انجمن بزمِ ابو المحاسن سجادؒ طلباءبہار، جھار کھنڈ واڈیشہ جامعہ اشاعت العلوم، اکل کوا مہاراشٹرا کے اختتامی پروگرام میں شرکت

رپورتاژ:مولانا عبد القیوم قاسمی
مدیرماہنامہ اذان ہند دارالعلوم محمودیہ اون سورت گجرات
۱۵؍رجب المرجب ۱۴۴۳ھ مطابق۱۷؍ فروری ۲۰۲۲ء کو حضرت اقدس مفتی انعام الحق صاحب قاسمی نقشبندی دامت برکاتہم [استاذِ حدیث دارالعلوم عالی پور]ومولانا انور صاحب قاسمی [خلیفہ حضرت تاج العلماء مولانا ہاشم صاحب جوگواڑی[ عمت فیوضہم العالیہ]استاذِ حدیث دارالعلوم زکریا جوگواڑ اور بندہ گناہ گار عبد القیوم قاسمی [خادم دارالعلوم محمودیہ ومدیر اذانِ ہند اون،سورت گجرات ]۔جو اس اجلاس کے مدعوبین خصوصی تھے،مفتی صاحب اپنی گاڑی ارٹیگا[جس پر براق کندہ ہے]تقریباً ڈھائی بجے اپنے ڈرائیور اور مولانا انورصاحب کے ہمراہ عالی پور سے نکلے میں پلسانہ چوکڑی پر پہلے سے موجود تھا،۳؍ بجے ہم بھی ان کے ساتھ براق پر سوار ہوگئے،اور گاڑی بہت ہی تیزی سے روانہ ہوگئی،اور قبیلِ مغرب سلام ہاسپیٹل کی مسجد میں پہنچی ،اور عصر کی نماز ادا کی وہاں استقبال میں جامعہ کے مؤقر اساتذۂ کرام ۔حضرت مولانا مرشد صاحب جو جامعہ کے قدیم اور فعال اساتذہ میں ہیں،اور اس بزمِ ابو المحاسن سجاد کے نگران اور استاذِ حدیث ہیںبڑے مرنجاں مرنج اور ملنسار مخلص اور متدین ومتبرع عالم دین ہیں،ان ہی کی دعوت پر اور طلباء عزیز کی خواہش کے احترام میں یہ سفر ممکن ہوا تھا،اور مولانا عالم گیر قاسمی کھگڑیاوی جن کی پہچان ہی حسین مسکراہٹ ہے،مولانا کلاتھ اسٹور کے نام سے بڑی اور نندربار ضلع کے ہولسیلر ہیں،انھیں کے یہاں پرتکلف ناشتے کی دعوت رات کا کھانا اور شاندار دومنزلہ مکان جس میں انھوں نے زبردست مہمان خانہ بنوایا ہے جس کی نیت زمانۂ تدریس سے تھی کہ اگر اللہ نے ہمیں عمدہ مکان سے نوازا تو مہمانوں کے آرام کے لئے عمدہ اور آرام دہ مہمان خانہ ضرور بنوائیں گے سو اللہ نے مہمانوں کے آرام کی نیت کی بدولت ان کے بال بچوں کے لئے بھی عمدہ اور اعلیٰ انتظام فرما دیا فللہ الحمد،وہ بھی استقبال کے لئے موجود تھے،قاری فیاض جو حسین و جمیل مکھڑا اور حضرت مولانا نظام الدین صاحب قاسمی جو اپنے وجود سے بھی زیادہ وزنی کتبِ کثیرہ کے مصنف ہیں،اور قاری عبد الستار صاحب بھاگلپوری جنھوں نے ایسا مژدہ سنایا کہ جامعہ جاتے ہی سفر کا سب تکان دور ہونے کے علاوہ پورے وجود میں خوشی اور سرشاری کا لہر دوڑ گیا ،اور آپ سنیں گے تو یقینا آپ بھی مست ہوجائیں گے،اور پکار اٹھیں گے یہ صرف قرآن کا معجزہ اور قاری صاحب کے رزقِ حلال کی برکت ہے کہ ان کے فرزندِ ارجمند نے جامعہ کے دورۂ حدیث میں شریک رہتے ہوئے صرف ۵۴؍ دن میں قرآن پاک کو حفظ کر کے ایک شاندار رکارڈ قائم کیا ہے،اور ساتھ ہی دورۂ حدیث کے ایک دوسرے طالبِ علم نے ۶۴؍ دن میں تکمیل حفظ کر کے خادم القرآن والمساجد صدیق ثانی مولانا غلام محمد وستانوی دامت برکاتہم وعمت فیوضہم العالیہ کے خادم قرآن ہونے کا مہر ثب کردیا ہے،اور جب ہم سب حضرت دامت برکاتہم کی خدمت میں ان کے آستانے پرشرف ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو پتہ چلا حضرت دامت برکاتہم کو قرآن مقدس سے کتنا لگاؤ ہے، حضرت مفتی انعام صاحب کے طرف متوجہ ہوکر فرمایا آپ اپنے بیان میں علماء اور حفاظ اور طلباء کو خصوصاً قرآن مقدس کی تلاوت کی تلقین کیجئے،آج حفظ کے اساتذہ حفظ تو پڑھاتے ہیں،مگر خود قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرتے،جبکہ صاحب قرآن ہمارے پیارے نبی محمد عربی ﷺ کو قرآن کریم کی۲۱؍اکیسوی پارے کی پہلی آیت میں، اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے’’اتل ما احی الیک من الکتاب واقم الصلوٰۃ‘‘ کہ جو کتاب آپ پر نازل کی گئی ہے،اس کی آپ تلاوت فرمائیے،اور نماز قائم فرمائیے،دیکھیں !اس آیت میںاللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دو چیزکا حکم فرمایا ہے نمبر ایک تلاوتِ قرآن کا نمبر دو قیامِ صلوٰۃ کا آج امت ان دونوں میں سستی و کاہلی کا مظاہرہ کررہی ہے،اور علماء و حفاظ بھی تلاوتِ کلام اللہ میں بہت ہی کاہلی سے کام لے رہے ہیں،جو بالکل مناسب نہیں ہے، اور فرمایا ہمارے یہاں ۴؍ سو فیملی کواٹر س ہے میں نے ہر استاذ سے کہا ہے کہ کم سے کم گھر میں ایک پارہ قرآن مجید کی تلاوت ہونی چاہیئے بیوی بھی پڑھے بچی بھی پڑھے اور بچے بھی اور اس مبارک و مسعود ملاقات کا اختتام کھجور اور زمزم نوشی پر ہوا،زمزم پیتے ہوئے ہم نے اس مردِ دلیر کے لئے دعا کی کہ اللہ ان کی حیات مستعار کو دراز سے دراز تر فرما دیجئے جنھوں نے ایک علمی دنیا آباد کردیا ہے اور اس دھرتی پر اتنا بڑا نظام قائم کر کے ثابت کردیا ہے کہ روزی رساں صرف خدا کی ذات ہے ،ورنہ اس نحیف و نذار جو دوسروں کے سہارے اٹھنے اور بیٹھنے لگے ہیں[گر چہ پر عزم ہیں]اتنے لوگوں کی کفالت خدا تعالیٰ کے سوا کون کرسکتا ہے۔
بعد مغرب پروگرام شروع ہوچکا تھا،۲۰؍طلباء انجمن بزمِ ابو المحاسن سجاد ؒ [جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا]جو بہترین قرآت عمدہ نعت شریف دلپزیر تقریریں،اور دلچسپ مکالمہ کے ساتھ شریکِ بزم تھے،پروگرام کی ایک خوبی یہ تھی کہ حالاتِ حاضرہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے،آج کے سلگتے مسائل کو ہی موضوع بنایا گیا تھا،جس میں پردہ[ حجاب ] مدارس دہشت گردی کے اڈے جیسے مضامین پر خصوصاً تقریریں،نظم اور مکالمہ تھا،اورتوحید و سیرت کے موضوع پر بھی بہت ہی عمدہ ایک مقرر سے بڑھ دوسرا مقرر تھا،پروگرام کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ آناؤسر بڑا حاضر دماغ طباع اورذہن رساں تھا۔ [گر چہ کچھ اشعار کبھی کبھی موضوع سے ہٹ کر عرض کردیا جاتاتھا ]مگر منجملہ انھوں نے جو فی البدییہ اشعار مقرریں کو دعوت سخن دینے ،یا نعت خواں کو بلانے یا اپنے بڑے حضرت گرامی قدر حضرت اقدس مولانا غلام محمد وستانوی صاحب [متعنا اللہ بطولِ حیاتہ المبارکہ]جو آج کے اس عظیم اجلاس کے صدرِ محترم تھے،ان کی شفقت کو بٹورنے اور پند و نصائح کے خزینہ وصولنے کے لئے مدعو کرنا ہو، یا حضرت مفتی انعام صاحب قاسمی نقشبندی دامت برکاتہم کی خدمت میں ان اشعار کونظر کرنا ہو،بڑا البیلاانداز تھابلکہ قابلِ تعریف وقابل مبارکباد بلکہ یوں کہا جائے قابلِ انعام تھا،بڑے حضرت دامت برکاتہم نے شرکاء انجمن اور ان کے نگراں واساتذہ کرام کو خوب سراہا،اورخصوصاً مکالمہ جو دہشت گردی،اور مسلمانانِ ہند کا جنگِ آزادی میں قربانی کو طلباء نے تمثیلی پیش کیا اس پر بہت ہی شاداں وفرحاں ہوئے،اور دیگر انجمن کے علاوہ پانچ ہزار اور زیادہ انعام سے نوازافجزاہم اللہ احسن الجزاء۔
پھر اس مجلس کے مہمان خصوصی حضرت مفتی انعام الحق قاسمی صاحب دامت برکاتہم کو دعوتِ سخن دی گئی،جو مرتب کلام اورموضوع سے متعلق بیان کرنے میں شروع سے مشہور ہیں،چونکہ مفتی صاحب کے ساتھ اس بندۂ ناکارہ کو بھی تدریس کا موقع دارالعلوم ہدایت الاسلام، عالی پور میں میسرہوا ہے،اور ان کا برمحل و مقتضائے حال کے مطابق کلام بارہا سنا ہے، انھوں نے حمد و صلوۃ کے بعد قرآن مقدس کی آیت۔ الرحمٰن علم القرآن خلق الانسان علمہ البیان‘‘۔ تلاوت کی اور فرمایا!ہم سب کے نگاہوں کی مرکز عالمی شہرت یافتہ عرب وعجم کی محبوب شخصیت حضرت اقدس مولانا غلام محمد وستانوی حفظہ اللہ ورعاہ جنکی نگاہِ شفقت نے ہمیں آپ کے درمیان کچھ کہنے کا موقع نصیب کیا۔
یہ عظیم المرتبت ادارہ [جامعہ اشاعت العلوم اکل کنواں]اور بزمِ ابو المحاسن کے اختتامی پروگرام میں شرکت ہمارے لئے سعادت کی بات ہے ،اور طلباء ِکرام نے جس انداز میں پروگرام پیش کیا ،چاہے بیان کی عمدگی ہو ں، مکالمے کی شیفتگی ہوں، نعت و نطم کی خوبصورتی ہوں،یا اناؤسر کی جاذبیت ہوں، ہر حصہ اپنے اندر محنت و مجاہدہ کا عکاسی کر رہا تھا ،حضرت اقدس دامت برکاتہم نے جن کلمات سے آپ لوگوں کی ہمت افزائی کی ہے ہم چھوٹوں کو زیب نہیں دیتا کہ کچھ حاشیہ آرائی کریں ۔
عزیز طلباء اللہ تعالیٰ نے انسانی دماغ کو کمالات کا دفینہ اور خزینہ بنایا ہے،انسانی دماغ میں علمی کمالات ہو فکری کمالات ہو چاہے جس طرح کے کمالات ہو ان کمالات کے اظہار کے لئے اور ان تمام تر کمالات کو سامنے لانے کے لئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کو دو طاقت و قوت عطا فرمائی ہے،ایک طاقت کا نام زبانی طاقت ہے اور دوسری طاقت کا نام قلمی طاقت ہے،رب، کریم نے انسانی کمالات کے اظہار کے لئے زبان بھی عطا کی ہے اور قلم بھی عطا کی ہے۔
جب تک یہ دوچیزین نہ ہو انسان کے بہت سے کمالات انسان کے ذہن و دماگ میں ہی رہ جائیں گے،اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انسانی کمالات کا جو مرکز بنایا جس کو ذہن کہا جاتا ہے،نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا لکل شی معدن کمعادن الذہب والفضہ کہ جس طرح زمین میں بہت سارے خزانے ہوتے ہیں،زمین اپنے اندر بہت سارے خزانے کو چھپائے ہوئے ہوتی ہے،چاہے وہ خزانہ سونے کی شکل میں ہو چاہے چاندی لوہے یا تانبے کی شکل میں ،جس طرح وہ خزانے زمین میں پوشیدہ ہوتی ہے،اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسانی ذہن و دماغ میںبہت سارے کمالات بہت ساری خوبیان بہت ساری صفات بہت ساری اچھائیاں زمین کی طرح ذہن و دماغ میں پوشیدہ اور چھپا کر رکھا ہے،اور وہ اس کا دفینہ و خزینہ ہے۔
اگر ہم آپ محنت و مجاہدہ مشقت طلب اور سعی پیہم کے ذریعے اپنی ان صلاحیتوں کو اجاگر کریں ،ان صلاحیتوں کو نکھارنے کی کوشش کریں،تو وہ صلاحیتیں وہ استعداد جب وہ ہماری ذہن و دماغ میں ابھرتی ہے اور استعداد و صلاحیت کا سر چشمہ اور استعداد کا سوتا اگر ہمارے ذہن و دماغ میں ابلتا ہے،تو اس ابلتے ہوئے چشمے اور ابلتے ہوئے سوتے کے اظہار کے لئے رب سبحانۂ وتعالیٰ نے ہمیں اور آپ کو زبان اور قلم عطا کیا ہے،ان ہی دوچیزوں میں جلا پیدا کرنا ہو ،نکھارنا ہوتو اسی نکھارنے کی جگہ کو انجمن کہا جاتا ہے۔
میرے عزیز طلباء زبان میں نکھار کا آنا زبان میں عمدگی کا آنا سلاست کا آنا شیفتگی کا آنا جاذبیت کا آنا کشش کا آنا یہ مطلوب ہے،پسندیدہ ہے،اگر یہ مطلوب نہ ہوتا پسندیدہ نہ ہوتا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام ’’رب الشرح لی صدری ویسرلی امری‘‘یہ دعا نہ کئے ہوتے ،اللہ رب العزت ہمارے لئے آ سانیاں کردیجئے اور ہمارے سینے میںانشراح کی کیفیت پیدا کر دیجئے ہمارے دل میں شرحِ صدر عطا کیجئے ،اور آسان بھی بنادیجئے،اور ہماری زبان کو کھول دیجئے تاکہ زبان میںوہ نکھارپیدا ہو ،وہ سلاست پیدا ہو وہ فصاحت پیدا ہو بولنے کی وہ جاذبیت پیدا ہو بولنے میں وہ کشش پیدا ہو ،تاکہ دولتِ دین کو لیکر اور علم دین کو لیکر اگر میں فرعون کے محل میں جاؤں تو میری زبان میں لکنت نہ ہو، میری زبان لڑکھڑانہ پائے، بلکہ پوری فصاحت بلاغت وضاحت کے ساتھ بصارت کے ساتھ پوری سلاست کے ساتھ پوری عمدگی اور بہتری کے ساتھ میں دین کو بیان کرسکوں ،اور حضرت موسیٰ ؑ کی یہ دعا یہ تمنا یہ تڑپ اللہ کو اتنی پسند آئی ہے اللہ رب العزت نے اس دعا کو قرآن پاک میں نقل کیا ہے،اور نقل کا منشاء یہ ہے کہ اے میرے بندو! اگر تم اپنے دماغ میں علمی خزانہ رکھتے ہو فکری خزانہ رکھتے ہو اور اپنے ذھن میں کمالات رکھتے ہو اور تم زندہ دل رہنا چاہتے ہو توتم بھی اس بات کی کوشش کرو کہ تمہارے زبان میں بھی سلاست اور عمدگی ہو۔
میرے عزیز طلباء زبان کی عمدگی کے ساتھ اس زبان کے سلاست کے ساتھ اس زبان کی خوبصورتی کے ساتھ کسی بھی خطیب کے لئے کسی بھی مقرر کے لئے کسی بھی واعظ کے لئے،امت کے لئے درد مند دل رکھنے والوں کے لئے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔
جب تک علم کے ساتھ ساتھ تہذیب کے ساتھ ساتھ کمالات کے ساتھ ساتھ اپ کے اندر کے کمالات اور خوبیوں کے ساتھ ساتھ اگر آپ میں تین باتیں نہیں ہے تو یاد رکھیں !آپ کامیاب مقرر بہترین خطیب شیریں بیان واعظ نہیں بن سکتے ہیں جب تک آپ میں تین باتیں نہ ہو۔
علامہ سید سلیمان ندوی ؒ نے کسی موقع پر ارشاد فرمایاتھا!کہ خطابت کے لئے اور شیریں بیان تقریر اور وعظ کے موثٔر ہونے کے لئے ہمیں اس بات کا خیال رکھنا پڑے گا کہ ہمارے سامعین میں ہر طرح کے لوگ ہوسکتے ہیں،اپنے بھی دوسرے بھی ہوسکتے ہیں،ہر سطح کے لوگ ہوسکتے ہیں،لہذا ہم وہ زبان استعمال کریں جو زبان مخاطب اور سامعین کے سمجھ کے مطابق ہو، ان کی سمجھ سے بالاتر نہ ہوبلکہ آپ کی زبان زمانے کے حالات لوگوں کے سوچ و فکر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے استعمال کیا جائے،تو یہ زبان زبانِ ہوشمند کھلائے گی،اور مخاطب کو اس کا فائدۂ تامہ حاصل ہوگا۔
اور اس کے ساتھ دوسری چیز فکرِ ارجمند کہ ،ایسی فکر کہ زبانہ کس بات کا متقاضی ہے لوگ آپ سے کیا چاہتے ہیں ماحول آپ سے کس بات کا مطالبہ کر رہاہے ان چیزوں کے لئے ضروری ہے کہ ہماری فکر فکرِ ارجمند ہو۔
میں مبارکباد دیتا ہوں آپ کے انجمن کی انتظامیہ کو کہ بڑے حضر ت دامت برکاتہم کی برکت سے اور آپ کے ذہن رساں نگران کے بدولت آپ نے جو پروگرام پیش کیا الحمد للہ آج جو ہمارے ملک میں مسائل سلگ رہے ہیں اور جس طرح کے مسائل اچھل رہے ہیںان ہی اچھلتے اور سلگتے ہوئے مضامین کو آپ نے اپنا محور بنایا ،چاہے وہ حجاب کا مسئلہ ہو، مسلمانوں کی قربانیوں کا مسئلہ ہو آپ نے ایسے ہی مسائل پر اپنا پروگرام پیش کا جس کا آج کا زمانہ تقاضا کر رہاہے،ہماری معلومات بطورِ خاص ان مضامین پر ہونا چاہئے چنانچہ آپ مکالمہ دیکھیں نظم دیکھیں حجاب کی باتوں کو دیکھیں،شرم و حیاء کی تقریر دیکھیں یہ تمام چیزیں ہمیں بتا رہی ہے کہ آپ کو ایسے اساتذۃ میسر ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے فکرِ ارجمند کا حامل بنایا ہے،جنھوں نے آپ کو ایسے مضامین ہاتھوں میں تھمایا ایسے مضامین کی طرف آپ کی رہنمائی کی جو زمانے اور حالات کے تقاضے کے مطابق ہے۔
تو زبانِ ہوشمند بھی ہونا چاہئے اور فکرِ ارجمند بھی ہونا چاہئے،اور اس کے ساتھ ساتھ میرے عزیز طلباء ؎
نقش ہے سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر۔
تیسری چیز خطیب کے اندر واعظ کے اندر وہ دلِ درد مند رکھتا ہو وہ صرف الفاظ کے نشیب و فراز میں گم نہ ہوجائے،وہ اونچے اونچے الفاظ کے تلاش میں کہیں اور نہ چلا جائے،بلکہ امت کو جس مضمون کی ضرورت ہے، جس مسئلے کی رہنمائی کی ضرورت ہے،ان کی اصلاح کے لئے جن باتوں کی ضرورت ہے،وہ دردِ دل کے ساتھ ان مضامین کا انتخاب کرے اور دردِ دل کے ساتھ اس مضمون کی تیاری کرے اور دردِ دل کے ساتھ اس مضمون کو لوگوں کے سامنے رکھے،ورنہ ایسا ہوگا کہ صرف الفاظ کے سمندرمیں غوطہ زن ہوگا۔
کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے ؎
الفاظ و معانی میں نہیں کچھ تفاوت لیکن
ملا کی اذا ں اور مجاہد کی اذاں اور
ملا بھی اذان دیتا ہے، اور مجاہد بھی اذان دیتا ہے،مجاہد جب اذان دیتا ہے تو ان کے کلمات دل کی گہرائیوں سے نکلتا ہے،تڑپتے ہوئے دلوں سے نکلتا ہے،لرزتے ہوئے دلوں سے نکلتا ہے ،محبت کی آواز میں نکلتا ہے،اس کی آواز ٹکراتی ہے پہاڑوں سے،اس کی آواز ٹکراتی ہے دیواروں سے،اس کی آواز زٹکراتی ہے لوگوں کے دلوں سے،تو انسان کے اندر ایمانی حرارت ایمانی غیرت جاگ جاتی ہے،پھر انسان اس کی آواز پر لبیک کہتا ہے،اس سے پتہ چلا جہاں ہمیں درسی کتابوںمیں محنت کرنی ہے ،تقریر وتحریر پر محنت کرنی ہے،ساتھ ساتھ اپنے اندر دردِ دل کی بھی کیفیت پیدا کرنی ہے،ورنہ یاد رکھیں!امت کے لئے آپ کے اندر دردِ دل نہیںہے،سوز دل نہیں ہے دل کے اندر کوئی چوٹ نہیںہے دل کے اندرخوف و خشیت نہیں ہے تو یاد رکھیں! وہ بیان صرف بیان کے حد تو ہوسکتا ہے،وہ وعظ صرف وعظ تو ہوسکتا ہے،لیکن وہ دلوں کے دروازے اور دلوں کے پردے کو ہمارا بیان نہیں چھو سکتا،ان ساری محنتوں اور ان ساری مجاہدوں اور قربانیوں کے ساتھ ساتھ اگر آپ چاہتے ہیں کہ جامعہ کے نورانی وعرفانی ماحول سے نکل کر آپ بہار جائیں،جھارکھنڈ اڈیشہ اور آسام جائیں،گجرات مہاراشٹرا اور کرناٹک جائیں،آپ کہیں بھی جائیں،اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی صلاحیتیں امت کے دلوں تک پہونچے آپ کی صلاحیتوں سے امت کا دل تڑپنے لگے ،اور لوگوں کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے،اور امت اپنے مستقبل کو بدلنے کا فیصلہ کر لے تو میرے عزیزو آپ کو ایک تیسری دولت حاصل کرنی پڑے گی،جس کو کہا جاتا ہے سوزِ دل،دردِ دل ؎
قریب جلتے ہوئے دل سے اپنا دل کردے
یہ آگ لگتی نہیں لگائی جاتی ہے
میں طلبائِ عزیز سے کہنا چاہتا ہوں اگر دل میں آپ اس درد کی آگ لینا چاہتے ہیں،اس سوز وساز کی چنگاری کو آپ لینا چاہتے ہیں تو
آپ کو اپنے طور پر اللہ سے رجوع ہونا پڑے گا،[بڑے حضرت صدیقِ ثانی دامت برکاتہم] کا دامن مضبوطی سے تھامنا پڑے گا،اپنی آنکھوں کو بچانا بھی پڑے گا،اپنی زبان کی حفاظت بھی کرنی پڑے گی۔
اسی بنیاد پر بعض حضرات نے لکھا ہے کہ طالبِ علم اگر چاہتا ہے کہ وہ خطابت کے میدان میں پند و نصائح تصنیف و تالیف اور تقریر و تحریر کے میدان میں،میں آگے جاؤں تو طالبِ علم کے اندر چار چیزیں مزید ہونا ضروری ہے۔
[۱] طلبِ صادق،[۲]سعی پیہم[۳]آہ و زاری [۴] گناہوں سے اجتناب
اگر ہم نے ان چار باتوں پر مزید عمل کر لیا تو انشاء ہمیں علم نورانی و عرفانی کے ساتھ علم نافع نصیب ہوگا،اور ہماری تقریر و تحریر سے امت کو فائدۂ تامہ حاصل ہوگا،اللہ تعالیٰ ان کہی ہوئی باتوں پر ہمیں بھی عمل کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کو بھی۔
بڑے حضرت دامت برکاتہم کے استاذِ گرامی بھی اس مجلس میں رونق افروز تھے،ان کی ہی مستجاب دعاؤں پر مجلس اختتام پزیر ہوئی،
اور بزمِ ابو المحاسن سجاد ؒ طلبائِ بہاراڈیشہ و جھار کھنڈ جامعہ اشاعت العلوم اکل کنواں کے شرکائِ انجمن نے اپنے مشفق و مہربان وکرم فرما رئیسِ مَحترم حضرت صدیقِ ثانی مولانا غلام محمد وستانوی حفظہ اللہ کو ان کے کارہائے گراں مایہ کا اعتراف کرتے ہوئے شیلڈ اور ایواڈ سے سرفراز فرمایا،حضرت مفتی انعام الحق صاحب قاسمی نقشبندی[استاذِ حدیث دارالعلوم عالی پور بھی حضرت کے ہاتھوں شیلڈ سے سرفراز ہوئے،اور بندے گناہ گار کو بھی بزم ابو المحاسن کے نگراں و طلبائِ عزیز نے فراموش نہیں کیا،بندے نے بھی حضرت مولانا غلام محمد وستانوی کے دستِ حق پرست سے شیلڈ اور ایواڈ کو وصول کر کے اس شبِ نورانی کو اور شبوں کے مقابلے میںقیمتی اور گراں قدر باورکرتا ہے،اور اس انعامِ باری پر رب کا خوب شکر ادا کرتا ہے۔[گرچہ شیلڈ پر نظر ثانی نہ ہونے کی وجہ سے اغلاط وسیٹنگ میں گڑبڑی ہے]اور بزم ابو المحاسن سجاد ؒ کے شرکاء نے اپنے گرامی قدر اساتذۂ کرام کے واسطے اعلیٰ قسم کی بریانی سے ضیافت کی ،اور اپنے ساتھیوں کے لئے ۱۷؍ سو پاکٹ ناشتے کا تیار کیا اور بعد العشاء ان کی ضیافت کی فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔
پروگرام سے فراغت کے بعد مولانا عالم گیر صاحب قاسمی کھگڑیاوی کے گھر پر مہمانوں کی پر تکلف دعوت تھی،اور آرام کے لئے حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم دارالقرآن کے بازو میں بہت ہی ـخوبصورت عظیم الشان مہمان خانہ جو جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کے کے ذمہ داروں کے اعلیٰ ذوقی کا عکاس ہے،آرام کرنے تشریف لے گئے،اور بندہ اور مفتی انور صاحب مولانا عالم گیر کے مہمان خانہ کی افتتاح کے نیت سے ان کی ہی شاندار مہمان خانہ میں آرام کے لئے بسترِ استراحت پر دراز ہوگئے،اور قبیلِ صبحِ صادق اٹھ کر شکرانے کا چارگانہ ادا کر کے فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے ان کے محلے کی مسجد میں گئے،اور حضرت اقدس شیخ القراء قاری احمد اللہ صاحب کے شاگرد کی معیت میں بڑی عمدہ قرآت کے ساتھ نماز ادا کرنے کا موقع ملا۔ فللہ الحمد
صبح صبح مولانا عالم گیر صاحب چائے ناشتے کی ضیافت ہی کر رہے تھے کہ حضرت مولانا مرشد صاحب عمت فیوضہم العالیہ کا فون آیا کہ حضرت مولاناحذیفہ صاحب وستانوی حفظہ اللہ نے ۸؍ بجے صبح ملاقات کے لئے وقت متعین کیا ہے،چونکہ مولانا کو مالے گاؤں پروگرام میں جانا ہے،اس لئے وقت کا خیال رکھیں،ہم لوگ تیزی سے اس عالم دین فاتحِ کویت سے ملنے چلے جو اپنی کم عمری میں جامعہ جیسی عظیم ادارے کے روحِ رواں،اور ناظمِ تعلیمات ہیں،یہ مولانا غلام محمد وستانوی دامت برکاتہم کی خوش نصیبی اور ان کی ڈھیر ساری نیکیوں اور اخلاص کی برکت ہے کہ ان کی زندگی میں ہی ان کا نائب اور خلیفہ تیار ہوگیا،جو نہ کہ ایک مخلص خادمِ دین ہیں،بلکہ ایک علمی اور قلمی شخصیت ہیں،شاہ راہِ علم جیسے مؤقر رسالے کے اڈیٹر اور بہت سارے عربی واردو مجلے میں مضامین مقالا اور سفر نامے چھپ رہے ہیں،اور بصیرت آن لائن کے مہمانِ خصوصی اور دیگر بہت سارے پروگرام میں شرکت کر رہے ہیں، اور امت کے لئے مفید اور کار آمد مشورہ دے رہے ہیں۔
ہم لوگ مولانا کی خدمت میں پہونچے تو بہت خوش ہوئے،اور بتایا بس سفر کی تیاری ہے اور رات واپسی تک چھ پروگرام نمٹانا ہے،اور مفتی انعام صاحب دامت برکاتہم سے دریافت فرمایا! حضرت پیرمولانا ذوالفقار نقشبندی عمت فیوضہم العالیہ سے رابطے کا کوئی نمبر ہو تو بتائیں،کیونکہ میں بھی حضرت دام مجدہم ہی سے بیعت ہیں،پھر جو گفتگو کا سلسلہ پیر بھائیوں میں چلا وہ دیدنی اور شنودنی تھا،مگر قلتِ وقت دامن گیر تھا،اس لئے زمزم اور کھجور کی ضیافت پر مجلس اختتام پزیر ہوگئی۔
اور پھر حضرت مولانا مرشد صاحب کے داماد کے گھر ناشتے کا پر کیف اھتمام تھا،اور انواع واقسام کے اشیاء سے دسترخوان سجا ہوا تھا کہ مولانا کے داماد پہلے ہی سے مفتی صاحب کے عزیز وقریب میں ہیں،اور ان کے بڑے بھائی مولوی جاوید دھرم پوری نے عالی پور میں بندے سے بھی شرفِ تلمذ حاصل کیا ہے۔
الغرض بندے کے لئے بہت ہی مفید کارآمد اور فیض رساں اور سبق آموز سفر رہا،اور حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم سے پورے سفر رودادِ سفر سنتا رہا کہ سالوں بعد ان کی معیت نصیب ہوئی تھی،اور جامعہ جیسے با فیض ادارے اور بڑے حضرت دام زیدہم سے بھی خوب استفادے کا موقع ملا فجزاہم اللہ احسن الجزاء ساڑھے نو بجے ہم سب براق پر سوار ہو ئے ،اور مولانا کلاتھ اسٹور سے جوڑے کا ہدیہ وصول کر کے قبیلِ جمعہ بارڈولی دارالاحسان کی مسجد میں پہونچے اور حضرت مفتی صاحب مدظلہ کا پر کیف و پر مغز بیان جو جامعہ دارالاحسان کے طلباء کے مزاق اور مزاج کے مطابق تھا، پھر سننے کا موقع دستیاب ہوگیا،حضرت مفتی فاروق صاحب قاسمی دربھنگوی دامت برکاتہم جو دارالعلوم دیوبند کے ہمدرس ہیں،اور اونچی شان رکھتے ہیں،ملاقات کرتے ہوئے اور دعائیں وصولتے ہوئے۴؍ بجے بعافیت تمام دارالعلوم محمودیہ اون،سورت گجرات پہنچ گئے فللہ الحمد والمنہ۔
ناکارہ عبد القیوم قاسمی خادم دارالعلوم محمودیہ اون،سورت گجرات
ومدیر اذانِ ہند اون،سورت
۹۸۷۰۰۶۷۸۰۶۔
Comments are closed.