ۵۰ لاکھ بھگوے رومال منگوائے گئے اور راتوں رات تقسیم کئے گئے یعنی حجاب کے خلاف یہ بھگوا احتجاج نہ صرف یہ کہ منظم بلکہ منصوبہ بند بھی تھا۔ یعنی حجاب کے اس مسئلہ کا پہلا نشانہ ہندوؤں کومسلمانوں کے خلاف ورغلا کر ان کے ووٹ حاصل کرنا ہے ۔ اور ہندوؤں کو ورغلانے کے لئے جہاں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزیاں یا مسلمانوں کے کسی مذہبی اور عقائدی معاملات میں دخل اندازی کی ضرورت ہوتی ہے وہیں اس بات کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ مسلمان بھی جارحانہ لہجے میں اس کا جواب دیں کہ ہندو ،مسلم مخاف اشتعال انگیزیوں سے جتنے متحرک نہیں ہوتے اس سے زیادہ مسلمانوں کی طرف سے ان اشتعال انگیزیوں کے اشتعال انگیز جوابات سے متحرک ہوتے ہیں ۔ یعنی ہمیں پھنسانے کے لئے جو جال پھینکا گیا تھا مذکورہ بیانات کے ذریعہ ہم خود ہی اس جال میں پھنسے جا رہے ہیں ۔مذکورہ دونوں بیانات دو مختلف سیاسی پارٹیوں کے مسلم لیڈران نے یوپی میں دئے ہیںجہاں اسمبلی انتخابات چل رہے ہیں یعنی جہاں کے ووٹروں کو نشانہ بنا کر کرناٹک میں حجاب کا مسئلہ کھڑا کیا گیا تھا دونوں محترمین نے اس مسئلہ کوبرابر وہیں پہنچا دیا ۔دراصل ان لوگوں نے وہاں کے مسلم ووٹروں کو اپنی اپنی پارٹی کی طرف متحرک کرنے کے لئے اس طرح کے بیانات داغے لیکن کیا انہیں اندازہ ہے کہ اس سے ہندو ووٹ ہمارے مخالفین کی طرف کتنی شدت سے متحرک ہوںگے؟ اندازہ تو ضرور ہوگا لیکن شاید انہیں پروا صرف اپنی سیاسی طاقت بڑھانے کی ہے مسلمانوں کی نہیں ۔
کرناٹک سرکار کے آرڈر میںحجاب کو ایسے کپڑوں سے تعبیر کیا گیا ہے جو ’مساوات سالمیت اور عوامی امن و امان میں خلل ڈال سکتے ہیں‘۔ اور حجاب ہی کیا ہر معاملہ میں بھائی چارہ اور امن و امان برقرار رکھنے کی ساری ذمہ داری مسلمانوں پر ہی ڈالی جا چکی ہے اور ہمارے خلاف ہونے والی بے امنی سے اپنے آپ کو بچانے کے ہمارے معمولی اقدامات سے بھی الٹے ہمیں پراشتعال انگیزی اور بھیڑ کو برانگیختہ کرنے کا الزام لگا کر ہمارے خلاف لگی آگ میں مزید تیل ڈالا جاتا ہے ۔ کرناٹک کے ایک وزیر موصوف نے بھگوے رومال لہراتے اور جئے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے ایک برقعہ پوش لڑکی کی طرف بڑھنے والی بھیڑ کو تو کچھ نہیں کہا بلکہ اس کے جواب میں نعرہء تکبیر بلند کرنے پرالٹا اس لڑکی پر بھیڑ کو اکسانے کا الزام تھوپ دیا ۔ ویسے بھی اب ملک میںآئینی اداروں قانون نافذ کر نے والی ایجنسیوں اور عدلیہ کی جگہ بھگوا دھاری بھیڑ نے لے لی ہے ۔ویسے اس اشتعال انگیزی کے درمیان اس معاملہ میں بھی یہ کہا جارہا ہے کہ ’ ہم کورٹ کے فیصلے کا احترام کریں گے ‘ ۔ لیکن کورٹ کا فیصلہ ہمارے حق میں آنے کے بعد اگر بھگوا رومال ٹوپی اور جئے شری رام کے نعروں کے ساتھ کالجوں میں ہماری باحجاب بیٹیوں کو گھیرنے والوں نے اس فیصلے کا احترام نہیں کیا تو اپنے سیاسی مفادات کی خاطر جذباتی بیان بازی کرنے والے ہمارے ان لیڈران کے پاس اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے کیا پلان ہے ؟ کیا اس معاملہ میں مسلمانوں کے نام لایعنی اور بیکار اشتعال انگیزی کرنے والے یہ لوگ اس کی تیاری میں بھی ہیں یا اس صورت میں بھی مسلمانوں کے جذبات بر انگیختہ کرکے اپنی پارٹیوں کے آفس میں اے سی لگا کر تماشا دیکھیں گے؟
Comments are closed.