میرا جسم میری مرضی

کائنات یونس
مرد ذات سے ہر انسان ہی واقف ہوگا یہ کبھی باپ، بھائی، بیٹا، شوہر، خالو، چچا، تایا، ماموں، سسر اور بھی بہت سارے رشتوں سے منسلک ہوتا ہے۔ یہ اکیلا کوئی رشتہ نہیں نبھا رہا ہوتا اس کے ساتھ ہی عورت ذات بھی اسی کے جیسے کئی رشتوں سے وابستہ ہوتی ہے، اسلام نے مرد اور عورت کے الگ الگ حقوق بنائے ہیں، جن میں صاف کہا گیا ہے کہ مردوں کو ان کی عورتوں کا محافظ بنایا گیا ہے، مگر مجھے لگتا ہے کہ ایک مرد جو کسی کا بھائی، باپ، بیٹا یا شوہر ہوتا ہے وہ ایک عورت کا مضبوط سہارا تو ہوتا ہے ساتھ ہی ساتھ ایک عورت کی سب سے بڑی کمزوری بھی بن جاتا ہے۔
ہر معاشرے میں عورت اور مرد کے الگ الگ رہن سہن ، طور طریقے اور اصول و ضوابط ہیں۔ لیکن ہمارے بیچ ایک ایسا معاشرہ بھی ہے جہاں ایک طرف کا مرد اپنی عورت کا مضبوط سہارا ہے تو وہی کہیں ایک اور مرد اپنی عورت کی سب سے بڑی کمزوری ہے، میں جس معاشرے میں رہ رہی میرے مشاہدے کے مطابق وہ معاشرہ جس میں ایک مرد خواہ بیٹا، باپ، شوہر یا بھائی اپنی عورت یعنی بیوی، بیٹی، بہن یا ماں کے لیے کھڑا نہ ہو سکتا ہو وہاں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہی ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کو اپنے لیے خود بولنا پڑ جاتا ہے۔ وہاں اس معاشرے میں "میرا جسم میری مرضی” والی عورتوں کا ہی جنم ہو سکتا ہے، وہاں عورتوں کو مردوں کی برابری کی طلب محسوس ہونے لگتی ہے، وہاں ان کو احساس دلایا جاتا ہے کہ تم خود اپنے لیے جو کرنا ہے کرو تمہیں خود ہی اپنے لیے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، ہاں میں بلکل بھی اس بات کے حق میں نہیں ہوں کہ”میرا جسم میری مرضی ” پر ایسی عورتوں میں کچھ وہ عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں، جو خود بھی اس نعرے کے خلاف ہونے کے باوجود ان میں اپنے حق کے لیے کھڑی ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔
وہ معاشرہ جہاں ایک باپ اپنی بیٹی کے لیے کھڑا نہ ہو سکتا ہو، ایک شوہر اپنی بیوی کے لیے کھڑا نہ ہو پائے، ایک بھائی اپنی بہن کے لیے بولنے کی ہمت نہ کر سکتا ہو یا ایک بیٹا اپنی ماں کے لیے بولنے کی جرأت نہ کر سکتا ہو وہاں ایسی عورتوں کا جنم نہ چاہتے ہوئے بھی ہو جاتا ہے۔ وہاں ان عورتوں کو اپنی ذات کی ضروریات، تحفظ یا آبرو بچانے کے لیے خود کھڑے ہونا پڑتا ہے، وہاں تب مرد ذات ایسی عورتوں سے شکایت کے حقدار بالکل نہیں رہتے۔
ایک ایسا مرد میری نظر میں مرد کہلانے کے قابل ہی نہیں ہے جو اپنی عورتوں کے لیے کھڑا ہی نہ ہو سکتا ہو،میں نے یہ لائن بہت کڑوی کہہ دی، ہو سکتا ہے کسی کو بری بھی لگے لیکن میری نظر میں یہی حقیقت ہے۔ایک مرد جو اتنی طاقت رکھتا ہو کہ اس کے سامنے کوئی دوسرا مرد یا عورت اس کی بہن، بیٹی، ماں یا بیوی کے لیے کوئی غلط لفظ یا جملہ بولنے کی ہمت نہ رکھتا ہو وہی مرد ہے اور میں پورے یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتی ہوں کہ ایسے مرد کی عورت کبھی خود کے لیے خود کھڑی نہیں ہو گی، کبھی اپنے لیے خود بولنے کی جرأت نہیں کرے گی، بلکہ اس کو اس بات کا یقین ہوگا کہ میرا تحفظ کرنے کے لیے، میرے لیے کھڑا ہونے کو میرا شوہر، بیٹا، باپ یا بھائی موجود ہے، تو میرا نہیں خیال کہ وہاں عورت کو کبھی خود بولنے کی ضرورت بھی محسوس ہو گی۔
خدارا اپنی بیوی، بیٹی، بہن اور ماں کے لیے چاہے وہ ایک لمحے کو غلط اور گناہگار ہے بھی تب بھی دوسرے مرد یا دوسری عورت کے سامنے اس کے لیے ڈٹ جائیں۔ اس کی آبرو کا تحفظ کرنے کے لیے لڑنا پڑے تو لڑ جائیں۔نہیں تو وہ وقت دور نہیں کہ "میرا جسم میری مرضی” والی عورتوں میں آپ کی بہن، بیٹی، بیوی یا ماں بھی شامل ہو جائے۔
Comments are closed.