ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر

(دگرگوں حالات اور تیسرا متبادل طریقۂ کار)
احمد نور عینی
حجاب کا مسئلہ اس وقت سلگتا ہوا موضوع بنا ہوا ہے، اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے دو طرح کے بیانیے چل رہے ہیں، ایک بیانیہ یہ ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے اور عدلیہ میں قانونی لڑائی لڑی جائے، دوسرا بیانیہ یہ ہے کہ احتجاج کیا جائے اور سڑک پر جمہوری لڑائی لڑی جائے، جو لوگ عدلیہ میں لڑنے کی بات کر رہے ہیں اور سڑک پر اترنے کو خلاف مصلحت سمجھ رہے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ سڑک پر اترنے سے دشمن کی چال کامیاب ہوگی اور عدلیہ کے سوا ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے، دوسری طرف جو لوگ سڑک پر اترنے کی بات کر رہے ہیں اور عدلیہ پر بھروسہ کرنے کو خلاف مصلحت سمجھ رہے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے، اور عدلیہ سے انصاف ملے گا یا فیصلہ کچھ کہا نہیں جا سکتا، نیز فیصلہ ہمارے خلاف آنے کے بعد دشمن قانونی طور پر مضبوط ہو جائے گا۔ مسئلہ سے نمٹنے کے لیے مسلم قوم ان دو بیانیوں میں منقسم ہیں، سچ یہ ہے کہ دونوں کے خدشات بجا ہیں، نیز دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت مسئلہ کا حل نہیں ہے، تو پھر مسئلہ کا حل کیا ہے؟ اس سوال کا جواب سمجھنے سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ اس طرح کے مسائل کسی منصوبے کے بغیر یوں ہی بے مقصد اٹھائے اور گرمائے جاتے ہیں یا ان کے پیچھے کوئی مقصد اور منصوبہ ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ سب کچھ یوں ہی نہیں ہو رہا ہے؛ بلکہ اس کے پیچھے مخصوص منصوبہ اور خاص مقصد ہے جو ایک آئیڈیالوجی سے مربوط ہے، وہ آئیڈیالوجی ہے ’’ہندوتو‘‘ کی، ہندوتو در اصل وہ نقاب ہے جو برہمنواد نے جمہوری دور کی مجبوری کی وجہ سے اوڑھ رکھا ہے، جمہوری دور میں برہمنواد نے ماضی کی حکمت عملیوں کے مقابل ایک الگ حکمت عملی وضع کی۔ برہمنواد سے جس طبقہ کا مفاد وابستہ ہےوہ چوں کہ اس ملک میں اقلیت میں ہے اس لیے اس نے جنگ میں اپنے کو اکثریت میں لانے کے لیے ہندوتو کا نقاب اوڑھ لیا، اس نقاب کی آرائش وزیبائش کچھ اس انداز سے کی کہ وہ قومیں جنھیں شودر واتی شودر قرار دے کر برہمنواد نے زائد از تین ہزار سال سے اپنا غلام بنا رکھا ہے ان کی بڑی تعداد بھی دھوکہ کھاگئی اور ہندوتو کے جال میں گرفتار ہوگئی۔برہمنواد نے ایک تو ان قوموں کو تعلیم سے دور رکھ کر تقریبا چار ہزار سال سے غلام بنائے رکھا، پھر تقریبا ڈیڑھ صدی سے ان کی ذات پات کی تقسیم کو باقی رکھنے کے ساتھ بڑی چالاکی سے انھیں مخصوص مقصد کے لیے ایک صف میں کھڑا کرنے کی مسلسل کوشش کی اور اب بھی کر رہا ہے، یہ صف بندی مسلم دشمنی کی بنیاد پر استوار کی گئی اور مسلم منافرت کی بنیاد پر اس صف بندی کی راہ ہموار کی گئی، اس کا آغاز دیانند سرسوتی نے انیسویں صدی کے اواخر میں کردیا تھا، پھر بیسویں صدی کی تیسری دہائی سے اس صف بندی کو مضبوط کرنے کی مسلسل ومنظم کوشش جاری ہے، اس میں سیکولر برہمنوادیوں کا بھی حصہ ہے۔ یوں جمہوری دور میں برہمنواد نے بھارت کے پست وپسماندہ طبقات کے سماج کی حالت کچھ یوں کردی کہ انھیں ذات پات کے نام پر تو بری طرح منقسم کر رکھا؛ مگر مسلم مخالفت کے نام پر انھیں ایک صف میں لا کھڑا کیا، عام حالات میں تو ہر ذات کا دائرہ اپنی ذات تک محدود ہے؛ مگر الیکشن اور فساد کے موقع سے اور مسلم مخالف مسائل اٹھا کر مسلم مخالف ماحول بنانے کے مقصد سے ہر ذات کے لوگ ’’ہندو‘‘ بن جاتے ہیں یا بنا دیے جاتے ہیں، جب بات برہمنواد کے مفادکی آتی ہے تو ان سب کو ’’ہندو‘‘ بنا دیا جاتا ہے اور جب بات ان کے حقوق اور مفادات کی آتی ہے تو پھر ذات پات کو ہوا دی جاتی ہے۔ برہمنواد کا مفاد جب انھیں ایک کرنے میں ہوتا ہے تو وہ مسلمانوں کے مسائل چھیڑ دیتا ہے، اور جب اس کا مفاد ان کو تقسیم کرنے میں ہوتا ہے تو ذات پات ، چھوت چھات اور اونچ نیچ کے نام پر لڑا دیتا ہے۔
برہمنوادی ظالم طبقہ ہمارے حساس مسائل چھیڑ کر اس ملک میں ایک ایسا مخصوص ماحول بنانا چاہتا ہے کہ رد عمل کے طور پر اس کی صف بندی کو استحکام ملے، کمنڈل بنام منڈل کی برہمنوادی پالیسی میں ہمارے لیے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے، منڈل کمیشن نے جب او بی سی کے تحفظات کی سفارش کی تو برہمنوادیوں کی شبانہ روز محنت سے تیار کی گئی صف بندی خطرے میں پڑگئی اور چوں کہ جمہوری دور میں برہمنواد کی بقا اسی صف بندی کے استحکام پر منحصر ہے، اس لیے اس نے ایسا مسئلہ چھیڑ نا ضروری سمجھا جس کا نشانہ مسلمانوں کو بنایا جائے اور پھر مسلمانوں کے رد عمل سے فائدہ اٹھاکر اپنی دو لخت ہوتی صف بندی کو دوبارہ مستحکم کیا جائے، اس کے لیے اس دور میں بابری مسجد کے مسئلہ سے اچھا کونسا مسئلہ ہوسکتاتھا، لہذا اس مسئلہ کو گرم کیا گیا اور ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک رتھ یاترا نکال دی گئی، اس کو کمنڈل کا نام دیا گیا، بی جے پی کے ایک قدر آور لیڈر نے واضح طور پر کہا تھا کہ منڈل کو دبانے کے لیے کمنڈل لایا گیا، مرکز میں نام نہاد سیکولر برہمنوادیوں کی سرکار تھی؛ مگر کمنڈل کو ان کا بھی تعاون حاصل رہا، کمنڈل میں برہمنوادی کس حد تک اپنے مقصد میں کامیاب رہے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ دشمن ہم سے جس طرح کا رد عمل چاہتا ہے اس طرح کا رد عمل نہ دے کر مسئلہ کا رخ اس انداز سے موڑیں کہ ظلم کا پالیسی میکر طبقہ دفاعی موقف میں آئے اور اس کی صف بندی بھی کمزور ہو؛جیسا کہ شاہین باغ تحریک میں ایک حد تک ہم نے یہ کام کیا تھا، ہم نے پوری تحریک کو دستور بنام منوواد بنانے کی کوشش کی تھی۔
مخصوص انداز کے رد عمل کی حکمت عملی ترک کرنے کا مقصد جذبات کے اظہار سے روکنا نہیں ہے؛ بل کہ جذبات کا رخ موڑنا مقصود ہے، جذبات کو ایسا رخ دیا جائے کہ دشمن کا فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہو، وہ دفاعی موقف میں آئے اور اس کی تدبیریں اسی پر پلٹ جائیں۔برہمنوادی ظالم طبقہ یہ چاہتا ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے حساس مسائل چھیڑ کر ہمارے رد عمل سے فائدہ اٹھائے، ہمیں چاہیے کہ ہم اس کے جواب میں برہمنزم پر تابڑ توڑ فکری حملے کریں۔ فکری جنگ میں فکری یلغار کا جواب ہم آہنگی اور یکجہتی کے پیغام سے نہیں؛ بلکہ فکری یلغار سے ہی دیا جاسکتا ہے، یہ کام جب تک نہیں ہوگا ڈور الجھتی ہی جائے گی۔ رفاہی کاموں کی اہمیت سے انکار نہیں ؛ لیکن کسی مضبوط فکری بنیاد اور فکری یلغار کے بغیر رفاہی کاموں سے انفرادی طور پر کچھ لوگوں کے دلوں کو تو بدلا جا سکتا ہے مگر جنگ کی بازی نہیں پلٹی جا سکتی ہے۔ رہی بات عدالتی سہارے کی تو بابری مسجد اور تین طلاق کے مسائل پر عدالتی فیصلوں نے کم از کم اتنی بات سمجھا دی کہ اس پہ تکیہ کرنے کا مطلب تکیہ پر سر رکھ کر عالم خواب کی سیر کرنا ہے، اس لیے بحالت مجبوری آخری آپشن کے طور پر عدالت کو رکھا جائے ورنہ دور رہ کر ہی فکری یلغار کا کام منظم ومنصوبہ بند طریقے سے جاری رکھا جائے، اس بابت یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ عدالتیں تنازعات حل کرتی ہیں، فکری جنگ کے میدان میں بازی نہیں جتاتیں۔ ایک اور بات کی طرف بھی اشارہ کردینا ضروری معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ سیرت نبوی ﷺ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کار دعوت اور دین کے غلبہ واشاعت کی راہ میں اگر دشمن جنگ کے ذریعہ رکاوٹ بنے اور ہم جنگ کے موقف میں ہوں تو جنگ کا جواب جنگ سے دیا جائے گا، دعوت کی راہ میں جنگ رکاوٹ بنے تو اس کا جواب دعوت سے نہیں جنگ سے دیا جائے گا، اسی طرح دشمن جنگ چھیڑ دے تو جنگ کا خاتمہ دعوت سے نہیں جنگ سے کیا جائے گا، اگرچہ جنگ کو مقصود نہیں سمجھا جائے گا، مقصود کار دعوت ہی ہوگا، دور نبوی میں دشمن نے جو جنگ چھیڑی تھی وہ عسکری جنگ تھی، موجودہ دور کے دشمن نے جو جنگ چھیڑی ہے وہ فکری جنگ ہے اور ہم فکری جنگ کے موقف میں ہیں؛ کیوں کہ فکری جنگ میں وسائل نہیں دماغ چاہیے ہوتا ہے، تین فیصد کی نمائندگی کرنے والا طبقہ جب جنگ مسلط کرسکتا ہے تو بیس فیصد کی نمائندگی کرنے والا طبقہ کب تک چھپتا اور سہمتا پھرے گا، دشمن نے فکری جنگ چھیڑ رکھی ہے اس کا مقابلہ فکری جنگ سے ہی کیا جا سکتا ہے، یہ اور بات ہے کہ فکری جنگ ہمارا مقصود نہیں ہے، اللہ کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی کی طرف لانا ہمارا مقصود ہے۔ نیز اسلام کی اشاعت برہمنواد نے روک رکھی ہے، صوفی تحریک کے دور میں ہی اس نے یہ کام کیا تھا، لہذا اشاعت اسلام کی راہ ہموار کرنے کے لیے برہمنواد کے سنگ گراں کو دونیم کرنا ناگزیر ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اس ملک میں اصل کشمکش سیکولرزم بنام فرقہ پرستی نہیں ہے، بل کہ برہمنزم بنام سماجی انصاف ہے، یہ اصلی کشمکش سیکولرزم بنام فرقہ پرستی کی بحثوں میں چھپ جاتی ہے یا چھپا دی جاتی ہے، خواہ وہ بحثیں سیکولر طبقے کی طرف سے ہوں یا فرقہ پرست طبقے کی طرف سے؛ اس لیے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سیکولرزم کی بنیاد پر یا فرقہ پرستی اور فاشزم کو پیش نظر رکھ کر بنائے گئے لائحۂ عمل سے بازی پلٹنے والی نہیں ہے۔ ایک اور بات کی طرف اشارہ کردینابھی مناسب ہے کہ ہندو راشٹر جس کی منزل برہمن راشٹر ہے کے قیام کے ابتدائی مراحل میں دستوری ہندو راشٹر شامل ہے، اس لیےخوش فہمیوں کی دنیا میں آباد ہونے کے بجائے ہمیں فکری یلغار کے لیے ایک مضبوط فکر (آئیڈیالوجی) کو بنیاد بنانا ناگزیر ہے ، اور وہ آئیڈیالوجی ہے سوشل جسٹس کے لیے برہمنزم کے خلاف محاذ آرائی کی آئیڈیالوجی۔
برہمنزم کے خلاف محاذ آرائی کرنے کا مطلب نفرت کا پرچار کرنا نہیں ہے؛ بلکہ ایک باطل نظام کو زمین بوس کرنا ہے، ایک ایسا نظام جس میں ایک مخصوص نسل پرست ودیشی قوم نے بھارتی مولنواسیوں کو ستر ہزار سے زیادہ ٹکڑیوں میں اونچ نیچ کی نفسیات کے ساتھ عمودی طور پر بانٹ رکھا ہے۔ اس نظام کے خلاف محاذ کھولنا وقت کی ضرورت بھی ہے اور فریضۂ امت بھی، برہمنزم ایک باطل نظام ہے جسے پاش پاش کرکے سماجی انصاف قائم کرنااور وحدت انسانیت کےکام کے ذریعہ توحید الہ کے کام کی زمین ہموار کرنا اُس امت کی ذمہ داری ہے جس کے نبی ﷺکے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں ۔ برہمنزم کے خلاف صف آرائی سے وہ مخصوص اتحاد بھی مراد نہیں ہے جسے ’’دلت مسلم اتحاد‘‘ کہا جاتا ہے، بل کہ یہ صف آرائی اس اتحاد سے قدرے مختلف بھی ہے اور وسیع بھی؛ کیوں کہ اس تحاد کے تصور کے پیچھے کوئی مضبوط فکری بنیاد نہیں ہوتی، بلکہ یہ سیاسی پارٹیوں کے اتحاد کی طرح اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہوتا ہے، نیز اس میں او بی سی کا ایک بڑا طبقہ متحدہ محاذ سے باہر رہ جاتا ہے جس کا فائدہ دشمن اٹھاتا ہے، اسی طرح اس میں ایس ٹی سماج نظر انداز کردیا جاتا ہے نیز برہمنزم کے خلاف اٹھنے والے سکھ مت اور لنگایت جیسے مذاہب سے تعلق کی نوعیت واضح نہیں ہوتی، مزید یہ کہ اس طرح کا اتحاد عام طور سے سیاسی نوعیت کا ہوتا ہے جبکہ برہمنزم کے خلاف محاذ آرائی کی نوعیت سیاسی سے زیادہ سماجی ہے، یہ اور بات ہے کہ سماجی نوعیت کا یہ کام جب زمین پر اپنی گرفت بنالے گا تو سیاسی انقلاب کے لیے بھی کام آئے گا، اس بات سے انکار نہیں کہ الیکشن میں اپنے ووٹ کو باوزن بنانے اور او بی سی پارٹیوں پر پریشر بنانے کے لیے یا وقتی طور پر کسی مخصوص فائدے کے حصول کے لیے مسلم ایس سی (دلت) اتحاد کیا جا سکتا ہے؛ مگر طویل مدتی منصوبہ بندی کے ساتھ اپنائی جانے والی برہمنزم کے خلاف محاذ آرائی کی حکمت عملی اس سے قدرے مختلف بھی ہے اور کافی وسیع بھی۔ برہمنزم پر فکری وار کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ہم پست طبقات کے محتاج ہیں، یہ کام محتاجگی کی نفسیات کے ساتھ نہیں بل کہ قائدانہ خود داری کے ساتھ حکمت عملی کے طور پر کرنا ہے۔ دشمن نے سماج کی جن مختلف اکائیوں کو جمع کرکے اپنی صف بنائی ہے ان سب کو ایک ماننا اور اپنے ردعمل سے غیر شعوری طور پر اس صف بندی کو مضبوط کرنا جنگی حکمت عملی کے خلاف ہےاور دستور مدینہ کی رو سےسنت نبوی بھی یہی ہے کہ مدعو قوم کی مختلف اکائیوں کو ایک نہ مانا جائے، آپ ﷺ نے مختلف یہودی قبائل کو مختلف اکائی تسلیم کیا تھا، اسی لیے جب ایک قبیلہ سے معاہدہ ٹوٹا تو باقی قبائل سے معاہدہ باقی رکھا گیا، جبکہ سارے قبائل یہودی تھے، یہاں تو بھارت کے سارے سماج کا مذہب ایک نہیں ہے، پھر ہم انھیں ایک کیوں مانیں؟ ہمیں اپنا قلعہ مضبوط کرنا بھی ضروری ہے اور ظالم کے قلعہ میں سیندھ لگانا بھی ضروری ہے، ہم جس فکری جنگ سے دوچار ہیں اس میں دشمن کے قلعہ میں سیندھ اسی طرح لگے گی کہ ہم ظلم کے پالیسی ساز طبقے کو نشانہ بنائیں اور برہمنزم کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ ہم ہتھیار ڈالیں اور نہ اپنے رد عمل سے دشمن کے ہاتھ مضبوط کریں بل کہ تیسرا متبادل طریقۂ کار اختیار کریں، ظالم ہم سے جس محاذ پر لڑنا چاہتا ہے بلکہ جس محاذ پر ہمیں اور دیگر غلام قوموں کو لڑانا چاہتا ہے ہم اس محاذ سے ہٹ کر ایک نیا محاذ بنائیں اور جب بھی کوئی مسئلہ چھڑے تو ہم دشمن کو اپنے محاذ پر گھسیٹ کر لائیں، بلکہ مسئلہ چھڑنے کابھی انتظار نہ کریں، برہمنواد کے خلاف مسلسسل مسائل چھیڑتے رہیں اور اسے دفاعی موقف میں ڈھکیلتے رہیں، اس کے ٹھکانوں پر مسلسل فکری یلغار جاری رکھیں، یہ کام نظریاتی طور پر بھی ہو اور زمینی سطح پر بھی، سوشل میڈیا پر بھی ہو اور سماج کے اندر گھس کر بھی، انفرادی طور پر بھی ہو اور اجتماعی طور پر بھی، تقریروں کے ذریعہ بھی ہو اور تحریروں کے ذریعہ بھی،ٹریننگ کیمپ لگاکر بھی ہو اور فیلڈ ورک کرکے بھی، مسلم سماج میں بھی ہو اور غیر مسلم سماج میں بھی۔ یہ کوئی دانشمندی کی بات نہیں کہ برہمنواد ہمیں جس محاذ پر لا کر اپنی صف بندی مضبوط کرنا چاہتا ہے ہم اس محاذ پر جاکر دشمن کو غیر شعوری طور پر فائدہ پہنچائیں، اسی طرح یہ بھی کوئی حکمت عملی نہیں کہ اس فکری جنگ میں برہمنواد مسلسل یکطرفہ فکری یلغار کرتا رہے اور ہم ہتھیار ڈال کر بیٹھ جائیں۔ اور یہ بھی کوئی عقلمندی کی بات نہیں کہ جب دشمن ہمیں چھیڑے تبھی ہم انگڑائی لیں اور پھر ہمارے بحر کی موجوں میں اضطراب نہ رہے، بلکہ ضروری ہے کہ ہمارے دریا سے وہ موج تندجولاں مسلسل اٹھتی رہے جس سے برہمنوادی نہنگوں کےنشیمن تہہ وبالا ہوکر رہ جائیں۔
کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا
ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو

Comments are closed.