تعدد ازدواج پر مغربی دنیا کا وا ویلا اوراس کی حقیقت

از قلم : محمد ہاشم القاسمی
خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال
رابطہ نمبر9933598528
انسان کی ایک فطری کمزوری یہ ہے کہ وہ جس بات کو بار بار اور مختلف زبانوں سے سنتا ہے ، خواہ وہ کتنی ہی غلط بات کیوں نہ ہو ، اس کو درست اور صحیح سمجھنے لگتا ہے،چنانچہ تعدد ازدواج کے مسئلہ پر مغربی دنیا نے اتنا کچھ لکھا اور کہا ہے کہ بہت سے مسلمان بھی اس سلسلہ میں شک و تذبذب کے شکار ہیں ،اور جن لوگوں نے مغربی ماحول میں یا مغربی نظام کے تحت تعلیم حا صل کی ہے، وہ بے چارے تو اس مسئلہ پر اتنے شرمسار ہو جاتے ہیں کہ شاید عرق ندامت پیشانی سے گزر کر پاؤں تک پہنچ جاتا ہو ، اس لئے اس مسئلہ پر حقیقت پسندی سے غور کرنے کی ضرورت ہے!
مذہبِ اسلام نے ایک سے زیادہ نکاح کی عدل و انصاف کی شرط کے ساتھ اجازت دی ہے ،آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ماڈرن اور ایجوکیشن سوسائٹی میں اس کو خلاف ِ عدل و انصاف سمجھا جاتا ہے۔حالانکہ یہ اکثر حالات میں خود عورتوں کے لئے باعثِ رحمت ہوتا ہے، اور اخلاقی اقدارکے تحفظ میں اس کا بڑا اہم رول ہے ۔جن قوموں نے قانونی اعتبار سے تعدد ازدواج(ایک سے زیادہ نکاح) پر بابندی عائد کی ہے، وہ غیر قانونی طور پر( جیسے گرل فرینڈ ) تعدد ازدواج کے سیلاب کو روکنے میں بُری طرح ناکام رہی ہیں ۔
اس لئے حالات اس بات کا متقاضی ہے کہ شریعت مطہرہ کے احکام صاف اور واضح انداز پر لوگوں تک پہنچائیں جائیں اور ان کی مصالح اور حکمتیں واضح کی جائیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ تعدد ازداج Poly Gamy))کا مسئلہ ان سماجی مسائل میں سے ہے، جو آزادی نسواں کی تحریک کے بعدسے پوری دنیا میں زیر بحث رہا ہے،اور اسلام کے معاشرتی قوانین کے خلاف اہلِ مغرب کی طرف سے جو بے جا اورغیر منصفانہ فرد جرم عائد کی جاتی رہی ہے ، اُن میں یہ مسئلہ سر فہرست ہے۔
تعدد ازدواج کا مسئلہ کئی پہلوؤں سے قابل غور اور توجہ ہے،مثلاََ مذہبی اعتبار سے ، سماجی اعتبار سے ، اور اخلاقی اعتبار سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ،اب ہم ترتیب وار اس کا سر سری جائزہ ،حوالاجات کے ساتھ نذرِ قارئین کرنے جا رہے ہیں ۔
مذہبی اعتبار سے یہ ایک حقیقت ہے کہ تقریباََ دنیا کے تمام مذاہب میں تعدد ازدواج کو جائز قرار دیا گیا ہے ،ڈاکٹر مالک رام نے رگ وید (۱۰؛۱۰۸تا ۱۰۵)کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ایک مرد کے لئے بیک وقت ایک سے زیادہ نکاح کرنا درست ہے، اور بیویوں کے لئے کوئی تحدید نہیں ہے، ہندو مذہبی کتابوں میں بہ کثرت ایک سے زیادہ نکاح کا ذکر ملتا ہے جیسے Aitareya Brahnanaمیں ہے ؛ ’’ ایک مردکی بہت سی بیویاں ہو سکتی ہیں ، لیکن عورت بہت سے شوہر نہیں رکھ سکتی ‘‘Apastambaمیں ہے ’’ اگر شوہر کے پاس ایک بیوی ہے ، جو اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی اہل بھی ہو اور جو لڑکے جن سکتی ہو ،تو اس صورت میں شوہر دوسری بیوی نہیں رکھ سکتا ، لیکن اگر کسی کی بیوی ان دونوں صلاحیتوں میں کسی ایک سے محروم ہے، تو اس حالت میں اس شوہر کے لئے دوسری بیوی رکھنا جائز ہے، لیکن قبل اس کے وہ اگنی ہوترکی آگ روشن کرے‘ ‘ Devalaمیں ہے ’’ شودر کے لئے صرف ایک بیوی رکھنے کی اجازت ہے،ویش کے لئے دو، چھتری کے لئے تین، برہمن کے لئے چار،لیکن بادشاہ کے لئے جتنی چاہے، اتنی بیویاں رکھنے کی اجازت ہے‘‘ ۔Gautamaمیں ہے’’ برہمن کے لئے تین، چھتری کے لئے دو، اور شودر کے لئے صرف ایک رکھنے کی اجازت ہے،اگر کسی عورت کا شوہر غائب ہو جائے تو اس کو چھ سال انتظار کرنا چائے،اگر اس کا پتہ چل جائے تو اس کو اپنے شوہر کے پاس چلے جانا چاہئے‘‘۔مہابھارت میں ہے’’ اس دنیا میں ظاہر ہوئے بھگوان واسودیو کی سولہ ہزار ایک سو ایک رانیاں ہوئیں ، ان میں رکمنی، ستیہ بھاما، جاموتی،چاروہاسی وغیرہ آٹھ رانیاں مشہور ہوئیں۔(مہابھارت انش ۴۔۱۵)شری رام چندر کے والد مہاراجہ دشرتھ کی تین بیویاں تھیں،کوشلیا، جو رام چندر جی کی والدہ ہیں،سمترا، جو لکشمن جی والدہ ہیں ،اور کیکئی جو بھرت جی کی والدہ ہیں،اسی طرح راجہ پانڈو کی دو بیویاں تھیں،ایک کنتی ،جن کی اولاد میں سے ارجن ہیں اور مادری ، جن کی اولاد میں شہدیو ، ہیں ( ہندوستانی معاشرہ میں تعدد ازدواج)
فرانسیسی مؤرخ گستاؤلی بان لکھتے ہیں ’’ مثل ہندوستان کے اور خطوں کے راجپوتانہ میں بھی کثرت ازدواج کی رسم موجود ہے،لیکن راجپوتوں میں ہمیشہ ایک بڑی بیوی رہتی ہے اور پرانے زمانے میں بھی بیوی اپنے شوہر کی لاش کے ساتھ جلائی جاتی تھی، بعض اوقات بیویوں میں آپس میں جھگڑا ہوتا تھا کہ کون ان میں سے شوہر کے ساتھ جلنے کی عزت حاصل کرے،بادشاہوں کے لئے یہ رسم تھی کہ ان کی کل بیویاں ان کی لاش کے ساتھ جلائی جاتی تھیں ، اس وقت تک اودے پور میں سنگرام سنگھ اور اس کی اکیس رانیوں کا مقبرہ موجود ہے جو ۱۷۳۳ ء؁ میں راجہ کے ساتھ جلی تھیں۔‘‘( تمدن ہند ۲۹۹ )
یہودی مذہب میں بھی تعدد ازدواج کی گنجائش ہے، کیونکہ حضرت ابراہیم ؑجن کی نسل سے بنی اسرائیل بھی ہیں اور بنو اسماعیل یعنی عرب بھی، تورات میں ان کی تین بیویوں کا ذکر ملتا ہے ،ایک حضرت سارہ ؑ،دوسری حضرت ہاجرؑہ، اور تیسری حضرت قطورہ ؑ۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کی بھی چار بیویوں کا ذکر تورات میں ملتا ہے ’’ لیاہ، اور ان کی کنیز زلفہ اور راخل، اور ان کی کنیز بلہاہ‘‘ خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دو بیویاں تھیں ایک حضرت صفورہ ؑ ، جو حضرت شعیب ؑ کی صاحبزادی تھیں،(خررج ۲:۲۱) آپ کا دوسرا نکاح ایک کوشی خاتون سے ہوا تھا ( گنتی :۱۲؛۱)
عیسائی مذہب میں بھی تعدد ازدواج کی اجازت ہے ،چنانچہ شیخ محمود عقاد نے لکھا ہے کہ سترویں صدی تک خود اہل کلیسا نے تعدد ازدواج کی حمایت کی ہے، فرماتے ہیں ،’’ مختلف انسانی نظام ازدواج کی تاریخ کے مستند عالم وسٹر مارک (Vister Marc) نے بیان کیا ہے ،کہ کلیسا اور حکومت دونوں ہی سترویں صدی کے نصف تک تعدد ازدواج کو مباح قرار دیتے تھے ،اور ان کے یہاں بکثرت اس کا رواج تھا ‘‘ ( الفلسفہ القرآنیہ ) حاصل کلام یہ ہے کہ دنیا کے مشہور مذاہب میں شاید ہی کوئی مذہب ہو ، جس نے تعدد ازدواج کو جائز نہ رکھا ہو ، اسلام سے پہلے خود عربوں میں بھی غیر محدود ازدواج کی اجازت تھی۔غیلان ثقفیؓ جب مسلمان ہوئے تو ان کی دس بیویاں تھیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ چار بیویاں رکھو اور بقیہ کو علاحدہ کردو۔( صحیح ابن حبان ) اسی طرح نوفل بن معاویہ ؓ جب مسلمان ہوئے تو ان کی پانچ بیویاں تھیں ، آپ ﷺ نے ان کو ہدایت دی کہ چار بیویاں رکھیں اور باقی علاحدہ کردیں ( مفاتیح الغیب )
اسلام نے بھی تعدد ازدواج کی اجازت دی ہے ، لیکن اس سلسلہ میں تین باتیں قابل توجہ ہیں ؛ اول یہ کہ اسلام نے صرف اس کی اجازت دی ہے ، ترغیب نہیں دی ، اس کو جائز تو ٹھرایا گیا ہے ،لیکن مستحب قرار نہیں دیا گیا ہے ، اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غزوات اور ان کی وجہ سے بیواؤں اور یتیموں کی کثرت کی بنا پر صحابہ کرام ؓ کی بڑی تعداد ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے تھے ،خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت و اشاعت اور یتیموں اور بیواؤں کی کفالت جیسی مصلحتوں کی بنا پر کئی نکاح فرمائے ۔
ایک بیوی پر قناعت کرنے والے کے کے بارے متقدمین کی دلچسپ رائے پڑھئے (۱) ابن سینا کہتے ہیں کہ جس کی ایک ہی بیوی ہو ،وہ جوانی میں بوڑھا ہوجاتا ہے ، اسے ہڈیوں ، کمر، گردن، اور جوروں کے درد کی شکایت پیدا ہو جاتی ہے، اس کی مایوسی بڑھ جاتی ہے، ہنسی اڑ جاتی ہے اور وہ شکوے شکایات کا گڑھ بن جاتا ہے، یعنی ہر وقت شکوے شکایات ہی کرتا نظر آئے گا۔(۲) قاضی ابن مسعودؒ کہتے ہیں کہ جس کی ایک بیوی ہو ،اس کے لئے لوگوں کے مابین فیصلے کرنا جائز نہیں، یعنی اس کا قاضی بننا درست نہیں، اس لئے کہ وہ ہر وقت غصے کی حالت میں ہوگا اور غصے میں فیصلہ جائز نہیں۔ (۳) ابن خلدونؒ کہتے ہیں میں نے پچھلی قوموں کی ہلاکت پر غور و فکر کیا تو میں نے دیکھا کہ وہ ایک ہی بیوی پر قناعت کرنے والے تھے۔(۴) ابن میسار ؒکہتے ہیں کہ اس شخص کی عبادت اچھی نہیں ہو سکتی جس کی بیوی ایک ہو ۔(۵) عباسی خلیفہ مامون الرشید سے کہا گیا کہ بصرہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں ،کہ جن کی ایک ہی بیوی ہے، تو مامون الرشید نے کہا کہ وہ مرد نہیں ہیں ، مرد تو وہ ہیں ،جن کی بیویاں ہوں ،اور یہ فطرت اور سنت دونوں کے خلاف چل رہے ہیں ۔(۶) ابن یونس ؒسے کہا گیا کہ یہود و نصاریٰ نے تعدد ازدواج یعنی ایک سے زائد بیویاں رکھنا کیوں چھوڑدیا ؟ تو انہوں نے جواب دیا اس لئے کہ اللہ عز و جل ۔۔۔ذلت اور مسکنت کو ان کا مقدر بنانا چاہتے تھے۔ (۷) ابو معروف کرخی ؒ سے سوال ہو کہ آپ کی ان کے بارے میں کیا رائے ہیں، جو اپنے آپ کو زاہد سمجھتے ہیں، لیکن ایک بیوی رکھنے کے قائل ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ زاہد نہیں ،بلکہ مجنون ہیں ، یہ ابوبکر ؓ و عمر ؒ اور عثمانؒ کے زہد کو نہیں پہنچ سکتے۔(۸) ابن فیاضؒسے ایسے لوگوں کے بارے سوال ہوا کہ جن کی ایک ہی بیوی ہے ، تو انہوں نے کہا کہ وہ مردہ ہیں ، بس کھاتے پیتے اور سانس لیتے ہیں۔(۹) والی کرک ابن اسحاق ؒنے پورے شہر میں مال تقسیم کیا ،لیکن ایک بیوی والوں کو کچھ نہ دیا ، جب ان سے وجہ پوچھی گئی، تو کہا کہ اللہ عز و جل نے سفہاء یعنی ذہنی نابالغوں کو مال دینے سے منع کیا ہے، کہ وہ اسے ضائع کر دیتے ہیں ۔(۱۰) ابن عطاؒ نے ایک بیوی رکھنے والوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان کو بڑا کیسے سمجھ لیں کہ جنہوں نے اپنے بڑوں کی سنت کو چھوڑ دیا یعنی صحابہؓ کی سنت کو ۔(۱۱) علامہ حصریؒ کہتے ہیں کہ جب اللہ نے شادی کا حکم دیا ۔۔۔ تو اللہ نے دو سے شروع کیا اور کہا کہ دو دو سے کرو، تین تین سے کرو اور چار چار سے شادیاں کرو ،اور ایک کی اجازت ان کو دی جو خوف میں مبتلا ہوں۔(۱۲) تقی الدین مزنیؒ سمرقند کے فقیہ بنے تو ان کو بتلا یا گیا کہ یہاں کچھ لوگ ایک بیوی کے قائل ہیں ، پھر اہل شہر کو وعظ کیا تو اگلے چاند سے پہلے تین ہزار شادیاں ہوئیں اور شہر میں کوئی کنواری ، مطلقہ اور بیوہ نہ رہی۔
لیکن فقہائے متأخرین نے اس بات کو بہتر قرار دیا کہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کیا جائے، چنانچہ علامہ برہان الدین مرغنانی ؒ فرماتے ہیں کہ’’ کسی شخص کی ایک بیوی ہو اور وہ اس کی موجودگی میں دوسری شادی کرنا چاہے، تو اگر اس کو اندیشہ ہو کہ وہ دونوں کے درمیان عدل نہیں کر سکے گا ،تو اس کے لئے دوسرا نکاح کرنا جائز نہیںہے، اور اگر یقین ہو کہ وہ ان کے درمیان عدل کر سکے گا ،تو اس کے لئے دسرے نکاح کی گنجائش ہے۔تاہم اگر اس کے باوجود دوسرا نکاح نہ کرے تو اجر کا مستحق ہوگا۔اس لئے کہ وہ اپنی بیوی کو رنج و اندوہ سے دو چار کرنے سے باز رہا ہے،اسی طرح اگر کوئی عورت پہلے سے موجود بیوی کی موجودگی میں دوسرا نکاح کرنا چاہے تو یہ اس کے لئے جائز ہے، لیکن اگروہ ایسا نہ کرے تو اس کو اجر و ثواب حاصل ہوگا۔(مختارات النوازل)
اسی طرح فتاویٰ عالمگیری میں ہے ’’کسی کے ایک بیوی موجود ہو ، وہ اس کی موجودگی میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہو اور اندیشہ ہو کہ ان دونوں کے درمیان عدل نہیں کر سکے گا تو اس کے لئے دوسری شادی کرنا جائز نہیں،اور اگر اس کا اندیشہ نہ ہو تو دوسری شادی کرنے کی گنجائش ہے، لیکن نہ کرنا بہتر ہے ، اور اگر نہ کرے تو پہلی بیوی کو غم سے دو چار نہ کرنے کا اجر اسے حاصل ہوگا ( فتاوی ہندیہ)
اسی طرح فقہ حنفی کی ایک اور کتاب میں لکھا ہے کہ ’’ فقہا ء نے کہا ہے کہ اگر پہلی بیوی کو رنج پہنچنے کے غم سے دوسرا نکاح نہ کرے تو یہ اس کے لئے باعث ثواب ہے ۔اور یہی نقطہ نظر فقہائے شوافع کا بھی ہے۔امام شافع رحمتہ اللہ علیہ نے فرما یا میرے نزدیک مستحب یہ ہے کہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے ،مگر یہ کہ ایک سے زیادہ نکاح کرنا جائز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم کو اندیشہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو تو ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو۔( البیان فی مذہب الامام الشافی )
فقہائے حنابلہ نے بھی یہی لکھا ہے علامہ مرداوی حنبلیؒ کہتے ہیں کہ مذہب کا قول صحیح یہی ہے کہ اگر ایک بیوی عفت و پاکدامنی کے لئے کافی ہوجائے تو ایک سے زیادہ نکاح نہ کرے ، نیز علامہ ابن خطیب سلانی ؒ فرماتے ہیں کہ جمہور حنابلہ نے اسی بات کو بہتر قرار دیا ہے کہ ایک سے زیادہ نکاح نہ کیا جائے (الانصاف)
اس لئے حقیقت یہ ہے کہ تعدد ازدواج کی اجازت ایک سماجی و عمرانی ضرورت اور عفت و پاکدامنی کی حفاظت کا ذریعہ ہے ،اور اپنے نتائج و اثرات کے اعتبار سے خود عورتوں کے لئے بعض حالات میں باعث رحمت ہے ،البتہ یہ بات ضروری ہے کہ تعدد ازدواج کے لئے شریعت نے جو حدود و قیود مقرر کی ہیں ، ان کا لحاظ رکھا جائے ،ورنہ شریعت کا استعمال نہیں ،بلکہ استحصال ہوگا۔

Comments are closed.