گجرات میں اردو صحافت کی ضرورت

امام علی مقصود فلاحی
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
گجرات ہندوستان کی مغربی ریاست ہے،جسکی سرحد مغرب میں بحیرہ عرب، جنوب میں مہاراشٹرا، مشرق میں مدھیہ پردیش اور شمال میں راجستھان سے ملتی ہے، آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کی یہ نویں سب سے بڑی ریاست ہے اور رقبے کے لحاظ سے چھٹی سب سے بڑی ریاست ہے، جو کہ 196,024 مربع کیلومیٹر پر مشتمل ہے۔ سال رواں کے حساب سے گجرات کی آبادی کا تخمینہ 65.5 ملین بتایا گیا ہے۔یہاں کا دارالحکومت گاندھی نگر ہے اور اسکی معیشت کا انحصار زراعت، مینوفیکچرنگ اور پٹرولیم مصنوعات پر ہے۔
گجرات کو اگر مذہب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہاں پر اکثر آبادی تو ہندوؤں کی ہی ہے لیکن دوسرے نمبر پر مسلمانوں کی ہے۔
اس ریاست میں مسلمانوں کی آبادی اور اُردو زبان بولنے، سمجھنے اور پڑھنے والوں کی آبادی %9.67 ہے۔یعنی کہ اگر مسلم آبادی کو اس ریاست میں دیکھا جائے تو 58.47 لاکھ کی آبادی مسلمانوں کی ہی ہے۔پتہ یہ چلا کہ اس ریاست میں اردو زبان بولنے، سمجھنے اور پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
لیکن بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس ریاست میں اُردو صحافت کا نام و نشان بھی نہیں ہے جسکی وجہ سے یہاں کا مسلم نوجوان اردو صحافت سے کافی دور ہے۔
رہی بات گجراتی زبان کی تو یہاں پر مسلم کمیونٹی گجراتی زبان سے آشنا تو ہے لیکن پڑھنے لکھنے میں گجراتی زبان سے قدرے ناواقف ہے، کیونکہ یہاں پر نصف درجے کی آبادی باہر والوں کی ہے جنکا زیادہ تر تعلق یوپی اور بہار سے ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہاں پر یوپی بہار والوں کی کیا ضرورت پڑ گئی، تو اسکا سادہ سا جواب یہی ہے کہ اس ریاست میں کمپنیاں بےشمار ہیں۔
ہندوستان میں دوا سازی کی صنعت میں ریاست گجرات پہلے نمبر پر ہے ، جس کا منشیات کی تیاری میں % 33حصہ اور منشیات کی برآمدات میں %28 حصہ ہے۔ ریاست میں 130 یو ایس ایف ڈی اے کی تصدیق شدہ ادویات بنانے کی سہولیات ہیں۔ احمد آباد اور وڈودرا کو دوا سازی کا مرکز سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان شہروں میں کئی بڑی اور چھوٹی فارما کمپنیاں قائم ہیں۔
یہ ریاست ہندوستان کی سب سے خوشحال ریاستوں میں سے ایک ہے، جس کی فی کس جی ڈی پی ہندوستان کی اوسط سے کافی زیادہ ہے۔
اسکے علاوہ احمد آباد، وڈودرا، انکلیشور اور واپی جیسے شہر کیمیکل صنعتوں کا مرکز ہیں، جن میں مینوفیکچرنگ یونٹس (نجی اور ساتھ ہی ساتھ سرکاری ملکیت والے) رنگوں، خاص کیمیکلز، زرعی کیمیکلز، کیڑے مار ادویات، روغن، رنگ وغیرہ تیار کیے جاتے ہیں۔
اسی لئے یہاں پر کام کرنے والوں کی بہت ضرورت پڑتی ہے اور وہ کارکنان زیادہ تر یوپی اور بہار سے ہی ہوتے ہیں خواہ وہ بحیثیت ورکر ہوں یا بحیثیت سپر وائزر ہوں۔ اور ان کار کنان میں ہندو مسلم سب ہوتے ہیں، ہر کمپنی کے باہر ڈھابے یا چاے کی دکان ضرور ہوتی ہے اور ان دوکانوں پر روزآنہ اخبار آتے ہیں لیکن وہ دوسری زبان میں ہوتے ہیں اور جب وہ کار کنان کمپنی سے باہر نکلتے ہیں تو ہندی یا گجراتی اخبار کو دیکھتے بھی نہیں ہیں۔
اسکے علاوہ وہ طبقہ جنکا شمار خواص میں ہوتا ہے جو اردو ادب سے ماہر بھی ہوتے ہیں اردو ادب کو سمجھتے، جانتے اور پڑھتے ہیں وہ بھی اس ریاست میں اردو اخبار دیکھنے سے محروم ہوتے ہیں ،علاوہ ازیں وہ گجراتی یا ہندی سے اتنے واقف بھی نہیں ہوتے کہ وہ گجراتی اخبار پڑھیں، بعض عالم و حافظ ہوتے ہیں جو اصلا یہیں کے ہوتے ہیں وہ تو گجراتی پڑھ لیتے لیکن ساتھ ہی ساتھ اردو سے بھی اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اور جہاں تک میرا خیال ہے کہ اگر اس ریاست میں اردو اخبار کو جاری کر دیا جائے تو وہ بھی اسی اخبار کا استقبال کریں گے، اور وہ خواص جو باہر کے ہوتے ہیں وہ تو اردو اور ہندی کے سوا کچھ جانتے ہی نہیں ہیں وہ تو اخبار پڑھنے سے محروم رہتے ہیں اور انکی محرومی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اس ریاست میں اردو صحافت کا کوئی نام و نشان نہیں چاہے وہ پرنٹ میڈیا کی حیثیت سے ہو یا الکٹرانک میڈیا کی حیثیت سے ہو، یہاں پر دونوں نہیں ہے۔جبکہ اس ریاست میں اردو پڑھنے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ہے، نہ جانے کتنے مدارس و مساجد اور اردو اسکولز ہیں۔ اگر ان اخبارات کو صرف مدارس ہی میں پیش کیا جائے تو وہاں پر ایک بڑی تعداد مل جائے گی جو اردو پڑھنے والی ہے اور اگر مدارس کی بات کی جائے تو اس ریاست میں ایسے بے شمار مدارس ہیں جہاں قال اللہ و قال الرسول کا درس دیا جاتا ہے، جہاں بچوں کو اُردو ادب کا ماہر بنایا جاتا ہے، جہاں ہر عالم کی پہلی کلاس دینیات کی ہوتی ہے جسکا پورا انحصار اردو پڑھنے اور سیکھنے کا ہی ہوتا ہے، بعض مدارس میں دینیات ایک ہی سال کے ہوتے ہیں لیکن کہیں کہیں پر دو سال کے بھی ہوا کرتے ہیں۔
یہاں ایسے بیشمار مدارس ہیں جہاں سے علماء و فقہاء نکلتے ہیں۔
جن میں سر فہرست جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل، مدرسہ سعادت حسین ہانسوٹ، مدرسہ حسینہ راندیر، مدرسہ فلاح دارین ترکیسر، جامعۃ القرات کفلیتہ، مدرسہ مفتاح العلوم تراج، مدرسہ جامع العلوم گڑھا، یہ سارے کے سارے مدارس ضلع سورت سے تعلق رکھتے ہیں۔
اور اگر صرف شہر بلساڑ کی بات کی جائے تو یہاں پر بھی بے شمار مدارس ہیں جن میں سرفہرست مدرسہ ہدایت الاسلام عالی پور، جامعہ رحمانیہ کھامبیہ، جامعہ نور الاسلام دم، مدرسہ ریاض الاسلام چری، یہ وہ مدارس ہیں جہاں حفظ تا عالمیت کی تعلیم دی جاتی ہے اسکے علاوہ بہت سارے چھوٹے چھوٹے مدارس بھی ہیں جہاں صرف دینیات اور حفظ کی پڑھائی ہوتی ہے، اسکے علاوہ اردو اسکول بھی ہیں جہاں ایک سے بارہ تک کی مکمل تعلیم اردو زبان میں دی جاتی ہے، اسکے علاوہ بے شمار مکاتب و مساجد بھی ہیں جہاں اردو میں ہی تعلیم دی جاتی ہے۔
بہر حال یہ چند مدارس و مکاتب تھے جہاں پر قال اللہ و قال الرسول کا درس دیا جاتا ہے، جہاں سے ہر سال نہ جانے کتنے علماء فضیلت کی سند لیکر امت کی خدمت کرتے ہیں، نہ جانے اسکے علاوہ کتنے مدارس ہیں جو امت کی خدمت کر رہے ہیں۔
لیکن افسوس صد افسوس یہ بھی بیچارے اردو اخبار پڑھنے بلکہ دیکھنے سے بھی محروم رہتے ہیں۔
قارئین! میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ گجرات دنگا جو ہوا، اور مسلمانوں کا قتل عام ہوا، معصوم بچوں کو مارا گیا، حاملہ عورتوں کی بطن کو چیر کر بچے کو مارا گیا اور مسلم خواتین کی عزت سے جو کھلواڑ کیا گیا اسکی سب سے بڑی وجہ یہاں پر اردو صحافت کا نہ ہونا تھا، شاید اگر یہاں اردو صحافت ہوتے تو اس وقت کے حالات سے مسلمانوں کو برابر آگاہ کرتے رہتے لیکن یہاں پر کوئی اردو صحافت نہیں تھی جو ان پے گناہ مسلمانوں کو حالات سے آگاہ کرتے، ایسا تو ہے نہیں کہ وہ فساد اچانک ہی کیا گیا تھا بلکہ اسکے پیچھے ایک پلاننگ ہوگی جسکو مہینوں پلان کیا گیا ہوگا، جسکو یہاں کی دلال میڈیا بھی جانتی ہوگی لیکن اسکو منظر عام پر نہیں لائی ہوگی، کاش اس وقت کوئی اردو میڈیا بھی ہوتی جو انھیں حالات سے آگاہ کرتی رہتی تو شاید معصوم بچوں کی جان بچ جاتی، مسلم عورتوں کی عصمت دری نہ کی جاتی۔
اس لئے اخیر میں گذارش کی جاتی ہے کہ اس ریاست میں بھی اردو صحافت کا آغاز کیا جاے تاکہ یہاں کی بھولی بھالی عوام محفوظ رہے، اسی لئے ہر اردو اخبار کے ایڈیٹر سے مؤدبانہ یہ گذارش کی جاتی ہے کہ وہ اس معاملے پر ذار دھیان دیں اور اپنی ٹیم یہاں بھیج کر یہاں کا مشاہدہ کرواکر اس ریاست میں بھی اردو اخبار سے لوگوں کو مستفیض ہونے کا موقع فراہم کریں۔

Comments are closed.