Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی صاحب مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔ جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

نماز چاشت کا وقت اور رکعت
سوال :- نماز چاشت کا وقت کیا ہے اور کتنی رکعت پڑھنی چاہئے ؟ (محمد حیدر، ملک پیٹ)
جواب :- طلوع آفتاب سے لے کر آفتاب کے نصف آسمان پر آنے تک دو نفل نمازیں ہیں ، پہلی نصف میں نماز اشراق اور دوسرے نصف میں صلاۃ الضحیٰ ، یعنی نماز چاشت ؛ اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ دن کا چوتھائی حصہ گذرنے کے بعد نماز چاشت پڑھنی چاہئے ، یہ چار رکعتیں ہیں ؛ البتہ اس سے زیادہ بھی پڑھی جاسکتی ہے : وندب أربع فصاعدا فی الضحیٰ من بعد الطلوع إلی الزوال ووقتھا المختار بعد ربع النہار( درمختار : ۲؍۴۶۵)

خنزیر کے بال سے لیدر مصنوعات کی سلائی
سوال:- ہم لوگوں کو لیدر کی چیزیں بنانے کا آرڈر دیا جاتا ہے اور بعض دفعہ فرمائش کی جاتی ہے کہ اس کی سلائی خنزیر کے بال سے ہو ؛ کیوںکہ خنزیر کا بال نرم اور کلر کرنے کے بعد خوبصورت ہو جاتا ہے ، تو کیا ہمارے لئے اس فرمائش کو پورا کرنا جائز ہے ؟ (محمد اُویس، حیات نگر)
جواب :- خنزیر اپنے تمام اجزاء کے ساتھ ناپاک ہے ؛ اسی لئے اگر اس کے چمڑے کو دباغت دے دی جائے ، یا اس کو شرعی اُصولوں کے مطابق ذبح کردیا جائے ، تب بھی اس کے اجزاء پاک نہیں ہوتے ہیں ؛ البتہ چوںکہ اس زمانے میں چمڑوں کی سلائی کے لئے غالباً خنزیر کے بال کے علاوہ کوئی اور چیز دستیاب نہیں تھی ، اسی لئے امام محمدؒ کے نزدیک اس کے ذریعہ سلائی کرنے کی گنجائش ہے : جلد الخنزیر لا یطھر بالدباغۃ ولا بالذکاۃ … کذلک شعرہ خلافا لمحمد فی الشعر ولا باس بالانتفاع بہ وترکہ احوط ( فتاویٰ سراجیہ : ۴۱) البتہ موجودہ دور میں چوںکہ ایسے بالوں کا متبادل موجود ہے ، اور پلاسٹک کے تار کے ذریعہ یہ ضرورت پوری ہوجاتی ہے ، اس لئے موجودہ دور میں اس مقصد کے لئے خنزیر کا بال استعمال کرنا ضروری نہیں ہے ؛ لہٰذا یہ صورت جائز نہیں ہوگی ، مشہور فقیہ علامہ شامیؒ نے یہی لکھا ہے : وکان الانتفاع بشعر الخنزیر … أما فی زماننا فلا یجوز استعمالہ لعدم الحاجۃ إلیہ للاستغناء عنہ وبالمخارزوالإبل (ردالمحتار : ۵؍۷۳) اس لئے آپ ایسے آرڈر سے معذرت کردیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں ، انشاء اللہ آپ کی روزی میں برکت ہوگی ۔

توتلے شخص کی امامت
سوال:- جو شخص توتلا ہو اور قرآن مجید کے حروف کو اچھی طرح ادا نہیں کرسکتا ہو تو کیا اس کی امامت میں نماز پڑھی جاسکتی ہے ، ہمارے یہاں ایک حافظ صاحب ہیں جو یوں تو مدرسہ کے بچوں کی نگرانی کرتے ہیں ؛ لیکن کبھی کبھی نماز بھی پڑھادیتے ہیں ، نماز میں اکثر حروف کی ادائیگی نہیں ہوپاتی ۔ ( محمد اسماعیل، سعید آباد)
جواب :- جو شخص لکنت کا مریض ہو اور کوشش کے باوجود وہ الفاظ کو صحیح طورپر ادا نہیں کرسکتا ہوتو اگر وہ تنہا نماز پڑھے اور خود قرأت وغیرہ کرے تو اس کی نماز درست ہوجائے گی ؛ لیکن اس کے لئے ایسے لوگوں کی امامت کرنا درست نہیں جو توتلے نہیں ہیں اور حروف کو صحیح طورپر ادا کرسکتے ہیں ۔( دیکھئے : فتاویٰ ہندیہ : ۱؍۶۸ ، مراقی الفلاح : ۱۵۷)

جب بہت سی قَسمیں جمع ہوجائیں
سوال:- پہلے میرا علماء یا دینی کاموں سے کوئی تعلق نہیں تھا ، اس زمانہ میں بہت سی دفعہ میں قسمیں کھا لیتا تھا اور اسے پورا نہیں کرتا تھا ، اب اللہ کا شکر ہے کہ علماء و مشائخ کی صحبت حاصل ہوئی ہے اورگذشتہ زمانے کے غلطیوں پر پچھتاوا ہورہا ہے ، ایسی صورت میں ہمارے لئے کیا راستہ ہے ؟ میں نے کتنی قسمیں کھالی ہیں ، یہ بھی مجھے یاد نہیں ہے ۔ ( محمد ریحان، کھمم)
جواب:- جب قسمیں زیادہ ہوجائیں تو امام محمدؒ کے نزدیک ایک کفارہ کافی ہوجاتا ہے اور بعد کے فقہاء نے آپ جیسے لوگوں کی مجبوری کو دیکھتے ہوئے اس رائے پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے : کفارات الأیمان إذا کثرت تداخلت ، ویخرج بالکفارۃ الواحدۃ عن عھدۃ الجمیع ، وقال شہاب الأئمۃ : ھذا قول محمد قال صاحب الأصل : ھو المختار عندی مقدسی ، مثلہ فی القھستانی عن المنیہ ( ردالمحتار : ۳؍۷۱۴) البتہ جو غلطی ہوچکی ہے ، اس سے توبہ بھی کریں اور آئندہ معمولی معمولی باتوں پر قسمیں کھانے اور جس بات کی قسم کھائی ہے ، اس کو بلا ضرورت پوری نہ کرنے سے احتراز کریں ۔

آنکھ کے آپریشن کے بعد اشارہ سے نماز کی ادائیگی
سوال:- میری والدہ کے آنکھ کا آپریشن ہوا ، ڈاکٹر نے ان کو جھکنے ، حرکت کرنے سے منع کیا ہے ؛ بلکہ لیٹے رہنے کا مشورہ دیا ہے ، ایسی صورت میں میری والدہ کے لئے نماز پڑھنے کا کیا طریقہ ہوگا؟ ( امداد اللہ، کریم نگر)
جواب:- شریعت میں عذر کی رعایت کی گئی ہے ، جو شخص کھڑا ہوسکتا ہو ، اس پر قیام ضروری ہے ، جو کھڑا نہ ہوسکتا ہو ، وہ بیٹھ کر نماز ادا کرسکتا ہے ، جو بیٹھنے پر بھی قادر نہ ہو ، اس کے لئے لیٹنے کی گنجائش ہے ، ایسی صورت میں اشارہ سے نماز پڑھے گا اور چہرہ کو حرکت دینے سے بچائے گا : أمرہ الطبیب باستلقاء لبزغ الماء من عینہٖ صلی بالایماء لأن حرمۃ الاعضاء کحرمۃ النفس ( ردالمحتار : ۲؍۵۷۴) ؛ اس لئے آپ اپنی والدہ سے فرمائیں کہ وہ لیٹے لیٹے سر کو حرکت دیئے بغیر ہاتھ کے اشارہ سے نماز پڑھیں۔

اگر میاں بیوی کے درمیان گھر کے سامان کے بارے میں اختلاف ہوجائے؟
سوال:- میرے ایک دوست اور ان کی بیوی کے درمیان اس قدر اختلاف بڑھ گیا کہ طلاق کی نوبت آگئی ، طلاق کے بعد گھر کے اسباب و سامان کے بارے میں اختلاف پیدا ہوا ، شوہر کا کہنا ہے کہ یہ تمام سامان ان کا ہے ، بیوی کا دعویٰ ہے کہ یہ اس کا سامان ہے ، ایسی صورت میں گھر کے اشیاء کا مالک کس کو سمجھا جائے گا ؟ ( سالم فاروق، ملے پلی)
جواب:- اگر گواہان و ثبوت موجود ہوں تو ثبوت کے مطابق فیصلہ ہوگا ، اگر ثبوت مہیا نہ ہوتو جو سامان مردوں کے استعمال کے ہیں ، وہ مرد کا سمجھا جائے گا اور جو سامان عورت کے استعمال کے ہوں ، وہ بیوی کی ملکیت ہوگی ، اور جو میاں بیوی کے مشترکہ استعمال کی ہو ، وہ بھی مرد ہی کی سمجھی جائے گی : إذا اختلف الزوجان فی متاع البیت حال قیام النکاح ، أو بعد الفرقۃ بالطلاق ، أو ما أشبہہ قال ابوحنیفۃ ومحمد : ما یصلح للرجال فھو للرجل … وما یصلح للنساء فھو للمرأۃ … وما یصلح لھما فھو للرجال ( محیط برہانی : ۴؍۲۲۶) البتہ مشترکہ چیزوں کو شوہر کا اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ عام طورپر گھر مرد کی کمائی سے چلتا ہے اور اسی کے پیسے سے گھر کے لئے مطلوبہ اشیاء خرید کی جاتی ہیں ؛ لیکن اگر کسی گھر میں بیوی ہی ملازمت کرتی ہو ، شوہر باضابطہ ملازت نہ کرتا ہو تو ایس چیزیں بیوی کی ملکیت سمجھیں جائیں گی ، اوراگر دونوں ملازمت کرتے ہوں اور دونوں مل کر گھر چلاتے ہوں تو پھر مشترکہ سامان بھی مشترک ہی سمجھی جائے گی ۔ واللہ اعلم

بلا اجازت ، بیٹے کے پیسے لینا
سوال:- ہمارے ایک رشتہ دار بڑھاپے کی عمر میں ہیں ، ان کا لڑکا بیرون ملک ہے اور اس کی بہت اچھی تنخواہ ہے ؛ لیکن باپ کا خیال نہیں کرتا ، بیٹے کے پیسے بینک میں جمع ہیں اور اے ٹی ایم کارڈ اس کے والد کے پاس ہے ، کیا وہ اپنی ضرورت کے لئے بلا اجازت اپنے بیٹے کی رقم میں سے لے سکتے ہیں ؟ (حامد سعید،سکندرآباد )
جواب:- یہ لڑکے کے لئے بے حد محرومی کی بات ہے کہ جس بوڑھے باپ نے پرورش کرکے اسے کمانے کے لائق بنایا ، آج اسی باپ کو محروم رکھا جائے ، یہ دنیا و آخرت میں سخت نقصان کی بات ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اور تمہارا مال تمہارے باپ کا ہے : ’’انت ومالک لابیک‘‘ (ابن ماجہ ، باب ماللرجل من مال ولدہ : ۲۲۹۱) اس لئے باپ اپنی ضرورت کے بقدر پیسے بیٹے کی اجازت کے بغیر بھی اس کے مال میں سے لے سکتا ہے ، فقہاء نے بھی اس کی صراحت کی ہے : للفقیر أن یسرق من ابنہ الموسر ما یکفیہ إن أبی ولا قاضی ثمۃ ۔ (الدرالمختار مع الرد : ۵؍۳۵۴)

والدین کے نفقہ میں تمام ضروریات شامل ہیں
سوال:- فقہاء نے بیوی کے حقوق پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ، کھانے ، پینے ، لباس اور خادم وغیرہ کا ذکر کیا ہے ؛ لیکن کیا والدین کی بھی یہ تمام ضروریات اولاد کے ذمہ واجب ہوں گی ، عام طورپر اس کی تفصیل نہیں ملتی ؛ حالاںکہ بعض دفعہ والدین بیوی سے بھی زیادہ محتاج ہوتے ہیں ، براہ کرم اس کی وضاحت فرمائیے ؟ ( محمد بلال، حافظ بابا نگر)
جواب:- جیسے بیوی کی کفالت شوہر پر واجب ہے ، اسی طرح اگر والدین ضرورت مند ہوں تو ان کی کفالت بھی اولاد پر واجب ہے ، اور اگر ضرورت مند نہ ہوں تب بھی مستحب طریقہ یہی ہے کہ والدین کی خدمت کرنے کی کوشش کی جائے ، اولاد کے لئے اس سے بڑھ کر سعادت و خوش نصیبی کی بات نہیں ہوسکتی ، فقہاء نے ضروریات کی کفالت کے لئے جو لفظ استعمال کیا ہے ، وہ ہے : نفقہ ، اور نفقہ میں تمام ضروریات زندگی شامل ہیں : کھانا ، پینا ، لباس ، علاج ، رہائش اور خادم ؛ بلکہ خادم کی ضرورت اولاد سے زیادہ والدین کو پڑتی ہے ، جب فقہاء نے والدین کا نفقہ اولاد پر واجب قرار دیا ہے تو اس میں خود بخود یہ ساری چیزیں شامل ہیں اور فقہاء کے یہاں اس کی صراحت بھی موجود ہے : جمیع ما وجب للمرأۃ وجب للأب والام علی الولد من طعام وشراب وکسوۃ وسکنی حتی الخادم ۔ (ردالمحتار: ۵؍۳۵۵)
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.